سوال یہ نہیں کہ عصر حاضر کا
جمہوری نظام قابل برداشت ہے یا نہیں؟اور کچھ نہ کچھ شرعی تقاضے اس سے پورے
ہوتے ہیں یا نہیں؟ بلکہ غور طلب امر یہ ہے کہ کیا عصر حاضر کا جمہوری نظام
خواہ کسی بھی جمہوری ملک کے نظام کا آئینہ دار ہو، اس قابل ہے کہ اسے شریعت
کا تجویز کردہ نظام حکومت تسلیم کیا جائے اور کیا یہ نظام جمہوریت خواہ
اپنی اعلیٰ شکل میں ہی کیوں نہ ہو اس پوزیشن میں ہے کہ اسے نظام خلافت کا
ایسا متبادل قرار دیا جائے جس بنیاد پر قیام خلافت کی جدوجہد ترک کردی جائے
اور اسی پر اکتفا کر کے خود کو ہمہ قسم ذمہ داری سے سبکدوش تصور کیا جائے۔
آج کی مجلس میں ان بنیادی دو سوالوں کا جواب تلاش کرتے ہیں کہ:
(۱)آیا ہم سے نظام خلافت مطلوب ہے یا جمہوریت؟
(۲)کیا نظام جمہوریت خلافت کا ایسا متبادل ہے جس کے قیام کے بعد خلافت کوئی
معنی نہیں رکھتی؟
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اسلام کا نظریہ حکومت، جدید دور کی جمہوریت
نہیں بلکہ خلافت ہے قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں واضح طور پر نظریہ
خلافت پیش کیا گیا ہے چنانچہ قرآن کریم بتاتا ہے کہ انسان کی تخلیق ہی
خلافت کے لئے ہوئی ہے:’’اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں کو کہ میں بنانے والا
ہوں، زمین میں ایک نائب‘‘(البقرہ۔۳۰)
حضرت داود(علیٰ نبینا وعلیہ السلام)سے فرمایا گیا:
’’اے داود! ہم نے کیا تجھ کو نائب ملک میں سو تو حکومت کر لوگوں میں انصاف
سے اور نہ چل جی کی خواہش پر پھر وہ تجھ کو بچلا دے اللہ کی راہ سے۔ مقرر
جو لوگ بچلتے ہیں اللہ کی راہ سے ان کے لئے سخت عذاب ہے اس بات پر کہ بھلا
دیا انہوں نے دن حساب کا‘‘
حضرت موسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ السلام اپنی قوم سے فرماتے ہیں:
’’نزدیک ہے کہ رب تمہارا ہلاک کردے تمہارے دشمن کو اور خلیفہ کردے تم کو
ملک میں، پھر دیکھے تم کیسے کام کرتے ہو‘‘(الاعراف۔۱۲۹)
امت محمدیہ(علیٰ صاحبہا الصلوٰت والتسلیمات) سے وعدہ فرمایا گیا ہے کہ
انہیں زمین میں خلافت عطا کی جائے گی جیسا کہ ان سے پہلے حضرات کو عطا کی
گئی:
’’وعدہ کر لیا اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں ایمان لائے ہیں اور کئے ہیں
انہوں نے نیک کام، البتہ پیچھے حاکم کر دے گا ان کو ملک میں جیسا حاکم کیا
تھا ان سے اگلوں کو‘‘(النور۔۵۵)
یہ قرآن کریم کی چند آیات تھیں ۔چند احادیث بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔ حدیث
شریف میں ہے:
’’بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کے ہاتھ میں تھی۔ جب ایک نبی کا انتقال ہو
جاتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں البتہ خلفاء
ہوں گے اور بہت ہوں گے‘‘(متفق علیہ ،مشکوٰۃ ص ۲۳۰)
ایک اور حدیث شریف میں ہے:
’’میری امت کے آخری حصہ میں ایک خلیفہ ہوگا جو دونوں ہاتھوں سے بھر کر مال
دے گا اور گن کر نہیں دے گا‘‘( مشکوٰۃ ص ۴۶۹)
ایک اور حدیث شریف میں ہے:
’’یہ دین نبوت اور رحمت سے شروع ہوا پھر خلافت اور رحمت ہو جائے گی پھر کٹ
کھنی سلطنت ہوگی پھر جبریت، سرکشی اور فساد فی الارض ہوگا۔ یہ لوگ ریشم کو،
عصمتوں اور شراب کو حلال کر لیں گے۔ اس کے باوجود ان کو رزق بھی ملے گا اور
ان کی مدد بھی ہوگی یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جا ملیں ‘‘(مشکوٰۃ ص ۴۶۰)
