موجودہ قومی مسائل کا حل کیا ہے؟

 

یوں تو مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی کوششیں یکساں سول کوڈ کے نعرے ہندوستانی مسلمانوں کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بہت پہلے سے یہ راگ آلاپے جا رہے ہیں مگر حال ہی میں ماضی کے ان سلسلوں سے جڑی ایک کڑی اس وقت ظاہر ہوئی جب 13؍ اکتوبر کو جسٹس وکرم جیت سنگھ او رشیوا کیرتی سنگھ پر مشتمل سپریم کورٹ کی ایک دو رکنی بنچ نے یہ سوال اٹھایا اورحکومت ہند سے دریافت کیا کہ وہ’’ یونیفارم سول کوڈ‘‘ نافذ کر نا چاہتی ہے یا نہیں؟اس کے بالکل دوسرے ہی دن مرکزی وزیر قانون ڈی وی سدانند گوڈ انے سپرم کورٹ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’یونیفارم سول کوڈ ملک میں قومی یکجہتی کے لئے ناگزیر ہے‘‘ ۔ یوں لگتا ہے جیسے حکومت اس سوال کی پہلے سے منتظر تھی ،فوراً دو ٹوک انداز میں جواب دے دیا۔

یونہی ایک اور واقعہ بھی اس سلسلہ کی کڑی ہے ،5؍نومبر کو گجرات ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت کو باقاعدہ یہ حکم دیا کہ ’’یکساں سول کوڈ نافذ کیا جائے‘‘ ساتھ ہی یہ مفت مشورہ بھی دے دیا کہ’’ مسلمانوں کو کثرت ازدواج کی اجازت نہ دی جائے ‘‘۔اور یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ کی مذکورہ بنچیں جنہوں نے یکساں سول کوڈ کی بات کی وہ کسی مسلمان مدعی کے مقدمے کی سماعت نہیں کر رہی تھیں، بلکہ ایک بنچ ’’عیسائیوں میں طلاق ‘‘ کے معاملہ پر اور دوسری بینچ ’’ہندوؤں میں وراثت‘‘ کے سوال پر مقدموں کی سماعت کر رہی تھی ۔اس کے بعد کبھی یہ کہکر یکساں سول کوڈ کے لئے راہ ہموار کی جا تی ہے کہ ’’ مسلم خواتین کو وہ حقوق نہیں ملے جو آئین ہند نے انہیں فراہم کئے ہیں ،شادی او رطلاق کے معاملے میں ان کا بے جا استحصال کیاجاتا ہے ‘‘،کبھی یہ کہکر یونیفارم سول کوڈ کی بنیاد فراہم کی جا تی ہے کہ ’’مسلمانوں کو چار بیویوں کی اجازت کا مسئلہ آئین سے میل نہیں کھاتا اور یہ کہ کثرت ازدواج دراصل قرآنی آیات کی غلط تشریح ہے‘‘ ۔ عدالت عظمیٰ کے ایک فاضل جج نے یہاں تک جرأت کر ڈالی کہ ’’نکاح ،طلاق اوروراثت جیسے مسائل کا تعلق دین سے ہر گز نہیں ہے‘‘۔

