والدین اور ہماری زندگی:

کبھی کسی نے یہ بات سوچنے کی کوشش کی ہے کہ زندگی کس چیز کا نام ہے۔۔؟ اور یہ کیوں کر ہم کو ملی ہے۔۔۔؟ اس کی حقیقت کیا ہے۔۔۔؟ اس زندگی میں اتنے دکھ درد، غم و اندیشے کیوں کر ہیں۔۔۔؟ کیوں ہر زندگی کا انجام موت پر ہی ہوتا ہے۔۔۔؟ زندگی سوچنے والوں کے لیے معنی خیز اور نہ سمجھ لوگوں کے لیے صرف ایک مزاح سے کم نہیں۔

ذرا سوچا جائے کے کس طرح ایک بچہ اپنی ماں کے رحم میں پلتا ہے، پھر کتنی زیادہ تکالیف کے بعد وہ اس دنیا ِ فانی میں آ کر سانس لیتا ہے، اپنا بچپن گزارتے گزارتے کیسے وہ جوانی کی دہلیز پر پاؤں رکھتے ہوئے اچانک بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ جاتا ہے، پھر اسی طرح ایک دن اچانک اس کی زندگی کی کتا ب کو بند کر دیا جاتا ہے اور رہ جاتا ہے تو صرف سوالیہ نشان۔۔۔! کیا یہ ہی ہے زندگی۔۔۔؟اس زندگی کے کچھ مقاصد اور پہلو بھی ہیں، کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں جن کو سمجھنے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ ان کو پورابھی کرنا ہوتا ہے۔ مگر ہم کیا کرتے ہیں صرف زندگی گزارتے ہیں اور وہ بھی بے بسی کے عالم میں۔۔۔! اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔زندگی کو سمجھنے کا سب سے آسان اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ چند منٹ کے لیے خاموش۔۔۔ تنہا بیٹھ کر۔۔۔ آنکھیں بند کر کے ۔۔۔ پھر ۔۔۔اپنی زندگی کا مشائدہ کرے کہ ہماری زندگی کیا تھی کس طریقے سے ہم کو ماں باپ نے بولنا سکھایا، چلنا سکھایا، زندگی کے اتار چڑھاؤ سے آشنا کرواکر ہم پر عیاں کر دیا کہ زندگی انتہائی مشکل امر کا دوسرا نام ہے۔