اس آخری حدیث سے واضح ہے کہ آنحضرتﷺ نے اس امت میں ’’طرز حکومت‘‘ کے سلسلہ
میں چار دور ارشاد فرمائے ہیں: پہلا دور نبوت ورحمت کا، یہ آنحضرتﷺ کا دور
نبوت وعصمت تھا۔ دوسرا دور خلافت و رحمت کا، یہ حضرات خلفائے راشدینؓ کا
دور تھا جو ٹھیک ٹھیک منہاج نبوت پر قائم تھا اور امت اسلامیہ کے لئے سراپا
رحمت وبرکت تھا۔ تیسرا دور ملوکیت کا، جو خلفائے راشدینؓ کے بعد سے شروع
ہوا اور خلافت عثمانیہ کے آخری تاجدارتک باقاعدہ رہا اس کے بعد کہیں کہیں
اس کے آثار ونشانات باقی رہ گئے۔
چوتھا دور جبریت وسرکشی اور فساد فی الارض کا، یہ ملوکیت کے بعد دور جدید
کی جمہوریت ہے اور آج ہم پر یہی مسلط ہے۔ اس میں جمہوریت کے نام پر دھونس
اور دھاندلی، جبریت وسرکشی اور فساد فی الارض کے جو کارنامے انجام دیئے
جارہے ہیں ان کا مشاہدہ کھلی آنکھوں ہر شخص کررہا ہے۔ گویا ملوکیت کے بعد
جس دور کو جمہوریت کا سنہری دور کہا جاتا ہے وہ درحقیقت جبریت کا سیاہ ترین
دور ہے اس میں پارلیمنٹ کو قانون سازی کے کلی اختیارات تفویض کر دیئے جاتے
ہیں اور وہ حلال وحرام اور جائز و ناجائز کی پروا کئے بغیر ہر قسم کی قانون
سازی کی مجاز ہے ’’جیسا کہ یورپی ممالک میں ’’ہم جنسی شادی‘‘کے جواز کا
قانون وضع کرکے آنحضرتﷺ کے اس ارشاد کی پوری تصدیق کردی ہے کہ:
’’یہ لوگ ریشم کو، بدکاری کو اور شراب کو حلال کرلیں گے‘‘
خود ہمارے ملک میں اسلامی شعائر اور شرعی احکامات کا حکومتی واعلیٰ سطح پر
جس طرح مذاق اڑایا جاتا ہے وہ کسی سے مخفی ہے؟
جی ہاں جہاں تک قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی تعلیمات کا تعلق ہے ان سے تو
یہی پتہ چلتا ہے کہ اسلام، جدید جمہوریت کا قائل نہیں بلکہ نظریہ خلافت کا
داعی ہے جس کے لئے حضرت آدم علیہ السلام کو زمین میں بسایا گیا۔
دوسرے بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ عصر حاضر کی جمہوریت درحقیقت دور جدید کے
تقاضوں سے ہم آہنگ قدیم خلافت ہی کی نئی ترقی یافتہ شکل ہے۔ اس لیے حصول
جمہوریت کے بعد قیام خلافت کی کوئی ضرورت نہیں رہی حالانکہ اس مفروضے کی
حقیقت کچھ بھی نہیں بلکہ طرز حکومت کے بارے میں یہ دونوں الگ الگ نظریے ہیں
اور ان دونوں کے درمیان مشرق ومغرب کافرق اور زمین وآسمان کا فاصلہ ہے ان
دونوں کے درمیان فرق واختلاف کی تشریح ایک بسیط مقالے کا موضوع ہے مگر یہاں
دونوں کی تعریف نقل کی جاتی ہے اسی سے اہل فہم کو معلوم ہو جائے گا کہ
دونوں کے درمیان بنیادی فرق کیا ہے؟ چنانچہ خلافت کی تعریف، امام الہند شاہ
ولی اللہ محدث دہلویؒ کے الفاظ میں یہ ہے:
’’خلافت نام ہے عوام کی ایسی سربراہی کا، جو آنحضرتﷺ کی نیابت میں، اقامت
دین کے اہتمام کی خاطر ہو اور یہ اقامت دین مندرجہ ذیل امور کے ذریعہ ہوگی:
۱۔دینی علوم کا احیا کرنا۔۲۔ارکان اسلام کو قائم کرنا۔۳۔جہاد اور متعلقات
جہاد کا اہتمام کرنا مثلاً لشکروں کی ترتیب وتیاری، مجاہدین کے لئے وظائف
مقرر کرنا اور انہیں مال فئے میں سے دینا۔۴۔عدل وانصاف کا قائم کرنا ،حدود
شرعیہ(مثلاً شراب نوشی، زنا اور چوری کی شرعی سزا) کا جاری کرنا اور ظالم
سے مظلوم کا حق دلانا۔۵۔امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام۔
اور جمہوریت کی تعریف یہ کی گئی ہے:
