بسم اللہ الرحمن الرحیم
کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ وَعَسٰٓی اَنْ
تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَعَسٰیٓ اَنْ تُحِبُّوْا
شَیْئًا وَّھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا
تَعْلَمُوْنَ ﴿البقرہ:۶۱۲﴾
ترجمہ: قتال کرنا تم پر فرض کیا گیا ہے اور وہ تم کو ﴿طبعاً﴾ برا لگتا ہے
اور یہ ممکن ہے کہ تم کسی بات کو برا سمجھو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو
اور ممکن ہے تم ایک کام کو بھلا سمجھو اور وہ تمہارے حق میں برا ہو اور
اللہ تعالیٰ جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے۔
قرآن کریم کی اس آیتِ مبارکہ میں جہاں جہاد کی فرضیت کو بالکل واضح اور
قطعی انداز میں بیان فرمایا گیا ہے وہاں ایک اور بہت اہم نکتے کی طرف بھی
اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ انسان کا علم اور عقل ناقص ہے اس لئے وہ محض
اپنی عقل کی بنیاد پر کسی چیز کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ نہیں کرسکتا
اگر انسان کی عقل ہی پوری طرح صحیح اور غلط کی پہچان کر سکتی تو پھر وحی
الٰہی کی ضرورت کیوں پیش آتی؟ اور اللہ تعالیٰ انبیا کرام علیہم السلام کو
مختلف ادوار میں کیوں مبعوث فرماتے؟ اس لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے
فرمایا کہ ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بُرا سمجھو لیکن اس میں تمہارے لئے خیر
ہو اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز سے کو اپنے لئے اچھا سمجھو اور وہ تمہارے لئے
بُری ہو۔ کیونکہ کیا اچھا ہے ، کیا بُرا ہے، کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے اس
کا علم تمہیں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہر قدم پر شریعت ہماری رہنمائی کرتی ہے یہ ہمیں بتاتی ہے کہ
ہمارے لئے کیا اچھا ہے اور کیا بُرا، اور ہمیں کس موقع پر کیا کرنا چاہئے۔
چنانچہ ایک مسلمان کے لئے جائز و ناجائز کو پرکھنے کا پیمانہ شریعت کے
احکام ہیں نا کہ ہماری ناقص عقل۔
اسلام میں شریعت کے احکام معلوم کرنے کے لئے ہمارے پاس سب سے بڑا ذریعہ
قرآن کریم اور اُس کے بعد حدیث ِ پاک ہے۔ نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج کی طرح
جہاد کا حکم بھی اسلام میں بڑی صراحت اور وضاحت سے بیان ہوا ہے۔ جہاد کا
مسئلہ جتنا اہم ہے اتنا ہی صاف شفاف اور غیر مبہم بھی ہے۔ حضرت شاہ ولی
اللہ (رح) اپنی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ تمام شریعتوں
میں سب سے کامل شریعت وہ ہے جس میں جہاد کا حکم ہو۔ جہاد کی اہمیت کا
اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآنِ پاک نے جس قدر تفصیل سے جہاد
کے مسئلے کو بیان فرمایا اتنی تفصیل کسی اور فریضے کی بیان نہیں فرمائی۔
یہی وجہ ہے کہ تفسیر لکھنے کے دوران جب جہاد کا ذکر آیا تو مفسرین کرام کے
قلم لکھتے ہی چلے گئے اور اُن کا اندازِ بیاں ہی بدل گیا۔ قرآن مجید نے
’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کی اصطلاح کو جابجا استعمال فرمایا ہے جس کے معنی
قتال فی سبیل اللہ کے آتے ہیں اور خود قتال کا صیغہ بھی بار بار استعمال
ہوا ہے۔ کتاب اللہ میں جہاد فی سبیل اللہ کے ۶۲ صیغے ہیں اور قتال کے ۹۷
صیغے استعمال ہوئے ہیں۔ سورۃ توبہ اور انفال سمیت قرآن پاک کی آٹھ ﴿۸﴾
سورتیں مکمل طور پر جہاد کے بارے میں ہیں۔ بعض سورتوں کے نام ہی جہاد کے
