تھی کہ دروازے پہ آہٹ نے اسے ہٹا دیا ....اس
کے ہاتھ رک گئے ...
اس نے دروازے کی سمت دیکھا ....رضا دروازے میں کھڑا تھا ....اسے اپنی
نگاہوں پہ یقین نہ آیا ....اس نے اپنی آنکھوں کی نمی کو بمشکل اندر دھکیلا
.....
وہ رضا کی طرف بے اختیار بڑھی
مگر
اس کے بڑھتے قدم رک گئے کیوں کہ اس کے پیچھے کوئی ور بھی کھڑا تھا ....
رضا اس کی ہچکچاہٹ پہ مسکرایا ...اور اپنے پیچھے کھڑے خوبصورت نوجوان سے اس
کا تعارف کروایا ....
یہ میرا دوست ہے فراز ....''
اور فراز یہ روشنی ہے ....''روشنی نے گھبرائی ہوئی نگاہوں سے فراز کو دیکھا
....
جبکہ فراز کی گہری نگاہیں روشنی پہ ٹکی ہوئیں تھیں ....رضا اگے بڑھ کر صوفے
پہ بیٹھ گیا ....
فراز آؤ بیٹھو تم بھی ....''
روشنی ابھی تک وہیں کھڑی تھی ...
روشنی کی نگاہوں میں رضا تھا ....جبکہ اس لمحے وہ خود کسی اور کی نگاہوں کے
حصار میں تھی ....اس بات سے بے خبر کے اب وہ کسی اور کی آنکھوں کی روشنی بن
کر چمک رہی تھی ....مجھے بعد میں جے بھر کر دیکھ لینا ...''ابھی ادھر آ کر
بیٹھو میرے پاس ....''
روشنی شرمندہ سی رضا کے پہلو میں آ کر بیٹھ گئی ....
فراز بھی آ کر روشنی کے بلکل سامنے صوفے پہ آ بیٹھا ....
یہ میرا بہت پیارا اور مخلص دوست ہے ....''
فراز نے کہا ہے یہ ہمارا پورا ساتھ دے گا ....''رضا مسکراتے ہے بولا ....
فراز کیوں ....''ٹھیک کہا نہ میں نے ....
فراز زبردستی مسکرایا ....اس کے اندر اس لمحے کچھ اور ہی چل رہا تھا ....اس
کی نگاہیں بھٹک کر روشنی کے چہرے پہ ہی جا رہیں تھیں ....اس نے روشنی کی
آنکھوں میں رضا نام کی چمک دیکھ لی تھی ....اس لئے اب اس کے لئے بہت مشکل
تھا کہ وہ پلان بدلتا ....
یہ سب بہت تحمل اور سکوں سے کرنا ضروری تھا ....
جبکہ رضا فراز کی تعریف کے جا رہا تھا ....
روشنی ہمیں آج ہی یہاں سے نکلنا ہو گا ....''تم تیار ہو نہ ...''
مگر ...''
مگر آج کیسے ممکن ہو سکتا ہے ...''آج تو بڑی محفل ہے اور میری موجودگی بہت
ضروری ہے ....''ابھی کچھ
ٹائم میں محفل سٹارٹ ہو جائے گی ....''روشنی بولی ...
ارے پگلی ....''یہ ہی تو موقع ہے .....''یہاں سے با آسانی نکلنے کا ....
کیا خیال ہے فراز .....''رضا نے گم سم بیٹھے فراز کو مخاطب کیا ....
...ہم ....ہاں ...ہاں کیوں نہیں ....فراز خود پہ قابو پاتے ہوئے بولا ....
روشنی خود بھی اب اس روشنی میں چمکتے اندھیروں سے فرار چاہتی تھی ...
مگر
وہ اس بات سے انجان تھی کہ جن اجالوں کی تلاش میں وہ یہاں سے نکل رہی ہے
کیا وہ اس ق مقدر بن پائیں گے ...
فراز تم باہر کی صورت حال کا جائزہ لو ....
باہر تو محفل کی تیاریاں چل رہی ہیں ....''روشنی بولی
اس کا مطلب اب ہمیں دیر نہیں کرنی چاہیے ....''
