کھڑا پارسی مجسمہ ۔ ممبئی

کہا جاتا ہے کہ کاسٹ آئرن سے بنے بڑے مجسمے دنیا میں صرف دو ہیں۔ ایک یہ کھڑا پارسی مجسمہ تو دوسرا ، ملک چیلی میں سیریس مجسمہ۔

پارسی ایک قوم ہے جو خاص طور پر بھارت میں آباد ہے۔ اس قوم کو پارسی قوم کہتے ہیں، اس لیے کہ ان کے آباء و اجداد ملکِ فارس یا فارسستان جس کا موجودہ نام ایران ہے، سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا مذہب زرتشتیت ہے، جسے Zoroastrianism کہتے ہیں۔

بھارت میں یہ قوم ریاست گجرات اور مہاراشٹر میں آباد ہے۔ ان ریاستوں میں اس قوم کو پارسی قوم ہی کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔انہیں’ ایرانی‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔

یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے، وہ یہ کہ موجودہ ایران کے مسلمان بی الخصوص اہلِ تشیع حضرات، انہیں بھی بھارت میں ایرانی کہا جاتا ہے مگر پارسی نہیں کہا جاتا۔

پارسی قوم مہاراشٹرا میں ممبئی اور پونا شہروں میں آباد ہے۔ پیشوں کے اعتبار سے یہ قوم کافی ترقی یافتہ ہے۔ بڑے بڑے کارخانے قائم کرنے اور انہیں چلانے میں ہمیشہ دلچسپی رکھنے والی اس قوم کو انگریزوں کے دور میں کافی ہمدردی اور رہنمائی بھی ملی، جس کی وجہ سے یہ قوم کافی ترقی کرگئی۔

شہر ممبئی کے ایک مشہور صنعت کار کرسیٹ جی منوک جی (خورشید جی منوک جی) ایک ماہر تعلیم اور اچھے سماجی کارکن گذرے ہیں ۔ ان کی سماجی خدمات کی وجہ سے کافی شہرت بھی پائی تھی۔ ان کی پیدائش ۱۷۶۳ء میں ہوئی اور وفات ۱۸۴۵ء میں۔ ان کے خاندان کے لوگ ان کی یاد میں ایک مجسمہ بنوایااور شہر ممبئی کے بائکولا علاقے میں چوراہے پر رکھا گیا۔ جو آج کل بائکولا فلائی اوور جنکشن کے پاس ہے۔ جسے کھڑا پارسی کا مجسمہ یا کھڑا پارسی کا پُتلاکہتے ہیں۔

اس مجسمے کی خاصیت یہ ہے کہ یہ ایک بڑے ستون پر کھڑا کیا گیا ہے، جس کی بلندی ۴۰ فٹ ہے۔ اس ستون کے درمیانی حصہ میں چاروں طرف چار فُٹ لمبے روشن دان لگے ہوئے ہیں۔ اس کے نچلے حصے میں نقش و نگاریوں کے درمیان Trust in God And be not Dauntedلکھا ہوا ہے۔ جس کا مطلب ’خدا پر بھروسا رکھو جو تمہیں خوف سے دور کرے گا‘۔ اور بنیاد کے پاس ایک چھوٹا سا ہوز (فاؤنٹین) ہے۔ ستون اس فاؤنٹین کے بیچ میں ہے۔ اس کی بنیاد کی جگہ پرجل پریوں (مرمائڈ) کے چار پتلے ہیں۔ یہ مجسمہ کاسٹ آئرن (قلعی شدہ لوہا) سے بنایا گیا ہے۔

حال ہی میں اس مجسمے کو درست کیا گیا۔ پرانے طرز کو برقرار رکھ کر مرمت کیا گیا۔ آج کل اس کی دیکھ بھال شہر ممبئی کی بلدیہ کر رہی ہے۔

Ahmed Nisar Syed
About the Author: Ahmed Nisar Syed Read More Articles by Ahmed Nisar Syed: 27 Articles with 42907 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.