موضوع پر ہیں جیسے سورۃ احزاب، سورۃ محمد﴿قتال﴾، سورۃ الفتح، سورۃ الصّف۔
حضرت مولانا احمد علی لاہوری(رح) تو فرماتے ہیں کہ قرآن ِ پاک کا موضوع ہی
جہاد ہے۔
قرآنِ کریم صرف جہاد کی فرضیت اور احکام بیان فرمانے پر اکتفا نہیں کرتا
بلکہ وہ ایک مسلمان کو مختلف پیرائوں میں جہاد کی ترغیب دے کر جہاد کے لئے
کھڑا کرتا ہے، پھر اُس کا ہاتھ تھام کر اُس کو جہاد کے میدان میں لے جاتا
ہے، مثالیں اور جہاد کے قصص بیان کر کے اُس کے جذبہ جہاد و شہادت کو بیدار
کرتا ہے، ترک جہاد پر وعیدیں سناتا ہے، مشکلات پر اُس کو صبر اور ثابت قدمی
کی تلقین کرتا ہے، جہاد کے احکام و فضائل سناتا ہے اور اجرو ثواب کے وعدے
کرتا ہے، مجاہد کے گھوڑے کی قسمیں کھاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی نصرت اور
فرشتوں کے اُترنے کی بشارتیں سناتا ہے، اُس کو جنگ کا طریقہ بیان کرتا ہے،
دشمنوں کی چالیں اور حیلے بتا کر اُن سے خبردار کرتا ہے، مجاہد جب ڈرتا ہے
تو حضور اکرم ﷺ کی سیرت اور صحابہ کرام (رض) کے واقعات بیان کرکے اُس کے
حوصلے بلند کرتا ہے، ظاہری شکست پر اُس کو تسلیاں دیتا ہے۔ غرض قدم قدم پر
مجاہد کے ساتھ رہ کر اُس کی رہنمائی کرتا ہے اور بالآخر اسے شہادت کے عظیم
مرتبہ تک پہنچا دیتا ہے اور پھر لوگوں پر شہید کو مردہ کہنے حتیٰ کہ مردہ
گمان کرنے پر بھی پابندی لگا دیتا ہے اور حکم ہوتا ہے :
وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِ یْنَ قُتِلُوْ ا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ
اَمْوَاتًا بَل اَحْیَآ ئٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ فَرِحِیْنَ بِمَآ
اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٰ وَ یَسْتَبْشِِرُوْنَ بِا لَّذِیْنَ لَمْ
یَلْحَقُوْ ا بِھِمْ مِّن خَلْفِھِمْ اَلَّا خَوْ فٌ عَلَیْھِمْ وَلَا
ھُمْْ یَحْزَنُوْنَ۔ یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَفَضْلٍ
وَّ اَنَّ اللّٰہَ لَایُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْ مِنِیْنَ ۔ ﴿آلِ عمران ۹۶۱
تا ۱۷۱﴾
ترجمہ: ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ان کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ
تو زندہ ہیں اپنے پروردگار کے مقرب ہیں کھاتے پیتے ہیں وہ خوش ہیں اس چیز
سے جو ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے عطا فرمائی اور جو لوگ ان کے پاس
نہیں پہنچے ﴿شہید نہیں ہوئے ﴾ ان سے پیچھے رہ گئے ہیں ان کی بھی اس حالت پر
وہ خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں اور نہ
وہ مغموم ہوں گے وہ خوش ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور اس بات سے کہ
اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا اجر ضائع نہیں فرماتے‘‘۔
ہاں ہماری ناقص عقلیں شہید کی اس زندگی کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ بے شک ہمیں
اللہ تعالیٰ کی گواہی پر یقین ہے کہ شہید زندہ ہے اور ہماری دعا ہے کہ اللہ
تعالیٰ ہمیں بھی ان زندوں میں شامل فرمائے۔
قرآن مجید میں آیات جہاد
قرآن کریم میں سینکڑوں آیات فریضہ جہاد کو بیان کرتی ہیں جن کو پڑھنے کے
بعد ناصرف جہاد کے بارے میں کوئی اشکال ذہن میں نہیں رہ سکتا بلکہ ان آیات
کو سمجھنے کے بعد کوئی مسلمان ترک ِجہاد کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ قرآن
کریم میں آیات جہاد کی حتمی تعداد کا تعین تو ابھی تک نہیں کیا جا سکتا
