خواتین کے ساتھ مردوں کے تحفظ کا بل بھی ضروری ہے!!

تحریر:تبسم عطاء اﷲ خان۔ملتان
ڈاکٹر لیزا کلنگر ایک امریکی لیڈی ڈاکٹر ہیں جو لگ بھگ تیس برس قبل مسلمان ہوئی ہیں اور معروف مبلغہ ہیں،یہ اسلام پر حقوق نسواں کے حوالے سے لگنے والے الزامات کا دندان شکن جواب دینے کے سلسلے میں خاصی معروف ہیں،ان کے لیکچر کے اختتام پر ان سے سوال ہوا کہ آپ نے ایک ایسا مذہب کیوں قبول کیا جو عورت کو مرد سے کم تر حقوق دیتا ہے،انہوں نے جواب دیا کہ میں نے تو جس مذہب کو قبول کیا ہے وہ عورت کو مرد سے زیادہ حقوق دیتا ہے،پوچھنے والے نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ ڈاکٹر صاحبہ نے کہا کہ دو مثالوں سے سمجھ لیجئے! پہلی یہ کہ اسلام نے مجھے فکر معاش سے آزاد رکھا ہے،یہ میرے شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ سارے میرے خرچے پورے کرے،فکر معاش سے بڑا کوئی دنیاوی بوجھ نہیں ہے،اور اﷲ تعالیٰ نے ہم عورتوں کو مکمل طور پر بری الزمہ رکھا ہے۔شادی سے قبل یہ ہمارے باپ کی ذمہ داری ہے اور شادی کے بعد شوہر اس کا ذمہ دار ہے،دوسری مثال یہ ہے کہ اگر میری ملکیت میں سرمایہ یا پراپرٹی وغیرہ ہے تو اسلام کہتا ہے یہ صرف تمھارا ہے اور تمھارے شوہر کا اس میں کوئی حق نہیں۔جبکہ مرد کو اسلام کہتا ہے کہ جو تم نے کمااور بچا رکھا ہے یہ صرف تمھارا نہیں ہے،یہ صرف تمھارا نہیں بلکہ تمھاری بیوی کا بھی ہے اور اگر تم نے یہ حق ادا نہ کیا تو میں تمہیں دیکھ لوں گا۔تو سوچئے ذرا اسلام میں خواتین کے حقوق کا کس قدر خیال رکھا جاتا ہے۔

فرد معاشرے کی اکائی ہے۔دو متضاد افراد یعنی مرد اور عورت خاندان بناتے ہیں،اور بہت سارے خاندان معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں،اس دنیا میں دو معاشرے پائے جاتے ہیں ایک دینی اور دوسرا بے دین یا سیکولر۔بے دین معاشرہ میں ہر طرح کی خباثتیں ملتی ہیں۔اس معاشرے میں فرد سے لے کر خاندان اور خاندان سے لے کر معاشرے تک سب عدم تحفظ کا شکار ہیں،ماں باپ کو اولاد سے خطرہ،میاں کو بیوی اور بیوی کو میاں سے خطرہ ہے۔ان کا خاندان،معاشی اور معاشرتی نظام تباہی کا شکار ہے۔جب کہ دینی معاشرے میں فرد سے لے کرخاندان اور خاندان سے لے کرمعاشرے تک سب کو یکساں تحفظ ہے۔

ایک دینی معاشرے کی بنیاد رسول اﷲ ﷺ نے 14سو سال پہلے مدینہ منورہ میں رکھی۔بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے واشگاف الفاظ میں فرمایا تھا’’پاکستان حاصل کرنے کا مقصد محض ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنا نہیں بلکہ ہم دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ 14سو سال پرانے قوانین جو اﷲ اور اس کے رسولﷺنے بنائے ہیں وہ آج بھی کار آمد ہیں‘‘وہ قوانین چاہے عائلی ہوں یا معاشرتی،دین اسلام کا خاندانی نظام مضبوط ہونے کے سبب جتنے ہیروز مسلمانوں کی تاریخ میں رہے ہیں دنیا کی کسی قوم میں نہیں ملتے،طاغوتی اور سامراجی طاقتیں ہمارا معاشرتی نظام تباہ کرنے کے بعد خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔

ویمن پروٹیکشن بل بظاہرخواتین کے تحفظ کیلئے بنایا گیا ہے درحقیقت یہ مسلم خواتین کی غیرت کو للکار ہے۔اسلام میں شوہر کا مقام و مرتبہ اس کے کردار کی وجہ سے اہم ہے۔شوہر اپنی بیوی کی ماں یعنی ساس کو اپنی ماں کا درجہ دیتا ہے،اس کی عزت کا محافظ اور بڑھاپے کی قدر کرتا ہے۔اپنی بیوی کے باپ یعنی سسر کو اپنے باپ کے برابر درجہ دیتا ہے۔شوہر اپنی بیوی اور بچوں کے نان نفقہ کا ذمہ دار ہے،وہ اپنے خاندان کا ہر طرح خیال رکھتا ہے۔ایک شوہر ایک اچھی بیوی کا کبھی بھی برا نہیں سوچے گا،اسے کبھی سزا کا نہیں سوچتا ہے،رشتوں میں بگاڑ تب آتا ہے جب ایک یا دونوں طرف سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب بیوی یا خاوند اپنی حدود اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں۔شوہر کی اطاعت بیوی کی دنیا اور آخرت میں سرخروئی کا باعث ہے،شوہر کا گھر بیوی کیلئے مضبوط قلعہ ہیں اگر عورت اس قلعے کی حدود میں ہیں تو محفوظ ہیں قلعے کے باہر تو فوجیں بھی ماری جاتی ہیں،گھونسلے سے باہر نکلنے والے پرندوں کو تو گدھ بھی نوچ لیتے ہیں۔

ہمارے ایوانوں میں جہاں عورت کے حقوق اور تحفظ کے قوانین بنائے جارہے ہیں وہاں مردوں کیلئے بھی قوانین بنانے کی ضرورت ہے،کسی ایک جنس کو فائدہ پہنچانے سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا،طلاق کی شرح بڑھ جائے گئی،نوجوانوں کا شادی جیسے مقدس فرض سے اعتبار اٹھ جائے گا۔اہل دانش نے اگر اس پر غور کرنا شروع کرہی دیا ہے تو تمام فیکٹرز کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک بہترین قانون بنائیں جو تمام مذاہب،تمام طبقات کیلئے قابل قبول ہو۔

Azhar Thiraj
About the Author: Azhar Thiraj Read More Articles by Azhar Thiraj: 77 Articles with 68430 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.