گارڈین کورٹ کے مسائل۔ آخر مسیحا کہاں سے نمودار ہوگا

گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ 1890کو126سال گزر چکے،آج تک اس قانون میں ترامیم نہیں ہوسکی ہے سوائے ہلکی سی جنبش جسے ترامیم نہیں کہا جا سکتا ہے۔ گارڈین عدالتوں میں خطرناک حد تک کیسز بڑھنے کی بنیادی وجہ مصالحت کے نظام کا غیر فعال ہو نا ہے، میاں بیوی کی علیحدگی کے بعد بچے کا 97% فیصد وقت صرف ایک فریق (ماں)کو دیا جانا بھی ناانصافی ہے۔۔میاں بیوی کے مابین علیحدگیوں کے نتیجے میں گارڈین عدالتوں میں خطرناک حد تک مقدمات کااضافہ ہوتا چلا جارہا ہے. گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ 1890میں ترامیم وقت کی ایک اہم ضرورت، کیونکہ 126ال گزر چکے ہیں اس میں آج تک ترامیم نہیں ہوسکی ہیں سوائے ہلکی سی جنبش کے،کہ وہ ہوئی تو تھیں لیکن نہ ہونے کے برابر ہیں تاہم انہیں اس قانون میں ترامیم نہیں کہا جا سکتا۔ گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ ہی سارے مسائل کی جڑ ہے جس کی وجہ سے علیحدگی کے بعد ایک فریق کو بچے سے ملاقات کے لئے پو را مہینہ دے دیا جا تا ہے جبکہ دوسرے کو صرف 2گھنٹے ملتے ہیں۔ میاں بیوی کی علیحدگی کے بعد بچے کا97% د وقت صرف ایک فریق کو دے دیا جا تا ہے حالانکہ یہ وقت 50،50فیصد برابری کی شرح پر دیا جانا چاہیے۔ سرکاری سطح پر صلح کے نظام کا غیر فعال ہونا، شادی کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرنیوالے کسی بھی ادارے کی غیر مو جودگی، میا ں بیوی کے ما بین عدم برداشت، معاشی بدحالی، ذاتی انا اور روزمرہ کی بہت سی وجوہات کی بنا پرطلاق کی شرح بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ چھوٹا سا کمرہ ہے جہاں پربچے اور والدین سسکیوں اور آہوں کے ساتھ چند گھنٹوں کی ملاقاتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ ملاقات کے بعد معصوم بچوں کے منہ سے ’’ہائے امی‘‘ اور ’’ہائے ابو‘‘ کی چیخیں ہر شخص کی آنکھیں نم کر دیتی ہیں۔ گارڈین کورٹس میں آنے والے بچے والدین کے باہمی جھگڑے کے باعث کسی ایک کے ساتھ زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ یہ بچے عدالتوں میں اداس نظروں اور مرجھائے ہوئے چہروں پر امید کی ہلکی سی کرن اور دل میں اس شدید خواہش کے ساتھ آتے ہیں کہ شاید اس دفعہ ہی عدالتی احکامات، وکلاء کی پروفیشنل قابلیت، رشتہ داروں یا کسی سماجی شخصیت کی مداخلت ان کے والدین میں صلح کروا دے اور وہ اپنی باقی زندگی کائنات کے انمول رشتوں کے دامن میں گذارتے ہوئے حقیقی خوشیوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ مگر عدالتوں میں آنے والے بہت کم بچوں کی یہ خواہش پوری ہو پاتی ہے۔ اکثریت معصوم ذہنوں میں جنم لینے والے ان گنت سوالوں کا جواب حاصل کئے بغیر مایوس ہو کر لوٹ جاتی ہے۔ ملاقات کے اوقات میں ان کے ہاتھوں میں والدہ یا والد کھلونے، جوس کے پیکٹ، نمکو، فروٹ اور دیگر تحائف تھما دیتے ہیں مگر بچوں کی نظریں ان چیزوں سے قطع نظر کسی ایسے معجزے کی تلاش میں رہتی ہیں جو کائنات کے دو خوبصورت ترین اور فطری رشتوں کو ایک کر دیں۔ والدین اور بچوں کی ملاقاتوں میں کئی رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جب ملاقات ختم ہوتی ہے تو بچے والدین سے لپٹ کر رونے لگتے ہیں۔ والدین ان کو بظاہر مسکرا کر مگر زخمی دل کے ساتھ ایک دوسرے سے جدا کر کے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ ۔ والدین کی جھوٹی انا کا شکار ہونے والے یہ بچے مختلف ذہنی امراض کے ساتھ ساتھ احساس محرومی کا شکار ہیں جس کے باعث بڑے ہو کر معاشرے میں مفید شہری کا کردار ادا کرنے کے بھی قابل نہیں رہتے ہیں۔ والدین مقدمے بازی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں جبکہ وکلاء اور سول سوسائٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ ان حالات کا ذمہ دار وہ ماحول ہے جو ابتر معاشی حالات، مشترکہ خاندانی نظام سے دوری، مصالحتی نظام کی پیچیدگیوں، مذہب سے راہنمائی نہ لینے اور والدین کی جھوٹی انا کے باعث جنم لیتا ہے۔ اس ماحول کے نتیجے میں گزشتہ ایک سال کے دوران گارڈین شپ کے مقدمات میں ساٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے کسی وکیل کیلئے گارڈین شپ کے مقدمے لڑنا سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے کیونکہ بچوں کو پیش آنے والے مسائل ان کو بھی پریشان کر دیتے ہیں۔ گارڈین کورٹ کے ایک فاضل جج نے کہا کہ اگر والدین اپنے بچوں کو الجھنوں سے بچانا چاہتے ہیں تو ان کو باہمی جھگڑے عدالتوں سے باہر ہی حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ عدالتوں میں دونوں میاں اوربیوی کو اپنی اپنی جھوٹی اناوں کا مقابلہ جیتنے کے لئے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں اور اس میں وہ کتنی ہی حدیں پار کر جا تے ہیں جو انتہائی افسوس ناک امر ہے۔گارڈین کورٹ کے معاملات کے حوالے سے بہت سے مسائل اتنی پیچیدگیوں کے حامل ہیں کہ بچے بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ ماتحت عدلیہ میں میاں بیوی کے درمیان علحیدگی کی وجہ سے بچوں کی حوالگی اور اُن کی اپنے والد یا والدہ سے ملاقات کے حوالے سے احسن طور پر امور انجام نہیں دئیے جارہے ہیں۔ ایک مہینے کے بعد د و گھنٹے کی ملاقات وہ بھی ایک ڈربہ نما کمرئے میں جہاں سینکڑوں اور لوگ بھی اپنے بچوں سے ملنے کے لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اگر خادم اعلیٰ اپنی آنکھوں سے جاکر ماتحت عدلیہ کے زیر انتظام عدالتوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کا حشر دیکھ لیں تو اُن کو اندازہ ہو جائے گا کہ اِس طرح تو کبوتر بھی کسی ڈربہ نما کمرئے میں نہیں رکھے جاسکتے جس طرح کہ گارڈین کورٹس کی حالت زار ہے کہ بچے اپنے ولادین سے ملاقات کے لیے ذلیل وخوار ہو رہے ہوتے ہیں اور یہی حال اُن کے والدین کا بھی ہوتا ہے۔والدین کی ناچاقیوں کی سزا معصوم بچوں کو تو بھگتنا پڑتی ہی ہے اِس کے ساتھ ساتھ بچوں کے ماں باپ بھی گارڈین کورٹ کے چکر لگا لگا کر اور بچوں کے لیے نان و نفقہ کے حصول کے لیے جس طرح عدالتوں میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یقینی طور ماں اور باپ اور اِسی طرح بچوں کے لیے بھی ایک مشکل صورتحال بن جاتی ہے۔ دوسری طرف اگر ان بچوں کی تعلیمی استعداد اور اُن کی ذہنی کیفیات کا اندازہ لگایا جایا تو یہ امر بالکل واضع ہے کہ بچے ذہنی طور پر کافی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔بن ماں یا باپ کے بغیر بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہونے والے مضر اثرات کا ادراک وہی کر سکتا ہے جو اِس چکی میں پس رہا ہو۔ ماں یا باپ کے فوت ہوجانے کی صورت میں بچوں کو یہ صبر کو آہی جاتا ہے کہ اُن کی ماں یا اُن کا باپ اب اِس دُنیا میں نہیں ہے۔لیکن جب بچے اپنے ہم جماعتوں کو اپنے والدین کے ساتھ دیکھتے ہیں اور والدین کی مشترکہ تربیت اور محبت سے استفادہ ہو رہے ہوتے ہیں تو یہ معاملہ اُن بچوں کے لیے سوہانِ روح بن جاتا ہے۔ماں یا باپ کی علحیدگی کی وجہ سے منتشر خیالات کے حامل بچے معاشرئے کے لیے اُس طرح ذہنی طور پر بہتر شہری ثابت نہیں ہو پاتے جس طرح والدین کی آغوش میں پلنے والے بچوں کی پرورش ہورہی ہوتی ہے۔ حالیہ ایک دہائی سے پاکستانی سو سائٹی کے بودوباش میں عجیب و غریب تبدیلی آئی ہے۔ اِس تبدیلی کو اگر تباہی سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ٹی وی چینلز کی بھرمار، موبائل فون اور انٹرنیٹ کا بے تحاشہ استعمال معاشرئے کو ایسے دوراہے پہ لے آیا ہے کہ خاندانی نظام کی دھجیاں بکھرتی جارہی ہیں۔ دادا دادی جو کسی بھی گھر کے لیے نعمت و رحمت تصور ہوتے تھے اور اسلامی و مشرقی معاشروں کی پہچان تھے اُن کے حوالے جو صورتحال بنی ہے وہ یہ کہ اُن کا احترام ختم ہو کر رہ گیا ہے ۔ دوسرا والدین کا احترام والا نظریہ بھی بہت حد تک مفقود ہوتا جارہا ہے۔ تیسرا موبائل فون کی وجہ سے سارا جہاں ایک بٹن کے دبانے پر آشکار ہونے کے لیے ہر وقت تیار ہوتا ہے اِس لیے زندگی میں ہوس پرستی نے اتنی جگہ بنا لی ہے کہ اب خلوص اور وفا صرف شاعری کی کتابوں میں ملتے ہیں۔ معاشرئے میں تعمیر و تربیت کے لیے سب سے اہم خیال کیا جانے والا شخص اُستاد اِس وقت اُس مقام کو کھو چکا ہے جو اِس معلمی پیشے کا خاصہ تھا۔اب اُستاد بھی پیسہ کمانے والی مشین بن چکا ہے کیونکہ معاشرتی اخلاقی زوال پذیری اِس نہج تک پہنچ چُکی ہے کہ اُستاد کا درجہ ایک ملازم کی طرح کا ہو چکا ہے اِس کی وجہ معاشرئے میں دولت کی عزت ہے اور یوں پرائیوٹ اداروں میں علم کی روشنی کی بجائے ڈگریوں کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔اُستاد کے احترام کے ساتھ ساتھ والدین کی محبت کی خوشبو کو بھی اِس مادیت پرست روش نے بدبو بنا چھوڑا ہے۔پاکستانی معاشرئے میں برداشت کی کمی کی وجہ سے گارڈین کورٹ کے سائلین کے مسائل کا حل نکالنا چیف جسٹس آف پاکستان اور پاکستان کے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔
 

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 384826 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More