ٹھہرو رضا ....''میں کچھ چیزیں لے لوں ....''
کچھ زیور اور جائیداد کے کاغذات ہیں ....''روشنی بولی .اس .کوٹھے کے کاغذات
ہیں ....''
یہ سب جائداد میرے نام ہے ...''
مگر تم کیا کرو گی ان کاغذات کا ...''ہمیں یہاں واپس نہیں آنا کبھی ....''
رہنے دو ...''رضا بولا ...
نہیں ....''آپ کاغذات ضرور لے کر جایئے ....''اور بھی جو نقدی زیور ہے سب
لے لیں ....''فراز نے پہلی بار مداخلت کی ...اور پھر وہ تینوں فرار ہو گے
...
زندگی کے اندھیروں کو دور کرنے
اور
اپنی دنیا کو روشن کرنے کے لئے
...............................................
شاہ زر مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی
ہے ...پارس مسکراتے ہوئے آفس میں داخل ہوئے ...
شاہ زر فائل پہ نگاہیں جماے بیٹھا تھا ...
پلیز ..''شاہ زر چھوڑو یہ سب ....''اور چلو میرے ساتھ .''
پارس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ...
یہ کیا بدتمیزی ہے پارس ...''شاہ زر فائل سے نظریں ہتا کر بولا ...اس کے
لہجے میں غصہ تھا ..
تمھیں دکھائی نہیں دے رہا ...''میں کتنا بزی ہوں ...''
پارس کے چہرے کی چمک ماند پر گئی ...
آنکھوں میں نمی اتر آئ ....
اوکے ...''ابھی مجھے کچھ کام ہے .....''جب فری ہو جاؤں تو بات کرنا
....''پارس کی آنکھوں میں اتری نمی کو دیکھ کر شاہ زر کے لہجے میں نرمی آ
گئی ....
آج وہ اس سے اپنے دل کی بات کرنے آئ تھی ....
ریڈ ٹائٹس پی بلیک کرتا پہنے وہ خصوسی طور پہ تیار ہوئی تھی ....
مگر
نجانے کیوں شاہ زر کبھی چونکا نہیں ....
کبھی حیران نہیں ہوا ...
کبھی اس کی تعریف نہیں کی ....
اب تک کے ساتھ میں پارس کی یہ ہی خواہش رہی کہ
شاہ زر اس سے محبّت کا اظہار کرے ...
اس بات سے انجان کے شاہ زر کو اس سے محبّت تھی کہ نہیں ...
پارس کا انتظار بڑھتا چلا گیا
مگر
اب یہ سب اس کی برداشت سے باہر تھا ...
اور تکلیف دہ بھی ...
پارس اب اپنی انا کو پاؤں تلے کچل کر اپنی محبّت حاصل کرنا چاہتی تھی ....
چاہے
اسے شاہ زر کے آگے جھکنا پڑے
اس سے اپنے پیار کی بھیک مانگنی پڑے
اسے پانے کے لئے اپنی انا کو ہارنا پڑے
تکلیف دہ تھا
شاید
بہت تکلیف دہ تھا
اس کے لئے اس کرب کو سہنا ...
مگر
اب وہ اس کشمکش
اس اذیت سے نکلنا چاہتی تھی
شام پانچ بجے تک وہ اس کا انتظار کرتی رہی ....
شاہ زر کے روم سے نکلتے وقت وہ کسی کی گھہری نگاہوں کی زد میں تھی ....وہ
خود اس بات سے انجان تھی ...اور اسے پروا بھی کب تھی
اسے پرواہ تھی تو صرف
اور صرف شاہ زر کی
اس نے اپنے سامنے دیوار پہ لگے کلاک پہ نظر ڈالی ...
سب سٹاف جا چکا تھا ...
چند ایک اوور ٹائم کے ممبر اپنے کام میں مصروف تھے ...پارس نے بھی بجھے
ہویے چہرے کے ساتھ واپسی کی راہ لی ....
اس کے قدم میں گیٹ کی طرف بڑھ رہے تھے ...
جب شاہ زر کی آواز نے اس کے قدم جکڑ دے ....
