بم کیسے چلتا ہے؟
(Sohail Ahmad Mughal, Lahore)
اِس وقت جب ملک عزیز دہشت گردی کی شدید
لپیٹ میں ہے اور بد ترین حالات سے دوچار ہے ۔ بم دھماکوں پر بھی کنٹرول
ہونے کی بجائے بتدریج بڑھتے جا رہے ہیں اور آئے روز معصوم انسانوں کی
زندگیاں نگل رہے ہیں ۔ چند روز قبل پنجاب کے صوبائی دارلحکومت میں ہونے
والے خود کش بم دھماکے میں کئی قیمتی جانوں کا نقصان ہو ا اس سانحے کو شاید
پاکستانی قوم کبھی نہ بھول پائے۔ لیکن یہ کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا
کہ ’’دستی بم‘‘ یوں بھی چل سکتا ہے ۔ سوموار کے روز شہر قائد کراچی میں
انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں لیاری گینگ وار کے ملزم ولی بلوچ کو
پیش کیا گیا تو وکیل صفائی نے دلائل دیتے ہوئے اس بات پر اصرار کیا کہ ملزم
سے برآمد شدہ بم عدالت میں پیش کیا جائے جس پر دستی بم عدالت میں پیش کرنے
کیلئے لایا گیا ۔ فاضل جج شکیل حیدر نے پولیس افسر سے سوال کیا کہ دستی بم
کیسے چلتا ہے ؟ جس پر پولیس افسر نے پن نکال کر دستی بم فاضل جج کی طرف
بڑھایا ہی تھا کہ دھماکہ ہوگیا اور کمرہ عدالت میں بھگڈر مچ گئی پولیس
اہلکار نے زخمی حالت میں اونچی آواز میں کہا ’’جج صاحب اس طرح چلتا ہے دستی
بم‘‘ دھماکے میں فاضل جج‘ عدالت کے سٹینو گرافر اور پولیس افسر سمیت 5
افراد زخمی ہوئے ۔ یوں تو یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے لیکن کچھ برس قبل
اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ پنجاب کے ایک ضلع میں بھی پیش آیا تھا ۔ ہوا کچھ
یوں تھا کہ ایک صحافی سینئر سول جج کی عدالت میں ایک مقدمہ میں پیش ہوا اور
کہا جج صاحب پولیس نے رشوت لیکر میرے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کیا ہے جس کا
حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ، تو فاضل جج نے سوالاََ پوچھا کہ کیا پولیس پیسے
لیکر مقدمے درج کرتی ہے کوئی ثبوت ہے آپ کے پاس؟ تو صحافی نے نہائت احترام
کیساتھ کہا جج صاحب آپ مجھے ایک تاریخ عنایت فرما دیں میں ثبوت پیش کردوں
گا۔ تاریخ دیدی گئی اور شام سے پہلے انہی فاضل جج صاحب کے خلاف اسی تھانے
میں چوری کا مقدمہ درج کروا دیا گیا جس تھانہ کے وہ علاقہ مجسٹریٹ تھے۔
پولیس جب انہیں گرفتار کرنے انکے گھر پہنچی تو ہلچل مچ گئی اور ایف آئی آر
سیل کردی گئی ۔ اگلی تاریخ پر موصوف صحافی نے عدالت میں پیش ہوکر کہا
’’مائی لارڈ'' اسطرح درج کرتی ہے پولیس رشوت لیکر جھوٹے مقدمات‘‘ لیکن
حالیہ واقعہ میں نہ صرف ایک اہلکار کی غفلت شامل ہے بلکہ اعلیٰ پولیس
افسران بھی اس کے ذمہ دار ہیں کیونکہ قانوناََ اس طرح کا خطرناک مواد
ناکارہ بنانے کے بعد سیل کرکے جج کے سامنے پیش کیا جانا متعلقہ تفتیشی افسر
کی ذمہ داری ہوتی ہے جبکہ متعلقہ تفتیشی افسر نے خلاف قانون دھماکا خیز
مواد ناکارہ بنائے بغیرایک کانسٹیبل کے حوالے کردیا جس کی نااہلی کے باعث
واقعہ پیش آیا جس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ضلع ساؤتھ کراچی پولیس کے دیگر
اعلیٰ افسران بھی انتہائی غیر ذمہ دار ہیں جس کا ثبوت انہوں نے صرف ایک
پولیس اہلکار کے خلاف معمولی نوعیت کا مقدمہ درج کرکے دیا جبکہ واقعہ کا
اصل ذمہ دار تفتیشی افسر عابد انصاری اور متعلقہ ایس ایس پی بھی ہے نسبتاََ
اگر کسی عام شہری نے محلے کے چوک میں پٹاخہ بھی پھوڑا ہوتا تو اس کیخلاف
پولیس نے دہشت گردی سمیت سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنا تھا لیکن حالیہ
واقعہ جو انتہائی حساس نوعیت کا ہے اس پر صرف 286 پی پی سی کے تحت معمولی
نوعیت کا مقدمہ درج کیا گیا ۔ دوسری جانب آئندہ کیلئے یہ بھی خطرہ موجودہے
کہ کوئی جج صاحب یا انویسٹی گیشن آفیسر کسی ملزم سے پوچھے کہ قتل کیسے کیا
تو ملزم کر کے دکھا دے!اس لیے اب محتاط رہنا ہوگا اور کسی سے سوال کرنے سے
پہلے سوچنا ہوگا۔۔ ورنہ دھماکہ ہوجائے گا۔ |
|