مرکزی حکومت اورفرقہ وارانہ ذہنیت رکھنے والی کچھ جماعتوں کی جانب سے یہ سعی پیہم ہو رہی ہے کہ کسی نہ کسی بہانے چور دروازے سے ہی سہی ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کیا جائے۔ سول کوڈکے اس مسئلہ کو لے کر ملک بھر میں اظہار خیالات کا بازار گرم ہے، اس کے ناقدین اور مؤدین کی قطاریں لگی ہوئی ہیں،بحث و مباحثہ ،جواب الجواب کا لا متناہی سلسلہ جاری ہے، اس میں میڈیا آگ میں گھی ڈالنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے؟ یکساں سول کوڈ کے بعض ناقدین اس کے نقصانات کو ظاہر کر تے ہوئے یہ باور کر انے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس سے ملک میں رواداری نہیں بلکہ تفرقہ اور پھیلے گا،یک جہتی کا فروغ نہیں بلکہ رواداری کادوالیہ نکلے گا۔ کچھ مذہبی ہمدردی رکھنے والے اسلام میں نکاح ، طلاق اور وراثت جیسے عائلی قوانین کی حکمتیں واضح کر نے میں مصرف ہیں۔ کہ اسلام نے جو بھی احکام بطور قوانین نافذ کئے ہیں عدل او رانصاف کی بنیاد پر کئے ،اس میں کسی کی برتری اور کمی مقصود نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کسی پر ظلم و زیادتی ہو تی ہے۔ بلکہ یہ فطری قوانین ہیں جنہیں ہر سلیم الفطرت شخص قبول کر تا ہے۔ کسی نے یہ کہا کہ عالمی سطح پراور خود ہندوستان میں بھی ایک سے زیادہ شادیوں کا رواج مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں میں ہے ،عدالت نے داشتہ رکھنے کی اجازت دے کر بیویوں کے حقوق چھین کر داشتاؤں کے لئے راستہ ہموار کیاہے۔کوئی یہ کہکر حکومت کو چیلنج کر رہا ہے کہ اگر ملک میں یکساں قانون بنے گا تو وہ قانون کون سا ہو گا؟ منوسمر تی والا قانون․․․؟ یا شاستروں والا قانون ․․․؟ کسی نے یہ کہکر مخالفت کی کہ یہ یکساں سول کوڈ کا مطالبہ دراصل ہندوؤں کا ایک درد ہے کہ ’’ستی‘‘ کی رسم بند ہوئی ،انکے مذہبی پرسنل لاء ختم ہوئے لہٰذامسلمانوں کے پرسنل لاء بھی ختم ہو نا چاہئے۔اس طرح جتنے دماغ اتنے خیالات ظاہر ہو رہے ہیں۔

آزادی ہندکے بعد سے لے کر آج تک مسلسل مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی باتیں دہرائی جا رہی ہیں، ہندوستان کو برطانوی سامراج کے چنگل سے آزاد کر اکر اس ملک کے باشندوں کو آزادی کا پر وانہ دینے میں ہندو مسلم برابر کے شریک ہیں۔ انگریزی حکومت دونوں کا استحصال کر نے والی مشترکہ دشمن تھی۔ آزادی کیلئے جس طرح ہندوؤں نے خواب دیکھے، اسکے حصول کے لئے جان و مال کی قربانیاں پیش کیں ،یونہی مسلمان بھی اپنے ملک کی آزادی کے خواب کو سچ کر نے کفن پوش ،سر بکف ہوکرجان و مال کے نظرانے پیش کئے۔ آزادی کے متعلق عوام میں شعور بیدار کر نے کی پاداش میں نامور مسلم علماء کو اینڈ مان و مالٹا جزیروں میں عمر قید کی صعوبتیں برداشت کر نی پڑیں، کئی علماء کو پھانسی کے پھندے پر چڑھا یا گیا، لاکھوں مسلمانوں نے ملک کی خاطر اپنی جانوں کے ہدیے پیش کئے۔ مسلمانوں نے وطن عزیز کے لئے دارورسن، قید و بند کی تمام سخت ترین آزمائیشوں کو برداشت کیا۔ صرف اس لئے کہ انہیں یہ یقین تھا کہ ’’شب گریزاں ہو گی آخرجلوۂ خورشید سے ‘‘۔ یہ امید تھی کہ ایک دن غلامی کی تاریک رات ختم ہو گی او رآزادی کی نئی صبح خوشیاں بکھیر تی ہوئی جلد از جلد طلوع ہو گی ، پھر ہم مکمل آزادی کے ساتھ اپنے ملک میں عزت و وقار کی زندگی گزار سکتے ہیں، جان و مال و آبرو کی حفاظت ہو گی ،اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ ’’رب چاہی زندگی‘‘ گزار سکتے ہیں!

