بچوں کو پڑھائے گی عوام تو بڑھے گا پاکستان

کسی بھی ملک کی ترقی ،خوشحالی اس ملک کی تعلیمی ترقی کی بدولت حاصل ہوتی ہے ا س کے بغیر کبھی بھی مہذب اورترقی یافتہ معاشرہ وجود میں نہیں آسکتا۔ترقی یافتہ ممالک اپنی پہلی ترجیح تعلیم کو ہی حاصلکرنے کی جدوجہد میں کرتے ہیں ۔تعلیمی ترقی کے لئے پڑھوپنجاب، بڑھو پنجاب پروگرام کے آغاز کے لئے گزشتہ روز ماڈل ٹاؤن میں ایک تقریب منعقد ہو ئی ۔ جس میں پنجاب کے بچوں کی داخلہ مہم کا فتتاح کیا گیا۔ تاکہ ہر بچہ سکول جا سکے۔ جس کے لئے پنجاب میں 100فیصد انرولمنٹ کے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے لائحہ عمل تیار کیا گیا۔ اس تقریب میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ معاشرے میں برداشت اور ترقی لانے کے تعلیم بہت ضروری ہے تعلیم سے ہی ہم معاشرے کو خوشحال اور توانا بنا کر ترقی حاصل کر سکتے ہیں ۔ کیونکہ تعلیم ہر انسان کا بنیادی زیور ہے ۔ پنجاب حکومت نے صوبے میں تعلیم کی کرنوں کو عام کرنے کیلئے یہ منصوبہ بنایاگیا ہے جس سے 100فیصد انرولمنٹ کے اہداف کو حاصل کیا جائے گا ۔اس لئے بہت ضروری یہ کہ عوام کو اس کے وسائل مہیا کیے جائیں ۔تاکہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے میدان میں آگے لا سکیں ۔اس لئے نچلی سطح تک ان تعلیمی وسائل کو مہیا کرنا ہو گا۔ جب تک غریب طبقہ ان میدان میں ترقی نہیں کرے گا اس وقت تک ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ہر امیر ،روزگار کمانے والا تو اپنے بچوں کومہنگی سے مہنگی تعلیم دلوا سکتا ہے مگر غریب آدمی جس کے بچے بھوکے مر رہے ہیں وہ انکو تعلیم کیسے دلوائے گا۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ خاص طور پر ان غریب لوگوں کو تعلیم کے میدان میں لانے کیلئے جدوجہد کریں جو اس کے مستحق ہیں ۔ ان کے لئے ایسے منصوبے بنائیں جو ہوٹلوں، ورکشاپوں ،اور گلی کوچوں میں کوڑا کرکٹ اکٹھا کر کے اپنے غریب والدین کا سہارا بنے ہوئے ہیں ان کو ضرورت ہے حکومت کے تعاون کی تاکہ وہ بھی پڑھ کر اپنے والدین کے بازو بن سکیں اور پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنا کردار ادا کر سکیں۔

اس طرح کے بہت سے منصوبوں کو شروع تو کر دیا جاتا ہے مگر افسوس کہ ان کے نتائج وہ حاصل نہیں ہو سکے جن کی امیدیں کی جاتی ہیں ۔ اس کی آخر وجہ کیا ہے ۔ میری سمجھ میں جو اس کی وجہ آرہی ہے وہ یہ ہے کہ والدین اور اداروں میں ہم آہنگی نہیں ہے ۔ جس کی وجہ سے یہ اہداف پورے نہیں ہو رہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پنجاب حکومت نے چند دن پہلے ایک پروجیکٹ چائلڈ لیبر ز ایجوکیشن کے لئے شروع کیا تھا جس میں بھٹہ لیبر کے بچوں کو مفت تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کو وظیفے اور بچوں کو ماہانہ خرچہ دینے کا لالچ دیا گیاتھا ۔ مگر اس کے کچھ بھی نتائج حاصل نہ ہو سکے ۔اس پروجیکٹ کو کامیاب بنانے کے بھٹہ مالکان کی پکڑ دھڑک بھی کی گئی ۔ کہ وہ ان کے بچوں سے مشقت کرواتے ہیں ۔ حالانکہ یہ غلط تاثر ہے کہ بھٹہ مالکان ان بچوں سے کام کرواتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ بے روزگاری اور مہنگائی نے ہر غریب اور مزدور انسان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔پہلے یہ ہوتا تھا کہ گھر کا ایک فرد کماتا تھا اور سارا گھر کھاتا تھا ۔ اب سے کچھ الٹ ہے ۔ اب گھر کے سارے فرد کماتے ہیں مگر پوری پھر بھی نہیں پڑتی ۔ اسی وجہ سے یہ مزدور اور بے بس لوگ اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کروانے سے قاصر ہوتے ہیں اور ان کو اپنے کام میں ساتھ ملا کر گھر کا خرچہ چلانے کے لئے ان معصوم بچوں سے مشقت کرواتے ہیں ۔تاکہ کچھ اجرت زیادہ مل سکے ۔ان میں بھٹہ مالکان کا کوئی قصور اور کردار نہیں ۔ اس لئے کہ وہ تو نہیں چاہتے کہ ان کے بچوں سے مشقت لی جائے۔