لیکن دورِ حاضر کے عظیم علمی شاہکار، قرآن کریم کی آیاتِ جہاد کی اوّلین
مستقل تفسیر ’’فتح الجوّاد فی معارف آیاتِ الجہاد‘‘ میں ۸۵۵ آیاتِ جہاد کی
تفسیر و تشریح علمائ سلف کے تفسیری اقوال کے ذریعے بیان کی گئی ہے۔ یہ عظیم
کارنامہ امیر المجاہدین حضرت مولانا محمد مسعود ازہرصاحب حفظہ اللہ نے
سرانجام دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت کو اپنے شایانِ شان اجر عطا فرمائے کہ
انہوں نے امتِ مسلمہ کی طرف سے فرضِ کفایہ ادا فرما دیا۔ جہاد کی حقیقت کو
سمجھنے اور دل کی مکمل تسلّی و تشفی کے لئے صرف اس ایک کتاب کا مطالعہ ہی
کافی ہے۔ قرآن کریم نے جہاد کو کس قدر اور کس کس انداز میں بیان فرمایا ہے
اس کا مزا تو اس کتاب کے مطالعہ کے بعد ہی آسکتا ہے البتہ ذیل میں قرآنِ
کریم کی مختلف سورتوں میں آیاتِ جہاد کی تعداد پیش کی جاتی ہے:
بقرہ: ۳۵، آلِ عمران: ۲۶، نسائ:۲۴، مائدہ:۰۲، انفال:۵۷﴿مکمل سورۃ﴾،
توبہ:۹۲۱﴿مکمل سورۃ﴾، حج:۷۱، نور:۴، احزاب:۲۲، محمد:۸۳﴿مکمل سورۃ﴾،
فتح:۹۲﴿مکمل سورۃ﴾، حجرات:۵، حدید:۴، مجادلہ:۹، حشر:۷۱، ممتحنہ:۳۱﴿مکمل
سورۃ﴾، صف:۴۱﴿مکمل سورۃ﴾، منافقون:۱۱﴿مکمل سورۃ﴾، تحریم:۱، عادیات:۸،
نصر:۳﴿مکمل سورۃ﴾، کل آیات جہاد:۸۵۵
قرآنِ پاک میں موضوعاتِ جہاد
قرآن مجید نے جہاد کے تقریباً ہر پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ قرآنِ کریم میں
بیان کئے گئے جہاد کے تمام موضوعات کا احاطہ کرنا تو بہت مشکل ہے البتہ ان
موضوعات کی ایک جھلک ذیل میں پیش کی جاتی ہے:
٭ فرضیتِ جہاد
٭ جہاد کی شرائط ﴿۱۔ مسلمان ہونا ۲۔ مرد ہونا ۳۔ آزاد ہونا ۴۔ عاقل ہونا ۵۔
بالغ ہونا ۶۔ استطاعت ہونا ﴿معذور پر فرض نہیں﴾
٭ اہدافِ جہاد ﴿کفر کی طاقت کا توڑ، مسلمانوں اور مساجد و عبادت گاہوں کا
تحفظ، غلبۂ اسلام وغیرہ﴾
٭ احکامِ جہاد
٭ جہاد کی دعوت اور ترغیب و تحریص
٭ فضائل جہاد ﴿پہرہ دینے، سفر کرنے، مجاہدین کے اسلحہ و دیگر سامان، سواری،
کافروں کو قتل کرنے، زخمی ہونے کے فضائل وغیرہ﴾
٭ مجاہد کے لئے جنت کی حوروں اور بے شمار انعامات کا تذکرہ
٭ جہاد کی تیاری ﴿جسمانی، روحانی، جنگی اور دفاعی تیاری وغیرہ﴾
٭ جہاد کی ادائیگی ﴿اصول و قواعد جنگ، صبر و استقامت، جہاد میں زخمی ہونا،
بہادری کی ترغیب اور بزدلی کی مذمت، اتفاق و اتحاد، جہاد میں خوف کا بیان،
ذکراللہ کا التزام وغیرہ﴾
٭ جہاد کی برکتیں، فوائد اور حکمت ﴿تکمیل ِ ایمان، ظلم سے نجات، کافروں سے
آزادی، خلافت کا قیام، امن کا قیام، فلاح یعنی حقیقی کامیابی، اللہ تعالیٰ
کے قرب کا ذریعہ، فتنہ ارتداد کا علاج، پاکیزہ روزی مالِ غنیمت وغیرہ﴾
٭ ترک جہاد پر وعیدیں اور اس کے نقصانات
٭ ترک جہاد نفاق کی علامت اور منافقین کی جہاد سے پہلو تہی اور بہانے
٭ جہاد کی مخالفت کے نقصانات
٭ اس امت کے ’’خیر امت‘‘ ہونے کی وجہ جہاد
٭ جہاد میں مال خرچ کرنے کی ترغیب و فضائل
٭ موت اور اس کے وقت کا اٹل ہونا
٭ شہادت کی ترغیب و فضائل
٭ فدائی مجاہدین
٭ جنت، حوروں اور بے شمار انعامات کی بشارت
٭ انبیا علیہم السلام اور گزشتہ امتوں میں جہاد کا تذکرہ
٭ غزوات کا تذکرہ
٭ فتوحات کی پیشین گوئی
٭ یہودیوں کی ذلت و پستی کی پیشین گوئی
٭ فتح وشکست کے اسباب و اثرات
٭ امیر جہاد کی صفات، برکات و اطاعت امیر
٭ مجاہدین کے اوصاف
٭ جہاد کے لئے خود کا وقف کرنا
٭ لڑائی کے طریقے
٭ منافقین سے جہاد
٭ کافروں سے دوستی کی ممانعت
٭ کافروں کے شر سے بچنے کا طریقہ جہاد
٭ مسلمانوں کے دشمن
٭ اللہ تعالیٰ کی نصرت
٭ فرشتوں کا مسلمانوں کے ساتھ مل کر دشمنوں سے لڑنا