لیکن انہیں کیا خبر تھی کہ انکے یہ خواب ،خواب ہی رہ جائیں گے ،کبھی یہ شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتے ۔ ہزاروں جان کے نظرانے پیش کر نے کے باوجود آج اسی قوم سے حب الوطنی کے ثبوت طلب کئے جا رہے ہیں ،چند لفظی نعرو ں کو لے کر وطن کے تئیں انکے جذبا ت کو چلینج کیا جا رہا ہے ۔سر راہ یہ بات بھی عرض کر تے چلوں کہ حب الوطنی ایک پاکیزہ جذبہ ہے جس کے نتیجہ میں انسان اپنا سب کچھ لوٹانے کو تیار ہو جاتاہے۔ ہم مسلمانوں کو اس وطن عزیز سے جذباتی حد تک محبت ہے، اسکے شہری ہونے پر فخر ہے،ہم اس ارض گیتی کیلئے مر مٹنے کو تیار ہیں،ان جذبات و احساسات کی ترجمانی علامہ اقبال ؒنے ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘پیش کر کے سارے مسلمانوں کے جذبات کی نمائندگی کی ہے۔ اس والہانہ عقیدت کے باوجود محض الفاظ کی سطح پر اتر کرصرف چند کھوکھلے نعروں کو حب الوطنی کی علامات قرار دینا ایک نا قابل تلافی جرم ہے۔

اس وطن کے معمار ہم ہیں، اس ملک کی آبیاری میں ہمارا خون بھی شامل ہے ،اسی لئے اس ملک کے قانونی خطوط کھینچنے والے دانشوروں نے دفعہ ۲۵ اور ۲۹ کے ذریعہ مسلمانوں کو مذہبی تحفظات فراہم کئے ہیں۔ مگر ہائے رے نئے رنگیٔ تقدیر کہ ملک کو آزاد ہو نا تھا اس کے دوسرے ہی پل سے ایک متشد دانہ رویہ رکھنے والے گروہ کو یہ قبول نہیں تھا کہ مسلمان اس ملک میں رہیں، اگر رہیں تو انکے لئے کوئی مخصوص رعایات حاصل ہوں ،لہٰذا آپس میں نفرتوں کے بیج بوئے جانے لگے ، عداوتوں کی دیواریں کھڑی کی گئیں ،چند ہی سال میں یہ فرقہ وارانہ ذہانت گروہی شکل اختیار کی گئی جس کے مظہر آج بھی R.S.S(راشٹریہ سنگھ سیوک) V.H.P(وشو ہندو پریشد)اور شیو سینا کے روپ میں دیکھے جا سکتے ہیں ،ان گروہوں کی سیاسی نمائندگی B.J.Pکر رہی ہے ۔ ہندوستان کی آزادی کے اول روز سے ہی ان کا نعرہ ’’ہندو ،ہندی ، ہندوستان‘‘ رہا ہے۔ چنانچہ 1956ء میں جب ہندو پرسنل لاء میں ترمیم کی گئی او رہندو کوڈ بل پاس ہوا تو اس وقت کے وزیر قانون مسٹر پاٹکرنے کہا تھا ’’ہندو قوانین میں جو اصلاحات کی جا رہی ہیں وہ مستقبل قریب میں ہندوستان کی تمام آبادی پر نافذ کر دی جائیں گی‘‘۔ گویا یہ خاموش اعلان تھا یکساں سول کوڈ کا!

1972ء میں لے پالک بل پیش ہونے والی تھی ۔ رائے عامہ معلوم کرنے حکومت نے اسے اخبارات میں شائع کیا ۔ مسلم علماء کی جانب سے اس کی سخت مخالف ہوئی، انہیں محسوس ہوا کہ یہ اقدام مسلم پرسنل لاء میں مداخلت ہے چنانچہ صد اہائے احتجاج بلند ہوئے ،بلا تفریق مسلک و مشرب سب یک زباں ہو کر حکومت کی پالیسیوں کی مخالف کرنے لگے ۔ اس وقت سے لے کر آج تک وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی طریقہ سے کسی نہ کسی جہت سے یہ کاوش جاری ہے کہ مسلم پرسنل لا میں مداخلت ہو کبھی ایک سے زائد شادیوں کے مسئلہ کو لے کر ، کبھی نکاح، خلع ، اور طلاق کے مسائل کو بنیاد بنا کر کبھی وراثت ، کبھی دیگر عائلی قوانین کا سہارا لے کر مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی ناکام کوشش کی جاتی رہی۔ جب بھی مداخلت کی ایسی کوئی بھنک لگتی ہمارے مسلم رہنما روایتی انداز میں عوامی بھیڑ اکھٹا کرکے حکومت کے سامنے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار تنبیہات و گذارشات کی شکل میں کرتے ، بعض حضرات ان عائلی مسائل کی منطقی توجیہ کرتے ، کوئی اپنے حب الوطنی کی قسمیں کھاتا تو کوئی حکومت کی عیاری و مکاری سے عوام کو آگاہ کرتے ……مگر کیا یہی ان مسائل کا حل ہے ؟

