را کے ایجنٹ کی گرفتاری

گزشتہ سال بدقسمتی سے پاکستان کی سرزمین سے اڑتا ہوا ایک کبوتر ہمسایہ ملک بھارت جا پہنچا. بھارت میں ایسا طوفان برپا ہوا جیسے سونامی آگیا ہو. بھارتی فوج،بھارتی خفیہ ایجنسی "را" سب ملکر اس معصوم کبوتر کے پیچھے پڑ گئے. اسے پاکستانی جاسوس ثابت کرنے پر تل گئے کبوتر کو پکڑ کر اسکا ملک کی اچھی سے اچھی لیبارٹری میں ٹیسٹ کرایا. اسکا پوسٹ مارٹم کیا گیا کہ کہیں اسکے اندر کوئی مواد نہ ہو. تو پتہ چلا یہ تو عام سا کبوتر ہے. جو پاکستان کے علاقے گوجرانوالہ سے اڑتا ہوا بھارت جا پہنچا. مگر بھارت نے پوری دنیا میں یہ خبر ایک موذی وائرس کی طرح پھیلا دی کہ ہمسایہ ملک پاکستان بھارت کا دشمن ہے اپنے کبوتروں کے ذریعے ہم پہ حملہ کرنے کی کوشش کررہا ہے. عالمی برادری میں بھی اس پر باتیں ہونے لگیں. یوں پاکستان کا ایک نقشہ کبوتری جاسوس کے طورپر بھی ابھرا. مگر ابھی چند پہلے جب پاکستانی سیکورٹی اداروں نے بلوچستان میں بڑی کاروائی کرتے ہوئے بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کے حاضر سروس نیوی آفیسر کل بھوشن یادو کو پکڑا جس نے بلوچستان میں موجود علیحدگی پسند بلوچوں کی فنڈنگ کرتا رہا ہے اور اسکا ایک منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری کو ناکام بنانا بھی تھا. جس کیلئے بھارت کی سرزمین سے ایرانی بارڈر کا استعمال کرکے اسلحہ منگوایا گیا. صرف یہ ایک نہیں بلکہ اسکے اور ساتھی بھی پاکستان میں موجود ہیں. اس نے اپنا نام بھی تبدیل کیا. کل بھوشن یادو سے مبارک حسین بنا اور اس نے اردو زبان بھی سیکھی. اس پہ شک نہ ہو اس کیلئے اس نے قرآن کے بھی چند وظائف اور سورتیں یاد کرلیں. اسے ان مقاصد کیلئے باقاعدہ ٹریننگ دی گئی. اس نے یہ سارا اعترافی بیان ایک ویڈیو میں ریکارڈ کرایا. مگر اس کے باوجود بھارت کی جانب سے کوئی خاص جواب نہ آیا. پہلے پہل تو بھارت نے اس حقیقت کو ماننے سے ہی انکار کردیا. صاف کہہ دیا یہ کوئی "را" آفیسر نہیں.
مگر ویڈیو دیکھنے کے بعد انکے منہ پر تالے لگ گئے مانو منہ میں جیسے دہی جما لیا ہو.
یہ تو وہی ہوا ناں"
وہ کبوتر بھی پکڑیں تو کردیتے ہے بدنام
ہم ایجنٹ بھی پکڑیں تو چرچا نہیں ہوتا

