مسئلہ اخلاقی زوال ہے

کرپشن کے سکینڈل تو پہلے بھی میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ایک حد تک نیب لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے لئے جدوجہد بھی کرتارہتا ہے۔اب جو آف شور کمپنیوں کے ذریعے باہر چھپائی ہوئی دولت کا پتہ چلا ہے تو یوں لگتا ہے کہ امرائے قوم کی اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا ہے۔سالہا سال سے لوگ دولت باہر منتقل کرتے رہے۔کمپنیاں بناتے رہے اور کاوربار کرتے رہے۔230لوگ جن کا ذکر پانامہ کی لاء فرم (موساک فونسیکا)میں ہوا۔کل دستاویزات 11.5ملین ہیں۔اس میں پاکستانیوں کے کھربوں روپے بنتے ہیں۔سنا یہ جارہا ہے کہ آئندہ آنے والی قسطوں میں مزید پاکستانی اور غیر پاکستانی لوگوں کے نام آرہے ہیں۔ہمارے حکمران جب بھی دوسرے ممالک میں جاکر سرمایہ داروں سے ملتے ہیں تو انہیں اپنا سرمایہ پاکستان لانے کاکہتے ہیں۔پاکستان کے حالات کی بہت ہی خوشگوار صورت پینٹ کرتے ہیں۔اور ہم سب جانتے ہیں کہ سالہا سال سے دوسرے ممالک سے آنے والی سرمایہ کاری برائے نام ہی ہے۔جوکچھ ہم دوسروں سے چاہتے ہیں۔اس پر خود عمل درآمد نہیں کرتے۔کچھ عرصہ پیشتر امریکی بھی یہی کہا کرتے تھے کہ پاکستانی ہم سے تو فنڈز اور قرضہ مانگتے ہیں لیکن پاکستان کے بڑے بڑے لوگ خود ٹیکس نہیں دیتے اور اپنا سرمایہ ٹیکس سے بچنے کے لئے ایسے ممالک میں رکھتے ہیں جہاں ٹیکس کی شرح برائے نام ہے۔دنیا میں ایسے چھوٹے چھوٹے بے شمار ممالک اورجزائر ہیں جو سرمایہ کو تحفظ دیتے ہیں۔اس سرمایہ سے وہ خود بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور سرمایہ دار کے لئے بے شمار سہولیات فراہم کرتے ہیں۔پوری دنیا میں ایسے ممالک اور جزائر ناجائز دولت کے خفیہ مرکز بنے ہوئے ہیں۔دوسرے ممالک میں جاکر کاروبار کرنا اور کمپنی بنانا دیکھنے میں توناجائز نظر نہیں آتا۔لیکن جب گہری نظر سے دیکھا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ جو دولت پاکستان میں کمائی گئی تھی وہ ناجائز طریقے سے کمائی گئی اور ناجائز انداز سے باہر شفٹ کردی گئی۔ایسے لوگ سرکاری سکیمیں جن سے بلیک منی کو وائٹ کیاجاتا ہے۔ان سے بھی فائدہ نہیں اٹھاتے۔ایک خاندان کی تو34۔کمپنیوں کا ذکر آرہا ہے۔ڈھائی سولوگ جن کے اثاثوں اور دولت کا ذکر ایک تحقیقاتی صحافتی کمپنی نے کیا ہے۔یہ کھربوں روپے بنتے ہیں۔ہم آج تک یہی سنتے آرہے ہیں تھے کہ آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے لوگوں نے ملک سے دولت لوٹ کر باہرشفٹ کی ہے۔ان کے فرانس،لندن،نیویارک اور دبئی میں بڑے بڑے قیمتی محلات ہیں۔سوس بینکوں میں رکھے اکاؤنٹس کاذکر ہوتارہا۔سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے پوری کوشش کی کہ یہ سرمایہ واپس لایا جائے۔لیکن زرداری کے ایک ماتحت وزیر اعظم نے اپنی قربانی تو دے دی لیکن اپنے لیڈر پر کوئی حرف نہیں آنے دیا۔محترم جناب نواز شریف کے بارے یہ تو سنا جارہاتھا کہ ان کے بیٹے باہر کاروبار کرتے ہیں۔لندن میں واقع ایک خوبصورت فلیٹ کا ذکر بھی میڈیا کی زینت بنتا رہتا تھا۔لیکن اب بالکل نئی نئی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔اگر یہ تمام الزامات ہیں تو انہیں جلد از جلد صاف ہونا چاہیئے۔پبلک آفس ہولڈر کو اپنا دامن صاف رکھنا ضروری ہے۔کیا یہ ضروری تھا کہ دبئی کی سٹیل مل فروخت کرکے سعودی عرب میں منتقل کی جائے اور وہاں سے فروخت کرکے سرمایہ لندن شفٹ کرلیا جائے۔اور وہاں مزید پراپرٹی خریدی جائے۔اس سرمائے کی ضرورت پاکستان کو بھی تھی۔جلاوطنی کے دنوں میں سعودی عرب میں مل لگانے کے لئے سعودی بنکوں سے قرضہ لینا تو سمجھ میں آتا ہے۔لیکن اس سارے سرمائے کو لندن شفٹ کرنا کسی بھی صورت میں درست نظر نہیں آتا۔جب محترم نواز شریف صاحب2007ء میں واپس پاکستان آگئے تھے تو ساتھ ہی اپنے وسائل بھی ملک کے اندر ہی شفٹ کرلیتے۔اور جوبھی کاروبار کرناتھا۔