میں اپنی علمی کم مائیگی ، نوآموز فکری کے باوجود ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی مسلم قوم اور ان کی باگ ڈورسنبھالنے والے رہنماؤں سے دائرہ ٔادب میں رہ کر عرض گذار ہوں کہ کیا یہی ہمارا روایتی طرز عمل ہمارے موجودہ مسائل کا حل ہے ؟ یہی حل ہوتا تو روایتی جلسے ، جذباتی نعرے ہم کم از کم پچھلے چار دہائیوں سے لگا رہے ہیں،مگر آج تک حل ندارد۔ ہاں یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ یہ ہماری کاوشیں وقتیہ علاج تو ہیں مگر مستقل درد کا درماں نہیں ہے۔ تو پھر مستقل حل کیا ہے ؟ ہمیں سنجیدگی سے حالات و واقعات کا جائزہ لینا ہوگا، بکھرے ہوئے واقعات کو ایک لڑی میں پرو کر ہئیت حاصلہ کو اصلی مرض تصور کرنا چاہئے ۔ پھر اس کے علاج کیلئے ہونے والی کوششیں ثمر بار ہوسکتی ہیں۔

یہ بات مسلم ہے کہ اس ملک کی چار جمہوری بنیادیں ہیں ۔ ۱۔ انتخابات ۔ ۲۔ طرز حکمرانی ۔ ۳۔ عدلیہ۔ ۴۔ میڈیا ۔ عوامی فلاح و بہبود کیلئے جمہوری حکومت کا نظام بحال کیا گیا۔ لاء اینڈ آرڈر کی بحالی کیلئے پولیس اور فوج متعین کی گئی ۔ معاشرے کے منصفانہ قیام کیلئے عدالتیں قائم کی گئیں ان سب کے باوجود مسلمان نشانے پر ہیں ۔ حکومت کی طرز حکمرانی تعصبانہ ہے، عدلیہ اکثیریتی طبقہ کا طرفدار ہے ،میڈیا مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہا ہے۔ مسلمانوں کی آبادیوں میں فرقہ وارانہ فسادات کرائے جاتے ہیں،ہر موقعہ واردات پر چند مسلم نوجوان ہی قصور وار ٹھہرائے جاتے ہیں پھر ان بے قصور نوجوانو ں کی گرفتاریاں عمل میں آتی ہیں۔ کہیں مسلمانوں کو نوکری دینے سے انکار کیا جاتا ہے، تو کہیں کاروبار میں رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں، الغرض مسلمان کو بے یار و مددگار بنانے کا گھناؤنا کھیل پچھلی کئی دہائیوں سے کھیلا جارہا ہے ،روز افزوں اس میں ترقی ہورہی ہے ……تنزلی نہیں!

