ایک میدان کپتان صاحب نے 2014ء میں ڈی چوک اسلام آباد میں
سجایا اورایک میدان وہ اب 2016ء میں سجانے جارہے ہیں۔ کپتان صاحب کی گزشتہ
اورموجودہ احتجاجی سیاست میں کئی مماثلتیں موجود ہیں۔ 2014ء میں خاں صاحب
اپنی ’’سونامی‘‘ لے کراٹھے تو وزیرِاعظم صاحب نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس
صاحب کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنانے کااعلان کردیا لیکن خاں صاحب نے
اِس کمیشن کوقبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے وزیرِاعظم کے استعفے کامطالبہ
کیا ۔اب 2016ء میں وزیرِاعظم صاحب نے ’’پانامہ لیکس ‘‘ کی انکوائری کے لیے
سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن کااعلان کیاتو
کپتان صاحب نے ایک دفعہ پھرتحقیقاتی کمیشن کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے
وزیرِاعظم کے استعفے اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تحقیقاتی
کمیشن کے قیام کا مطالبہ کردیا۔ اگر2014ء میں کپتان صاحب کوچیف جسٹس سپریم
کورٹ کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن قبول نہیں تھا تواب اُسی کامطالبہ کیوں؟۔
2014ء میں کپتان صاحب نے ڈی چوک اسلام آبادمیں 126 روزہ دھرنادیا اوراب وہ
رائیونڈ میں دھرنا دینے جارہے ہیں126 روزہ دھرنے نے ملک کو معاشی
طورپرسالوں پیچھے دھکیل دیا۔ اقوامِ عالم میں ہماری خوب جَگ ہنسائی ہوئی
اورچین کے صدرکا دورہ منسوخ ہوا ۔سونامیوں نے کھُل کھیلا ،کچرے کے
ڈھیرلگائے ،تعفن پورے اسلام آباد میں پھیلا ،سپریم کورٹ کی دیواروں پر بچوں
کے ’’پوتڑے‘‘ سجائے گئے ،پارلیمنٹ کے گیٹ ٹوٹے ،پی ٹی وی اور وزیرِاعظم
ہاؤس پرقبضے کی کوششیں کی گئیں ،ایک نجی ٹی وی پر ہرروز خشت باری کی جاتی
رہی اورفُٹ پاتھوں کی اینٹیں تک اکھاڑلی گئیں۔ اب کی بارکپتان صاحب کا
پروگرام شایدلاشوں پر سیاست کرنے کاہے کیونکہ وہ رائیونڈ میں وزیرِاعظم
صاحب کے گھرپر دھرنا دینے جارہے ہیں۔سبھی جانتے ہیں کہ میاں نواز شریف کے
چاہنے والے اب بھی بہت ہیں اور’’ڈَنڈی پَٹی‘‘ قائم بھی ۔اُن میں سے کسی
کابھی تعلق ’’بَرگَر فیملی‘‘ سے ہے نہ ’’مَمی ڈیڈی‘‘ فیملی سے۔ گویابراہِ
راست تصادم کی فضاء پیداکرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ لاشوں پر اورلاشوں
کی سیاست کی جاسکے ،ملکی وقومی مفادجائے بھاڑمیں۔
2014ء میں بڑی شد ومَد کے ساتھ امپائرکی انگلی کھڑی ہونے کاانتظار کیاجا
رہاتھا ۔یہ انتظار اب بھی کیاجا رہاہے ۔ ہوسکتاہے کہ اب کی بار خاں صاحب کی
خواہش کے عین مطابق امپائرکی انگلی کھڑی ہوہی جائے لیکن ایساہونے سے کپتان
صاحب کے ہاتھ توبہرحال پھربھی کچھ نہیں آئے گاالبتہ یہ ضرور کہ ’’بی بی
جمہوریت‘‘ اپنے گھر سدھارے گی اورمسندِ اقتدار اُن سے کوسوں دور ہوجائے گی
۔لیکن اُنہیں کیا ،اُن کے نزدیک ’’ابھی توپارٹی شروع ہوئی ہے‘‘۔ شایدہمارے
کپتان صاحب کوادراک ہوچکاکہ اقتدارکے اونچے ایوان اُن کے لیے خواب وخیال ہی
رہیں گے اِس لیے اب وہ ’’کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘‘ پرعمل پیراہیں
۔2014ء میں پیپلزپارٹی (تماشہ دیکھنے کے لیے) ڈَٹ کر نوازلیگ کے پہلو میں
براجمان تھی ،جو اب بھی ہے لیکن اِس فرق کے ساتھ کہ اب وہ عمران خاں کے
پہلومیں ایستادہ ہے ۔تَب ڈاکٹر طاہرالقادری کی عوامی تحریک کپتان صاحب کی
’’کزن‘‘ بنی بیٹھی تھی ،اب یہ اعزاز پیپلزپارٹی کوحاصل ہے ۔تَب پیپلزپارٹی
اپنی کرپشن چھپانے کے لیے حکومتی’’ آڑ‘‘ لیے ہوئے تھی ،اب اپنی بے نقاب
ہوتی کرپشن سے جان چھڑانے کے لیے حکومت کو ’’ٹَف ٹائم‘‘ دینے کے لیے
کمربستہ ۔
2014ء میں الزام 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کاتھا جس پرعدالتی کمیشن