اپنے ہی ملک میں کرتے۔وہ ایک بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ ہیں۔ان کے فیصلوں کو ہرانداز سے دیکھا اور جانچا جاتا ہے۔جب ہم الطاف حسین جیسے لوگوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ وہ سالہا سال سے لندن سے بیٹھ کر پارٹی چلا رہے ہیں۔چندے کراچی سے اکٹھے ہوتے ہیں۔اور بھیجے جاتے ہیں لندن۔وہیں جائیدادیں خریدی جاتی ہیں۔اس صورت کو تمام پاکستانی غیر اخلاقی سمجھتے ہیں۔مصطفی کمال نے آکر اس غلط کام کو لوگوں کے سامنے رکھ دیا ہے۔محترم جناب نواز شریف ایسے جب آپ نے یا آپ کے بچوں نے سعودی عرب میں سٹیل مل فروخت کی تو اس سرمائے کو پاکستان آنا چاہیئے تھا۔یہاں کاروبار میں لگنا چاہیئے تھا۔آخر آپ کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کا بھی تو تمام کاروبار پاکستان میں ہی ہے۔ان کے بیٹے اس کاروبار کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔شہبازشریف یا ان کے بیٹوں کا نام پانامہ لیکس میں نہیں آیا۔پانامہ بم پھٹنے سے شہباز پر کوئی برے اثرات محسوس نہیں ہوئے۔میراتو محترم جناب نواز شریف کو اب بھی یہی مشورہ ہے کہ اپنے تمام اثاثے اور اکاؤنٹس پاکستان میں منتقل کرلیں۔باہر آف شور کمپنیاں اور اثاثے بنانا وزیر اعظم نواز شریف کے لئے ہرگز مناسب نہ ہے۔تکنیکی ماہرین کے مشورہ کے بعد ایک مخصوص عرصہ کا پروگرام بنایا جائے اور ایک ایک اثاثہ فروخت کرکے وسائل پاکستان منتقل کردیئے جائیں۔لندن،پانامہ یا کسی اور ملک میں آپ کا کچھ بھی نہ ہو۔یہ وسائل جب پاکستان میں کاروبار میں خرچ ہونگے تو ملکی معیشت کوبھی فائدہ ہوگا۔باقی حضرات کو بھی یہی ترغیب دی جائے۔تمام پاکستانیوں کا پیسہ ملک کے اندر لانے کا پروگرام شروع کیاجائے۔محترم وزیراعظم صاحب پہل تو آپ کو ہی کرنی پڑے گی۔اسحاق ڈار کوبھی یہی طریقہ اختیار کرنا چاہیئے۔جیسے کہ آپ نے خود کہا کہ آپ کے والد صاحب1936ء سے کاروباری تھے۔پاکستان میں آپ نے بہت کچھ بنایا۔لیکن مارشل لاء کے ذریعے برباد ہوتاگیا۔اب مارشل لاء جیسی بلا دوبارہ نازل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔دہشت گردی بھی ختم ہورہی ہے۔ملک میں نارمل حالات آرہے ہیں لہذا اب پاکستانیوں کا پیسہ واپس آنا ضروری ہے۔اگر اب تک اعلان شدہ230۔پاکستانیوں کے وسائل ملک میں آجائیں تو معیشت کا پہیہ بہت تیزی سے گھومنے لگے گا۔ہمیں شایدIMF کے دروازے پر دوبارہ بھی نہ جانا پڑے موجودہ واقعات سے مسلم لیگ ن کی ساکھ کو جو دھچکا لگا ہے اس میں بہتری آجائے گی۔آپ کی مسلم لیگ میں سینکٹروں لیڈر اور کروڑوں ووٹر ہیں۔کسی نے بھی آف شور کمپنیوں اور غیر ملکی اثاثوں کے ذکر کو پسند نہیں کیا۔اگر آپ فوری طورپر اس طرح کا اعلان کردیں تو عمران خان کی حکومت مخالف تحریک فوری دم توڑ دے گی۔باقی پارٹیاں بھی اس مسٔلہ کو سنجیدگی سے نہیں لیں گی۔پاکستان اگر آپ کا سرمایہ آجاتا ہے۔تو اسے کوئی خطرہ تو نہیں ہے۔پہلے بھی یہاں آپ کاروبار کرتے رہے ہیں۔کاروبار کا کچھ نہ کچھ حصہ اب بھی ضرور موجود ہوگا۔اپنی اور اپنی پارٹی کی ساکھ بچانے کا یہ ایک اچھا طریقہ ہے۔ملک میں ایک اچھی اخلاقی مثال بھی قائم ہوگی۔لیڈر وہ ہوتے ہیں جو اخلاقی مثال قائم کرتے ہیں۔پوری پاکستانی قوم کا مسٔلہ ہے ہی اخلاقی۔جیسا کہ پانامہ بم سے نظر آتا ہے۔پاکستانیوں کے پاس دولت کی کمی نہیں ہے۔لیکن گزشتہ 2۔دہائیوں سے پیسہ ملک سے باہر جارہا تھا۔آپ اپنی مثال دیکر اس پیسہ کو واپس لاسکتے ہیں۔اس کے لئے قانون سازی سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔پاکستان کو پاکستانیوں کے سرمائے کی ضرورت ہے۔جناب وزیراعظم آپ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرکے ملک کے حالات کوبہتر کرسکتے ہیں۔
Muhammad Jameel
About the Author: Muhammad Jameel Read More Articles by Muhammad Jameel: 72 Articles with 49826 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.