٭ مال غنیمت کا بیان
٭ علم اور جہاد
٭ حدود اللہ کی پابندی
٭ قیدیوں کو چھڑانے کا بیان
٭ جہاد میں نماز ﴿صلاۃ خوف کا حکم﴾
٭ جہاد کی دعائیں وغیرہ
حدیث شریف اور جہاد
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیا گیا ہے کہ
میں لوگوں ﴿کافروں﴾ سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار
کرلیں پھر جو لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لے گا اُس کا مال اور اُس کی جان
مجھ سے محفوظ ہو جائے گی سوائے شرعی حق کے اور اُس کا حساب اللہ تعالیٰ کے
ذمہ ہوگا۔ ﴿بخاری﴾
احادیث کی کتابوں میں محدثین کرام نے جو ’’کتاب السیر‘‘ کا باب باندھا ہے
اس میں جہاد کے متعلق احادیث ذکر کی گئی ہیں اس کی وجہ علما کرام نے یہ
بیان فرمائی ہے کہ چونکہ حضور اکرم ﷺ کی سیرت کا غالب حصہ جہاد، غزوات و
سرایہ پر مشتمل ہے اس لئے جہاد سے متعلق احادیث پر مشتمل اس باب کا نام
’’کتاب السیر‘‘ رکھا گیا ۔ کتب احادیث میں جہاد کے بارے میں حضور نبی کریم
ﷺ کے ہزاروں فرامین اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے
اس حکم ’’حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ‘‘ ﴿یعنی مسلمانوں کو
جہاد کاشوق دلائیے﴾ کا حق ادا فرما دیا۔ کتب احادیث میں جہاد سے متعلق
احادیث کی اس قدر کثرت ہی جہاد کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے کافی ہے اس
کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے حضرت مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ کی کتاب
’’فضائل جہاد مختصر‘‘ کا مطالعہ بہت مفید ہے ۔ اس کتاب میں جہاد سے متعلق
۰۴ احادیث کی تشریح کے علاوہ مختلف کتب احادیث میں جہاد سے متعلق احادیث کے
ابواب کی فہرست بھی دی گئی ہے تاکہ ذوق تحقیق رکھنے والے قارئین سہولت کے
ساتھ احادیث جہاد تلاش کر سکیں۔ یہاں صرف اس فہرست کو نقل کرنے پر اکتفا
کیا جا رہا ہے :
۱۔ صحیح بخاری شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے ۱۴۲ ابواب ہیں۔ ﴿صفحہ ۰۹۳
تا ۲۵۴ جلد اوّل﴾
۲۔ صحیح مسلم شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے ۰۰۱ ابواب ہیں۔ ﴿صفحہ۱۸
تا۴۴۱ جلددوم﴾
۳۔ ترمذی شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے ۵۵۱ ابواب ہیں۔ ﴿صفحہ۲۸۲ تا ۲۰۳
جلد اوّل﴾
۴۔ ابو دائود شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے ۶۷۱ ابواب ہیں۔ ﴿صفحہ۲۴۳
تا۲۶۳ جلد اوّل/ ۲ تا ۹ جلد دوم﴾
۵۔ نسائی شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے ۴۸ ابواب ہیں۔ ﴿صفحہ۳۵ تا ۶۶
جلد دوم﴾
۶۔ ابن ماجہ شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے ۶۴ ابواب ہیں۔ ﴿صفحہ ۷۹۱
تا۷۰۲ ﴾
۷۔ مشکوٰۃ شریف میں کتاب الجہاد جلد اول صفحہ ۹۲۳ تا ۵۵۳ ﴿کل صفحات ۶۲﴾
۸۔ الترغیب و الترہیب میں کتاب الجہاد صفحہ ۵۶۳ تا ۵۵۴ جلد ثانی ﴿کل صفحات
۰۹﴾
۹۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں کتاب الجہاد صفحہ ۲۱۲ تا ۶۴۵ ﴿کل صفحات ۴۳۳﴾
۰۱۔ سنن کبریٰ بیہقی میں کتاب الجہاد جلد ۹ صفحہ ۱ تا ۳۸۱ ﴿کل صفحات ۳۸۱﴾
۱۱۔ کنزالعمال میں کتاب الجہاد جلد ۴ صفحہ ۸۷۲ تا ۷۳۶ ﴿کل صفحات ۹۵۳﴾
۲۱۔ اعلائ السنن میں کتاب الجہاد جلد ۲۱ صفحہ ۱ تا ۴۷۶ ﴿کل صفحات ۴۷۶﴾
اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن و حدیث سے جوڑے رکھیں اور اس پر عمل کرتے ہوئے
جہاد جیسے عظیم راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ﴿آمین﴾ |