’’وہ طرز حکومت ،جس میں بادشاہ کے بجائے عوام کے نمائندے کاروبار کو انجام
دیتے ہیں‘‘(علمی لغات ص ۵۴۳۔مولفہ جناب وارث سرہندی ایم اے)
دونوں کے مفہوم پر ذرا سا غور کیجئے تو دونوں کے درمیان مندرجہ ذیل فرق
سامنے آجاتے ہیں:
۱۔خلافت کا ادارہ آنحضرتﷺ کی نیابت کے لئے ہے اور جمہوریت میں عوام کے
نمائندے عوام کی نیابت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
۲۔خلافت کی غرض وغایت اقامت دین ہے یعنی خدا کی زمین پر خدا کے دین کا
نفاذ۔ جب کہ جمہوریت کی غرض وغایت ہے، عوام کے پسندیدہ قانون کا جاری کرنا۔
۳۔ خلافت کا ادارہ شتر بے مہار نہیں بلکہ وہ قانون الٰہی کا پابند اور
شریعت الٰہی کے سامنے جواب دہ ہے گویا شریعت خلافت سے بالاتر قانون ہے اور
کوئی شخص بھی شریعت سے انحراف کی صورت میں خلیفہ پر روک ٹوک کر سکتا ہے۔ اس
کی واضح دلیل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے جو عہد لیا تھا اس میں
ایک شق یہ تھی:
’’اور ہم اہل حکومت سے حکومت کے معاملے میں منازعت نہ کریں مگر یہ کہ کھلا
ہوا کفر دیکھو جس میں تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے برہان ودلیل
ہے۔(صحیح بخاری ص ۱۰۲۵ ج ۲)
’’امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ کفر سے مراد یہاں معصیت ہے اور حدیث کے معنی یہ
ہیں کہ ارباب حکومت سے ان کی حکومت کے بارے میں منازعت نہ کرو اور نہ ان پر
اعتراض کرو۔ ہاں اگر تم ان کی جانب سے کسی صریح مُنکَر کا ارتکاب دیکھو جس
کا منکر ہونا تمہیں قواعد اسلام سے معلوم ہو پس جب تم ایسی چیز دیکھو تو ان
پر روک ٹوک کرو اور حق بات کہو خواہ تم کہیں بھی ہو‘‘(فتح الباری ۔ ص ۸ ج
۱۳)
اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے اولین خطبہ خلافت میں حمدو
ثناء کے بعد فرمایا:
’’لوگوں! مجھے تمہارا سربراہ بنا دیا گیا ہے اور میں تم سے بہتر نہیں ہوں
پس اگر میں بھلائی کروں تو میری مدد کرو اور اگر میں برائی کروں تو مجھے
سیدھا کردو‘‘(البدایہ والنہایہ ص ۳۰۱ ج ۶)
برعکس اس کے جمہوری نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹ مطلق العنان ادارہ ہے اوراس
کا وضع کیا ہوا دستور سب سے بالاتر قانون ہے اس سے بالاتر کوئی قانون نہیں
جس کے حوالے سے ان پر روک ٹوک کی جا سکے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے
دانشور، قلم کار اور سیاسی تجزیہ نگار قرآن وسنت کے سپریم لاء ہونے پر
انگلیاں اٹھاتے ہیں ان کی نظر میں شریعت کو پارلیمنٹ سے بالاتر تسلیم کرنا
پارلیمنٹ کی توہین ہے اور اس کی بالادستی کو مجروح کرنا ہے اور یہی وجہ ہے
کہ پارلیمنٹ کے ارکان متفقہ طور پر کوئی قانون وضع کردیں تو کسی کو دم
مارنے کی مجال نہیں ہوتی جیسا کہ ہمارے ہاں پہلے عائلی قوانین اور ابھی کچھ
عرصہ قبل حدود آرڈیننس کو کھلونا بنایا گیا اور اب بھی شرعی تقاضوں کا جو
حشر کیا جا رہا ہے اس کی نحوست نے پوری قوم کو مختلف عذابوں کی لپیٹ میں
لیا ہوا ہے جبکہ حل ایک ہی ہے کہ قیام خلافت کو نہ تو محض اللہ کے بھروسے
چھوڑ کر خود بے فکر ہو جایا جائے اور نہ ہی محض زبانی خلافت خلافت کی رٹ
لگائی جائے بلکہ اُس عملی محنت میں اپنی طاقت صرف کی جائے جس کی منزل قیام
خلافت ہو، خواہ اس کا نتیجہ ہماری زندگی میں ظاہر ہو یا کبھی بعد میں مگر
یہ تو ہو کہ:
ہم اپنا عہد وفا کر چلے! |