چچا برساتی قسط 5
(Farheen Naz Tariq., Chakwal)
چچا برساتی کے بڑے بھائی اکبر کو کسی دوست
لے توسط سے سعودیہ جانے کا موقع مل رہا تھا اس نے ماں باپ سے صلاح کی وہ
بہت خوش حجاز مقدسہ کی سرزمین پر جانے کا موقع مل رہا تھا وہاں کام کرنے کی
بات تو ثانوی تھی کہ اک مسلمان کے لیئے تو حجاز مقدسہ کی زیارت کرپانا
زندگی بھر کی سب سے بڑی خوہش ہوتی ہے بہر حال اس کے والدین کو اس کا پرائی
سرزمین پر جا کر مشقت کرنا اور ماں باپ بیوی بہن بھائیوں کے لیئے خود کو
اتنا تھکانا منظور نہ تھا مگر ایسے وقت میں نظام دین (چچا برساتی) نے ان کو
سمجھایا کہ اکبر کے سعودیہ چلے جانے سے نہ صرف گھر کے حالات بدل سکتے ہیں
بلکہ اسکی اپنی زندگی بھی سنور جائے گی اور بڑھاپے کے لیئے بھی کچھ بچا
پائے گا اس نے اتنے دلائل دیئے کہ سب راضی خوشی اسے بھیجنے پر تیار ہو گئے
اکبر نے اپنی دکان باپ بھائی کے سپرد کی کہ ان سے زیادہ وہ کس پر اعتبار کر
سکتا تھا جاتے وقت اس نے چچا برساتی کو خوب تلقین کی کہ دکان پر ہر کام
اپنی نگرانی میں کروائے اس دکان کی اک اک چیز اس نے ان تھک محنت سے بنائی
تھی یہ اس کا کل اثاثہ تھا چچا برساتی نے اسے یقین دلایا کہ وہ بہت محنت سے
کام کرے گا اکبر بہت ساری محبتیں سمیٹے ان کو روتا چھوڑ کر دور دیس
سدھارگیا پہلے پہل اکبر کو بہت مشکلوں کا سامنا ہوا مگر چچا برساتی ہر
موقعے پر اس کی ہمت بندھواتا رہتا اسے ثابت قدمی سے پردیس کی صعوبتیں
برداشت کرنے کی تلقین کرتا زندگی کا کام تو گزرنا ہے سو وہ گزرتی رہتی ہے
کوئی کسی کی یاد میں ہر وقت روتا نہیں رہتا سو اس کے گھر والوں کی زندگی
میں بھی جو خلا پڑا تھا وہ ہستہ ہستہ بھرنے لگا - بہنوں کے چھپ کر بھائی کی
یاد میں رونے کی جگہ سہیلیوں کے پاس دیکھی گئی چیزوں کی فرمائشوں نے لے لی
گھر میں پیسہ آنے لگا اب اگر وہ واپس آنے کی سوچتا تو بہن بھائیوں کی دی
گئی فرمائشی لسٹ خرید لینے کے بعد اس کے پاس اتنا ہی بچتا کہ وہ واپسی کا
ارادہ ترک کر کے اگلے مہینے کا راشن ڈال لیتا اصغر اس کا دوست جو اسے یہاں
لایا تھا نے کئی بار اسے سمجھانے کی کوشش کی وہ محسوس کرتا تھا اور جانتا
تھا کہ اکبر اپنے پاس کچھ نہ رکھ رہا تھا اس کے بھائی نے جس سنہری مستقبل
کا خواب دکھا کر اسے بیرون ملک جانے کی رہ سجھائی تھی وہ تاریکی میں جا رہا
تھا بہن بھائیوں کی فرمائشیں بڑھتی جارہی تھی ماں باپ کو بیٹے کی جدائی کا
احساس تو تھا مگر اسکی وجہ سے ان کی باقی اولادیں خوش تھیں سو وہ بھی خوش
تھے اور اکبر کے پاس چہے کچھ نہ بچتا تھا مگر اس کی بھیجی رقم سے اس کی