ایک مخصوص مذہب اور تہذیب کو مسلط کرنے کی مکمل تیاری کی جارہی ہے۔ سرکاری ملازموں کو ٹرینگ دی جارہی ہے جبراً نام و مذہب تبدیل کرنے کی ناکام کوششیں جاری ہیں۔ ہندوکرن برہمنی تہذیب سرچڑھ کر بول رہی ہے، سوریہ نمسکار ، یوگا ، وندے ماترم کو لازمی قرار دینے کی سعی جارہی ہے۔ تعلیمی نصاب کو بھگوا رنگ میں رنگنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے۔دوسری سمت شریعت اسلامی اور مذاہبی قوانین کو مسترد کرنے کی سعی ہورہی ہے تا کہ وہ قوانین نافذ کئے جاسکے جو برہمنیت کے استحصال پسند نظام کو لاگو کرنے کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔

کبھی جسٹس کاٹجو کے داڑھی اور برقعہ پر ریمارکس سامنے آتے ہیں ،کبھی دینی مدارس کے پر امن نظام میں دخل اندازی کرتے ہوئے’’ مدرسہ بورڈ ‘‘قائم کرنے پر زور دیا جاتا ہے ،کبھی بابری مسجد کی شہادت کے ذریعہ جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے، تو کبھی رام مندر کے مسئلہ کو لے کر خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے۔ نہ ہماری جان و مال محفوظ ہیں نہ ہماری مذہبی عمارتیں محفوظ ہیں۔ نفرتوں، عداوتوں کا زہر گھولنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا ۔ ہند وتفاخر کے مختلف مظاہر لو جہاد، گھر واپسی، گوماتا کی رکشا، بھارت ماتا کی جئے جیسے الگے الگ روپ دھار کروقفے وقفے سے سامنے آتے رہتے ہیں ۔ زہر کی تخم ریزی ہوچکی ہے اب فصل کاٹنے کیلئے کوئی بھی حکومت ہو ،کوئی بھی چہرہ وزارت اعظمیٰ پربراجمان ہو کوئی فرق نہیں پڑتا سب مسلمانوں کے حق میں یکساں ہیں۔ امبیڈکر کے منصفانہ قوانین اپنے صفحات میں سسک رہے ہیں، گاندھی جی کے عدم تشدد نظریات کی روح بلک رہی ہے، حکومت کی طرز حکمرانی پر جگ ہنسی ہورہی ہے۔

ان تمام حالات و واقعات کو بغور دیکھیں ان سے کچھ سیکھنے ، سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ تمام واقعات یک زبان ہو کر کہہ رہے ہیں کہ مسئلہ صرف مسلم پرسنل لاء کا نہیں، نہ ہی گو ماتا یا بھارت ماتا کا ہے بلکہ ان تمام واقعات کے پیچھے ایک ’’نفرت آمیز فکر‘‘ کارفرماہے جو کبھی فسادات کا روپ دھارتی ہے تو کبھی پرسنل لاء میں مداخلت کی جرأت کرتی ہے، کبھی تشدد کو روا رکھتی ہے تو کبھی انصاف کا خون کرتی ہے۔ ہم ان واقعات کا وقتی علاج ڈھونڈنے لگتے ہیں ،فسادات کی تفتیش پر زور دیتے ہیں، کبھی عدالتوں کی دہائی دیتے ہیں ۔ یہ وقتی علاج تو ہوسکتا ہے مگر دائمی علاج نہیں۔

کسی فکر کے بننے اور اس کے معاشرہ میں پروان چڑھنے میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔ یہ کوئی دجالی کرشمہ نہیں کہ ایک بار گی یہ نفرت آمیز فکر پروان چڑھنے لگی اور فسادات ہوئے بلکہ کئی دہائیوں سے اس نفرت کو پالا گیا ہے اس نفرت کی چوکور حفاظت کی گئی ہے۔ آخر ایک ملک کے باشندے جو شیر و شکر کی طرح رہتے تھے،شانہ بہ شانہ کھڑے ہو کر ملک کی آزادی میں شریک رہے …… ان تمام حقائق کے باوجود یہ حد درجہ نفرت کہاں سے اور کیسے گھر کر گئی کہ ایک فریق دوسرے فریق کے خون کا پیاسا ہوگیا؟