والدین کی زندگی میں خوشی کے چند ایک مکامات ، چند گھڑیا ں، آرزویں اور امیدیں ہی ہوتی ہیں، والدین جب اپنے بچے کو پہلی بار چلتے دیکھتے ہیں یا بات کرتے ہوئے سنتے ہیں تو ان کی خوشی کی انتہانہیں ہوتی وہ سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا کی خوشیاں سمٹ کر ان کے آنگن میں آ گئی ہیں اور وہ امید کی کرن لگا بیٹھتے ہیں کہ ہماری یہ اولاد آگے مسقبل میں جا کر ان کا نام روشن کرے گی، اور ان کی زندگی کو خوشیوں اور آسائیشوں سے بھر دے گی۔والدین اپنی اولاد کے ساتھ کس قدر تکالیف برداشت کر کے اس اولاد کو معاشرے کا ایک عزت دار انسان و کردار بنا کر پیش کرتے ہیں ، کبھی کبھار والدین کی خدمات پر نظر ڈالی جائے تو دیکھیں کہ آپ کی والدہ آپ کو ساری رات اُٹھا کر لوریاں دیتے ہوئے گزار دیتی ہے کہ کاش میری اولا د کو سکون ملے اور وہ سو جائے ، اور اپنی اولاد کو سویا ہو ا دیکھ کر والدین کو اپنی نیند بھو ل جاتی ہے، اولاد کو اگر ہلکی سی بھی تکلیف ہو تو والدین پریشان دکھائی دینے لگتے ہیں، اور والدین اس تکالیف کو ایسے محسوس کرنے لگتے ہیں کہ گویا وہ تکلیف ان کے جسم پر ہو رہی ہو، والدین اپنی اولاد کی ہر خواہش اور ہر ضرورت کو بڑی دلیری اور محبت کے ساتھ پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بازار جاتے ہوئے اگر اولاد نے فرمائش کر دی تو والدین نے کبھی یہ نہیں کہا کہ نہیں لے کر دیں گے۔ ۔۔ہاں۔۔۔! مگر۔۔۔! سوچ ضرور پیداہو جاتی ہے کہ ہماری اولاد نے جو فرمائش کی ہے اس کو پورا کرنے کے لیے روپے کہاں سے لے کر آؤنگا، مگر پوری لازمی کرتے ہیں، کہ ہماری اولاد کسی سے کم نہ ہو، سکول کی فیسوں کو ٹائم پورا ہونے سے پہلے ادا کرتے ہیں، یونیفارم اور دیگر اشیاء ضروریات کا باقاعدگی کے ساتھ اہتمام کیا جاتا ہے۔ اولاد کے منہ سے نکلی ہوئی ہر چھوٹی سے چھوٹی خواہش کو پور ا کرنا والدین اپنے لیے بڑے اعزاز کی بات سمجھتے ہیں۔ اگر ہم اپنے والدین کی تمام تر محنتوں کوششوں اور احسانات کا بدلہ دینا چاہیں یا پھر ہم اگر ان کا شکریہ ادا کرنے کی بھی کوشش کریں تو نہیں کر سکتے ۔ کیوں کہ ہم ان کی خدمات کے بدلے میں کوئی بھی چیز نہیں رکھ سکتے ۔آج زمانہ بد ل گیا ہے ، جس زندگی سے دیگر قدریں ختم ہو تی جا رہی ہیں ادھر ہی والدین کی قدر و منزلت بھی آہستہ آہستہ ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ آج کی اولاد والدین کو فراموش اس قدر کرنے لگ گئے ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنا تک گوارا نہیں کیا جاتا۔ آج والدین کی تمام تر کوششوں اور سختیوں کو یہ کہہ کر فرامو ش کر دیا جاتا ہے کہ انھوں نے ہمارے لیے کیا کیا ہے۔۔۔؟؟؟ صد افسوس کے ساتھ اوپر سے بولتے ہیں کہ ہم کو پڑھایا ، لکھایا، بڑا آدمی بنایا تو یہ ان کا فرض تھاہم پر کوئی احسان نہیں۔والدین کے ساتھ نیکی کرنی چاہیے اور ان کا حد درجہ احترام کرنا چاہیے ۔ان کی اطاعت کرنی چاہیے، والدین کی اطاعت ہر امر میں لازم ہے سوائے ان امور کے جو خلاف ِ شرع ہوں ۔ والدین کی فرمانبرداری میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھنی چاہیے ، اور ان سے بات کرتے ہوئے بھی دل و جان سے ان کے احترام کو ملحوظ رکھنا چائیے۔ہر درجہ والدین کو خوش رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، کسی طرح بھی ان کو ناراض نہ ہونے دے، گویا والدین کے حقوق سب سے زیادہ ہیں اور ان میں سے بھی ماں کے حقوق اور بھی زیادہ ہیں، اس لئے کہ یوں تو ماں باپ دونوں ہی نے اولاد کے لئے تکالیف اٹھائیں مگر ماں نے نسبتاََ زیادہ تکالیف برداشت کرتی ہے، اور جنت کو ماں کے قدموں تلے اسی لیے رکھا گیا ہے کہ دل و جان سے ماں کی عظمت کو سلام پیش کرنا چاہیے مگر ساتھ میں اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ اگر جنت ماں کہ قدموں تلے ہے تو اُسی جنت کا دروازہ باپ کو بنایا گیا ہے۔ ہمیشہ والدین ہمارے لیے سرچشمہ ہیں ان کی اطاعت و سائے کے بغیر انسان دنیا میں صرف لاوارث ہی رہتا ہے۔
Muhammad Jawad Khan
About the Author: Muhammad Jawad Khan Read More Articles by Muhammad Jawad Khan: 113 Articles with 182546 views Poet, Writer, Composer, Sportsman. .. View More