اور
اس کا بجھا ہوا چہرہ عجب روشنی سے چمک اٹھا ....
...........................................
مجھے اپنے قدموں میں رہنے دیں حسنہ باجی ....
وہ گرگڑا کر حسنہ کے قدموں میں گر پڑی ...اس کے پاس اس لمحے اور کوئی چارہ
بھی تو نہیں تھا
پلیز ....''پلیز ''...حسنہ باجی میں آپ کی خدمت کروں گی ...''
مجھے یہاں سے مت نکالیں ...''
اس گناہ کی دلدل میں مت بھجیں ....''
جہاں ہر طرف انسان درندوں کا روپ لئے
دوسرے انسانوں کو نوچ رہے ہیں ...''بہت مشکل سے خود کو زندگی کی طرف لائی
ہوں ...''
آپ اپنے ہاتھوں سے زندہ درگور کر دیں ...''آرزو تڑپ رہی تھی ...بہت دیر سے
رو رہی تھی ...آنسو اس کی آنکھوں سے پھسل کر اس کا دامن بھگو رہے تھے ...
مگر
اسے پرواہ ہی کب تھی
مجھے اپنی نوکرانی بنا لیں ..''
مجھے اپنی پناہ میں لے لیں ...''
ارے ...''تم نوکرانی نہیں مہرانی بنائی جاؤ گی ....''دیکھو ابھی تمھیں کسی
نے دیکھا بھی نہیں ....''اور تمھاری مانگ اس ملک کے بڑے بڑے کوٹھوں پہ بڑھ
گئی ہے ....''حسنہ اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لئے بولی ......
تو ..تو بہت خوش بخت ہے ....''جو تیرا اتنا ماوزا مل رہا ہے ....اور کیوں
نہ ملتا ....''
تو ...ہے بھی تو اتنی پیاری اور خوبصورت ....''
تجھے جب میں نے پہلی بار دیکھا تھا ....''تب ہی تیری اہمیت جان گئی تھی
...''
اب ہی تو محنت کا پھل وصول کرنے کا وقت آیا ہے ....''
مگر
آرزو سر جھکاے بے آواز روتی رہی ...
میں تجھ سے ملنے آتی رہوں گی ,,,''تو دل چھوٹا نہ کر ....''حسنہ نے آرزو کو
جھوٹی تسلی دینا چاہی ....
چل اٹھ ..''اب منہ دھو کر تیار ہو جا ...'
شام کو محفل ہے ...''
چمبیلی ....او چمبیلی ....''ادھر آ ....حسنہ نے اونچی آواز لگائی
اسے تیار کر دے ٹاپ سا ...''دیکھ کوئی کمی نہ رہے ...''
تو جانتی ہے نہ آج بولی لگنی ہے ...''
چمنبلی مسکراتے ہوئے ....آرزو کو کھنچ کر اپنے ساتھ لے گئی
.........................................
سلمان چھت پہ بنے کمرے میں ہی رہنے لگا تھا ...اس نے اپنی الگ دنیا بنا لی
تھی ...اب نہ وہ گھر سے باہر نکلتا ...نہ ہی کہیں آتا جاتا تھا ...
اس نے تو جسے گھہری چپ سادھ لی تھی ...
فرح کا غم اس کی رگوں میں گھل چکا تھا ...
اس کا بچھڑنا ...
اس کی بے وفائی ....
سلمان کو دن رات کچوکے لگاتے ....
اس نے ہار مان لی تھی ...
خود کو تنہا کر لیا تھا ....
وہ بان کی چارپائی پہ لٹا ہوا تھا ....
جب ایک گیند کمرے کے دروازے سے ٹکرائی ...سلمان چونک گیا ...ایک لڑکی کو اس
نے اپنی چھت کی دیوار پھلانگتے دیکھا ...وہ لڑکی زمین پہ ادھر ادھر گیند
ڈھونڈتے ہویے ...کمرے کے دروازے تک پہنچی ....
اس نے اندر جھانکا ...تو سلمان کو اپنی طرف دیکھتا پایا ...وہ گھبرا گئی
جاری ہے .... |