پاکستان کے قیام سے لیکر اب تک بھارت پاکستانی معاملات میں دخل اندازی کرتا آرہا ہے اسکا سب سے بڑا ثبوت 1971ء کو ملا. جب مشرقی پاکستان یعنی کہ بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہوگیا. اس کے بعد بھی آئے روز بھارتی مداخلت کے ثبوت ملتے رہے ہیں. بلوچستان میں "را" کے حاضر سروس افسر کی گرفتاری سکیورٹی اداروں کی ایک بہت بڑی کارروائی ہے. مگر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ابھی تک پاکستانی حکومت نے بھارت سے باضابطہ طورپر اس حوالے سے کسی قسم کا کوئی احتجاج کیوں نہیں کیا. بھارت میں پٹھان کوٹ واقعہ ہوجاتا ہے تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بنا کسی تحقیق اور تفتیش کے اپنے پاکستانی ہم منصب کو فون کرکے اس واقعہ کا سارے کا سارا الزام پاکستان پہ ڈال دیتے ہیں. نہ صرف اتنا بلکہ دو ٹیلی فون نمبرز کو بنیاد بنا کر تحقیقات کا بھی مطالبہ کرتے ہیں. جبکہ اس معاملے میں بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ہماری سفارتی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے؟ اتنی بڑی کارروائی پر حکومتی عہدیداران کی جانب سے کوئی بیان یا احتجاج ریکارڈ نہیں کروایا گیا. چاہیے تو تھا دفتر خارجہ فی الفور بھارتی ہائی کمشنر کو اپنے دفتر طلب کرتا. اپنا احتجاج ریکارڈکرواتا اور ملک بدری کے احکامات جاری کرتا مگر ہائے افسوس ابھی تک ایسا کچھ بھی نہیں ہوا. پاکستانی حکومت نے اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا. جیسے انہیں اس سب سے کچھ فرق نہ پڑتا ہو. آخر حکومت پاکستان کس بات کی منتظر ہے؟ اتنے سنسنی خیز انکشافات کے بعد تو کوئی وجہ ہی نہیں رہ جاتی کہ پاکستان میں بھارتی مداخلت کے بارے میں اپنا مقدمہ عالمی عدالت میں پیش نہ کرے. پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ جسے پاکستان کیلئے گیم چینجر بھی کہا جارہا ہے بھارت نے اس کو ناکام بنانے کیلئے نہ صرف "را" میں ایک علیحدہ ڈیسک قائم کیا بلکہ خاصی بڑی رقم بھی اس منصوبے کیلئے مختص کی. مگر اس انکشاف کے بعد بھی ہماری حکومت کو ہوش نہ آیا. پاکستان شاید دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جہاں حکومت نے اپنے دشمنوں کے خلاف ثبوت کے باوجود کوئی کارروائی نہ کی ہو. بلوچستان میں بھارتی مداخلت بہت ہی پرانی ہے. اسکی ایک بڑی وجہ پاک افغان اور پاک ایران کا سرحدی راستہ ہے. جب تک سرحدوں کو محفوظ نہیں بنایا جائے گا اس وقت تک دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکے گا.

اس لیے بہت ضروری ہے کہ حکومت بھارت سے اس بارے میں باضابطہ احتجاج اور جواب طلب کرے اور عالمی برادری کو بھی اس بارے میں اعتماد میں لیا جائے. اب بھی بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کے ایجنڈے پاکستان میں موجود ہیں اور اپنے منصوبوں پر کام کررہے ہیں. مگر شاید ہماری حکومت کو ملک کی آن سے کہیں زیادہ ہمسایہ ملک سے اپنی ذاتی مفادات کی زیادہ پڑی ہے. تبھی تو اس معاملے کو پشت پہ ڈال کے سب پاناما لیک کے پیچھے پڑے ہیں. بھارتی سازش کے بارے میں بات کرنے کا بھی کسی کے پاس وقت نہیں. شاید ڈرتے ہیں کہ جب یہ ایجنٹ پکڑا تو لاہور لہو لہان ہوا اب اگر بات کریں گے تو جانے کیا ہو. اس لیے اپنے ملک کے مسلے سے زیادہ پٹھان کوٹ واقعے کو توجہ دے رہے ہیں تبھی تو تحقیقاتی کمیٹیاں بھارت بھیجی جارہی ہیں وہ بھی ان حالات میں جب بھارت نے پٹھان کوٹ واقع کی تفتیش میں مدد کرنے سے بھی انکار کردیا. خوامخواہ اوروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے سے بہتر ہے پہلے اپنے مسائل تو حل کر لیے جائیں. پاکستان کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ اپنی سچائی کو دنیا کے سامنے لا کر اپنا امیج بہتر کرسکے کیونکہ پاکستانی سکیورٹی ایجنسیوں نے بھارتی مداخلت کا بھانڈہ پھوڑ کر دیگر ملک دشمن طاقتوں کیلئے بھی زمین تنگ کردی ہے. تو اب پاکستان کو سفارتی سطح پر بھی اپنا اہم اور مثبت کردار جلد از جلد ادا کرنا چاہیے،یہی حالات کہتے ہیں۔

 
Nadia Khan Baloch
About the Author: Nadia Khan Baloch Read More Articles by Nadia Khan Baloch: 18 Articles with 12066 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.