بھی بنالیکن کپتان صاحب کے کچھ ہاتھ نہ لگااور وہ اپناسا مُنہ لے کررہ گئے
۔اب الزام’’ پانامہ لیکس‘‘ میں وزیرِاعظم کے بچوں حسین نواز ،حسن نوازاور
مریم نوازکا نام آنا۔وزیرِاعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے تحقیقاتی کمیشن
کااعلان کردیا لیکن ’’میں نہ مانوں‘‘ کی رَٹ بدستور ۔دراصل کپتان صاحب کو
سڑکوں پر آنے اور ’’ ہَلّا گُلّا‘‘ کرنے کاشوق ہی بہت ہے ،یہ سوچھے سمجھے
بغیرکہ اِس سے ملکی ترقی کوکتنا نقصان ہوگا اورجمہوریت کوبھی ۔ویسے خان
صاحب کے مطالبات ہمیشہ ہی عجیب وغریب رہے ہیں ۔ قارئین کویاد ہوگا کہ جب
پوری قوم اورسیاسی جماعتیں طالبان کے خلاف متحدتھیں ،تب کپتان صاحب نے یہ
مطالبہ’’ کھڑکا‘‘ دیا کہ پہلے اُن کی علیحدگی میں چیف آف آرمی سٹاف اور
وزیرِاعظم سے ملاقات کروائی جائے ،پھروہ آل پارٹیز کانفرنس میں شریک ہوں گے
۔طوہاََ وکرہاََ یہ ملاقات کروادی گئی ۔تَب ’’انوکھے لاڈلے‘‘ نے اے پی سی
میں شرکت کی ۔اب ایک اور عجیب وغریب مطالبہ ،ایسا مطالبہ جس کی پاکستان میں
نظیر نہیں ملتی ،یہ سامنے آگیا کہ اُنہیں پی ٹی وی پر قوم سے خطاب کاموقع
دیاجائے ۔یہ مطالبہ ہی نہیں بلکہ اعلان ہے کہ کپتان صاحب 10 اپریل کوشام 6
بجے قوم سے خطاب کریں گے ۔تحریکِ انصاف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات نعیم الحق
نے پی ٹی وی کے قائم مقام مینیجنگ ڈائریکٹر کوہنگامی مراسلہ جاری کیاہے کہ
کپتان صاحب کے قوم سے خطاب کاانتظام کیاجائے ۔بسم اﷲ ! وہ ایساضرور کریں
لیکن پہلے اپنی ’’تازہ بہ تازہ‘‘ اتحادی پیپلزپارٹی سے اجازت تولے لیں ۔اُس
کے چیئرمین بلاول زرداری نے تویہ اجازت دینے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہہ
دیاکہ کپتان صاحب صدرہیں نہ وزیرِاعظم اورنہ ہی اپوزیشن لیڈر پھر اُنہیں پی
ٹی وی پر قوم سے خطاب کی اجازت کیوں دی جائے ۔غلطی بہرحال ارسطوانِ نوازلیگ
سے بھی ہوئی جنہیں پتہ نہیں کِس حکیم نے یہ مشورہ دیاکہ پی ٹی وی
پرپارلیمنٹ کی کارروائی براہِ راست نہ دکھائی جائے ۔پتہ نہیں یہ مشورہ تھا،
حماقت یا شرارت، بہرحال جلتی پہ تیل کاکام اِسی نے کیا ۔یہی نہیں بلکہ شکوک
کے سنپولیے اذہان کوبھی اپنی گرفت میں لینے لگے کہ ’’کچھ توہے جس کی پردہ
داری ہے‘‘۔ اگرخاں صاحب کوپی ٹی وی پرخطاب کاموقع مل جاتاہے توپھر ہماری
تویہی خواہش ہوگی کہ وہاں اپنی تقریرکے ساتھ ’’میوزیکل کنسرٹ‘‘ کااہتمام
بھی ضرورکریں کیونکہ ہمیں بھی مفت میں میوزیکل کنسرٹ دیکھے ہوئے مدت ہوگئی
۔کیا خوب رہے گاجب کپتان صاحب ایک جملہ عطا فرمائیں گے اورایک تان عطا اﷲ
عیسیٰ خیلوی چھوڑیں گے ۔
ہمیں کچھ کچھ یادپڑتا ہے کہ اپنے دَورِ عروج میں ایم کیوایم نے علامہ
طاہرالقادری کی حمایت میں رائے ونڈجانے کا نعرہ لگایاتھا لیکن پھر پتہ نہیں
کیاہوا کہ اُس احمقانہ نعرے کی کہیں گونج بھی سنائی نہیں دی۔اب یہی اعلان
کپتان صاحب کا ہے جوضدّی بھی ہیں اور ہَٹ دھرم بھی اِس لیے وہ اپنے اِس
اعلان پرعمل درآمد کی کوشش ضرورکریں گے اِس لیے نوازلیگ کوجہاں تک ممکن
ہوسکے صبرسے کام لینا ہوگا ۔یہ توبہرحال طے ہے کہ کپتان صاحب دَس بارجنم لے
کربھی میاں نواز شریف کے گھرتک نہیں پہنچ سکتے لیکن خواجہ سعدرفیق جیسے
جذباتی وزراء کوبھی سوچ سمجھ کرہی بیان دیناچاہیے۔خواجہ صاحب نے کہاہے
’’تیترخاں‘‘ رائیونڈ کی طرف مُنہ کرکے تودکھائے، لوگوں کو بنی گالہ کاراستہ
بھی آتاہے ۔ناچنا ،گانا ،تھرکنا پاکستان کا کلچرنہیں‘‘ ۔وہ ایسے جذباتی
بیانات تحریکِ انصاف کے لیے چھوڑدیں توبہتر ہے ۔حرفِ آخریہ کہ قوم یقیناََ
یہی چاہتی ہے کہ دودھ کادودھ اورپانی کاپانی ہوہی جائے ۔اگرمیاں فیملی
قصوروار ٹھہرتی ہے توپھرکون بَدبخت ہوگا جواُن کی حمایت میں کھڑا ہوگا۔ |