ان پروجیکٹ کو کامیاب کرنے کے لئے بہت سا واہ ویلا کیا گیا ، مگر افسوس کے حکومت نے جو وعدہ کیا تھا وہ وفا نہ ہو سکا۔ اور اس پروجیکٹ کو صرف فارموں اور کاغذوں تک ہی محدود کر دیا گیا ۔ اس منصوبے کے تحت جو چائلڈ لیبر ز کے والدین کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا ان کو وظیفے اور بچوں کو ماہانہ خرچہ ملے گا ۔وہ ابھی تک اس امید میں ہیں کہ کب یہ سب کچھ ہم تک پہنچے گا ۔ اگر اسی طرح کے منصوبے شروع ہوں گے تو پھر نتائج بھی تو ایسے ہی ملیں گے ۔اب وہی بچے سکول جانے کی بجائے اپنے والدین کے ساتھ کام میں لگے ہوئے ہیں اور جن کو یہ منصوبہ دیا گیا وہ سونے میں یا پھر کاغذئی کاروائی کرنے میں مصروف ہوں گے ۔ میری میاں شہباز شریف کو ایک یہ رائے ہے ۔کہ میاں صاحب ایسے منصوبوں پر پیسہ برباد مت کروجن کی آپ خود نگرانی نہ کرسکتے ہوں۔ یا پھر ایک ایسی ٹیم تیار کروں جو صرف اس منصوبے پر کام کرے ۔ کسی ایم پی اے یا ایم این اے کو اس کی نگرانی نہ دو۔ اگر ایسے لوگوں کونگرانی دی جائے گی تو کبھی بھی پنجاب پڑھے گا نہیں اور بڑھے گا بھی نہیں ۔ایسے لوگوں کو ان منصوبے میں شامل کیا جائے جنھوں نے ساری زندگی تعلیم دینے کے لئے صرف کی ہے۔ میری مراد وہ لوگ ہیں جو تعلیم کے شعبہ میں منسلک رہے ہیں ۔اور جنھوں نے بے شمار ایسے قابل تعلیم کے میدان میں معمار پیدا کیے ہیں جو آج پاکستان کی ترقی کے لئے اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ اگر ان لوگوں کو ایسے منصوبوں پر لگایا جائے تو پھر یہ منصوبے کامیاب بھی ہوں گے اور ہر بچہ بغیرکسی لالچ کے سکول جانے کے لئے بھی تیار ہو جائے گا ۔حکومت کو چاہئے کہ پرائیویٹ سکولوں کی فیسوں کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی لائحہ عمل بنائے کیونکہ پرائیویٹ سکولوں کی فیسیں جس طرح بڑھ رہی ہیں اسی طرح ان کا معیار تعلیم بھی گر رہا ہے ۔

ہر بار حکومت پنجاب بچوں کو سکولوں میں داخلے کی مہم کا آغاز سب سے پہلے کر دیتی ہے ۔ اور دوسرے صوبے ابھی سوچ ہی رہے ہوتے ہیں یا پھر ان صوبوں میں تعلیم کی ضرورت نہیں اس لئے دوسرے صوبوں میں تعلیم کو بہتر اور عام کرنے کے منصوبوں میں کام نہیں ہو رہا ۔ اگر پنجاب حکومت پڑھو پنجاب جیسے منصوبے شروع کر رہی ہے تو دوسرے صوبوں کو بھی ،پڑھو سندھ ،پڑھو بلوچستان،پڑھو خیبر پختونخواہ ، پڑھو گلگت بلتستان جیسے منصوبے شروع کر نے چاہئیں ۔تاکہ پورے پاکستان کے بچے سکولوں میں جاسکیں اور تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو سکیں ۔سکولوں میں معیاری تعلیم دینے کے لئے لائحہ عمل بنایا جائے ۔ کتابیں رٹ لینے سے انسان قابل نہیں بن سکتا بلکہ بچوں کو تعلیم اس طرح دینی چاہئے کہ اس کو ہر اچھے اور برے کی پہچان ہو سکے ۔ والدین اور اساتذہ کرام کی عزت کرنی سیکھ سکیں ۔ اپنے ملک کی ترقی اور حفاظت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے گریز نہ کریں ۔

اگر پاکستان کے ہر بچے کو سکول بھیجنا ہے تو اس کے لئے یہ کام حکومت کو خود کرنا ہو گا ۔اور انرولمنٹ مہم کے لئے پورے پاکستان میں منصوبوں کا آغازکرنا ہوگا۔ اگر ان منصوبوں کو کامیاب کروانا ہے تو کسی لالچ کی بجائے عوام کو تعلیم فنڈ ریلیف دیا جائے تاکہ خوشی سے ہر غریب مزدور والدین اپنے بچوں کو سکول بھیجیں ۔منصوبے ایسے بنائے جائیں بچوں کو تعلیم دلوانے کے لئے والدین کو تعلیم کے بارے میں آگاہی دی جائے ۔ اور شعور پیدا کیا جائے کہ آج کے یہ بچے کل کے پاکستان کے معمار بنیں گے ۔ اگر اس طرح تعلیم کو حاصل کرنے کے تعلیمی جذبے پیدا کیے جائیں گے ۔تو ا س کے نتائج انشاء اﷲ بہتر حاصل ہوں گے اور وہ دن دور نہیں جب سارے پاکستان کے بچے پڑھیں گے اور سارا پاکستان تعلیم کے میدان میں آگے بڑھے گا۔

Muhammad Riaz Prince
About the Author: Muhammad Riaz Prince Read More Articles by Muhammad Riaz Prince: 107 Articles with 105391 views God Bless You. Stay blessed. .. View More