تاریخی صفحات الٹنے پر کچھ حقائق اس حوالے سے آشکار ہوتے ہیں ان میں سے صرف ایک کو بطور ثبوت پیش کیا جارہا ہے ۔ 14؍جنوری 1887ء کو برطانوی حکومت کے وزیر خارجہ ہیملٹن نے گورنر جنرل لارڈ کرزن کوایک خط لکھا :’’ اگر ہم ہندوستان کے تعلیم یافتہ طبقہ کو دو حصوں ہندو اور مسلم میں تقسیم کرسکتے ہیں تو اس سے ہماری پوزیشن مضبوط ہوگی…… ہمیں درسی کتب اس طرح تیار کرنا چاہئے کہ دونوں مذاہب کے اختلافات میں مزید اضافہ ہو‘‘۔برطانوی حکومت نے باضابطہ منظم سازش کے تحت ہندو مسلم کی نہ بجھنے والی آگ بھڑکادی ہے۔ موجودہ عالمی حالات صیہونی طاقتیں اس آگ میں مزید تیل ڈال رہی ہیں ۔ برطانوی دور حکومت میں باقاعدہ طور پر ہندو مسلمانوں کے درمیان اشتعال انگیزی برپا کرنے والے رہنماؤں ،پنڈتوں، مولویوں کو حکومت کی جانب سے خطیر رقم دی جاتی تھی، قیمتی نظرانے پیش کئے جاتے تھے۔

ان حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نفرت کی دیواریں غیروں نے ہمارے درمیان کھڑی کی ہیں۔ مغرب اپنی بدنام زمانہ پالیسی( Divide and rule )’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ پر آج بھی کاربند ہے ۔ ایشیاء کی تین بڑی قوتیں چین ، ہندو پاکستان کے درمیان نہ ختم ہونے والی خلیج پیدا کی گئی ہے۔ ملک کی داخلی سطح پر آپس میں ایک ہی ملک کے شہریوں کو لڑایا جارہا ہے ۔ ان کے پیچھے مغرب کے اپنے سیاسی مفادات وابستہ ہیں۔

سنجیدہ اور حکمت کے ساتھ ہمارے ہم وطن بھائیوں کو ان حالات کے بارے میں معلومات فراہم کئے جائیں ۔ میڈیا کے ذریعہ منطقی انداز میں موجودہ روش کی حوصلہ شکنی کی جائے ،ان کے نقصانات سے آگاہ کرایا جائے ۔ ہر وہ طریقہ جو نفرتوں کی خلیج کو پاٹنے میں مؤثر معلوم ہو بروئے کار لایا جائے ۔ وقتی تدابیر کے ساتھ اس دائمی حل کیلئے بھی کوششیں کی جائیں۔ ہمارا اصل مقصد آپسی نفرتوں کو ختم کرنا ہے۔ ظاہر ہے یہ نفرتوں کے پودے سالوں سے لگائے گئے ہیں انہیں اتنی آسانی سے کاٹا نہیں جاسکتا ۔ سعی پیہم ، جہد مسلسل سے انشاء اﷲ بہتر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔ یہ نفرتیں ختم ہوجائیں تو پھر باقی تمام ذیلی مسائل خود بہ خود حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔ جزوی طور پر ہمارے کچھ احباب کی جانب سے اس سمت پہل ہوئی ہے۔ مگر وہ مشترکہ نہیں تھی جس طرح مسلم پرسنل لا ء کے تحفظ کی خاطر بلا تفریق مسلک و مشرب جدوجہد ہوئی یونہی نفرتوں کے خاتمہ کیلئے مجموعی طور پر کوئی مطمئن بخش لائحہ عمل تیار کیا جائے اور فی الفور اس پر عمل شروع کیاجائے۔ کیونکہ ہمارا یہ مسئلہ کوئی غیر اہم نہیں ہے کہ اسے نظر انداز کیا جائے ۔ اس سے کروڑوں افراد کا امن و سکون ،دین و دنیا حال و مستقبل جڑا ہوا ہے۔ ہمارے متعین کردہ خطوط آنے والے نسلوں کا مستقبل طئے کریں گے۔ واﷲ الموفق وہو المستعان

Shaikh Abdul Rehman Azhari
About the Author: Shaikh Abdul Rehman Azhari Read More Articles by Shaikh Abdul Rehman Azhari: 4 Articles with 7332 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.