دکان بڑی ہوتی جارہی تھی گھر کے لیئے زمین خریدی جاچکی تھی مکان کی تعمیر
تندہی سے جاری تھی بہنوں کے جہیز کا بہت سا سامان وہ گھر بھیج چکا تھا اب
بس کچھ اور وقت اسے یہاں گزارنا تھا اور پھر وہ پاکستان اپنے پیاروں کے
درمیان ہوتا خوش اور آسودہ زندگی ان کی منتظر ہوتی مستقبل کے سہانے دنوں کو
سوچ کر اس کی آنکھیں چمکنے لگتیں پھر وہ دن بھی آگیا جب اس نے پردیس کو
ہمیشہ کے لیئے خیرباد کہا اور پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا ماں باپ بہت
خوش تھےماں بار بار اسے گلے لگا کر اس کا ماتھا چومتی جاتی تھی - وہ بھی
خوش تھا اس کا گھر کاروبار سب شاندار تھے اب اسے پردیس کی مشقت کاٹنے کی
ضرورت نہ تھی-مگر جلد ہی اسے احساس ہوا کہ گھر کا ماحول بدل رہا ہے یا بدل
چکا ہے آنے والا وقت اس کی چھٹی حس کو الرٹ کر رہا تھا کچھ دن تو آؤ بھگت
میں گزرے مگر جب اس نے بتایا وہ واپس جانے کا ارادہ نہیں رکھتا تو بہن
بھائیوں کے رویے غیر معمولی ہونے لگے انہیں ھل من ھور یعنی تھوڑا اور لینے
کی عادت پڑ چکی تھی وہ دینا بھول چکے تھے اس نے اپنی دکان پہ جانا شروع کیا
تو بھائی اس کی موجودگی میں ششدر ہوجاتا گھر آتا تو بہنیں چند پل اس کے پاس
بیٹھنے کی بجائے ادھر ادھر ہو جاتیں اسے احساس ہوتا وہ سب آپس میں خوش رہتے
اسے دیکھ کر خاموش ہو جاتے اور اس کی غیر موجودگی میں ان کے قہقہے گونجتے
اس نے ان کے ساتھ بیٹھنا کم کر دیا اور حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لینے لگا
اگر وہ سوچتا کہ یہ ان کے بیچ گزرے چند سالوں کی دوری کے باعث آیا حجاب تھا
تو وہ سب تو بچپن کے ساتھی تھے اور اس سے مانوس نہ ہو پا رہے تھے مگر اس کی
بیوی نے ایسا کوئی اظہار کیوں نہ کیا جس سے اسے احساس ہوتا کہ وہ دو سال اس
سے اور اپنے بیٹے سے دور رہا تھا یہی بہن بھائی جب وہ فون کرتا تو ایک
دوسرے سے لڑ جھگڑ کر اس سے بات کرتے اپنی فرمائشیں لکھواتے اور اب اس کے
وجود سے بھی انجان بن رہے تھے وقت اس کی نظروں کے سامنے گھوم رہا تھا اصغر
کی کہی باتیں کہ وہ بہن بھائیوں کی زندگی نہیں سنوار رہا بلکہ انہیں صرف
لینے کی عادت ڈال کر خود سے دور کر رہا ہے مگر خیر جو ہو گیا تھا اسے بدلا
نہ جا سکتا تھا اسے افسوس تو تھا کہ اس نے اپنے پاس کچھ نہ جوڑا جس کی
بدولت وہ سب اس کے وجود کی قدر کرتے مگر اسے تسلی تھی کہ اس کے پاس یہ گھر
اور دکان تھی وہ پھر سے محنت کر لے گا - وہ اپنے بہن بھائیوں کی طرح پکی
پکائی کھانے کا عادی نہ تھا-اور اس کی بیوی بھی وفا شعار اور ساتھ دینے
والی تھی پھراسے کیا غم تھا- |
|