تصنیفی چوریاں

یوں تو عوام الناس نے مدارس وجامعات کے نظماء کا ڈکٹیٹرانہ رویہ دیکھا ہوگا۔ مختلف طرح کی نا انصافیاں برداشت کی ہونگی۔ کبھی تنخواہ کی کٹوتی میں۔ کبھی بچوں کی بیماریوں میں۔ کبھی بھائی بہن اور بیٹے بیٹیوں کی شادیوں میں کسی طرح کی غیر امدادی رویہ پر روئے ہونگے۔ یعنی کہ مختلف طرح کی اذیتیں برداشت کی ہونگی۔ عوام نے سنا اور دیکھا بھی ہوگا ۔ لیکن تصنیفی چوریاں ، تحریری بددیانتیاں کم ہی دیکھا ہوگااور سنا ہوگا۔ لیکن یہ بھی ایک ایسا میدان کارزار ہے جو بدامنی اور بے چینیوں سے بھر پور ہے۔ لوگوں کے دیکھتے دیکھتے ہر مہینے منظر عام پر آنے والی ضخیم کتابیں۔جامعہ وجامعات کے مکتب انتظامیہ طاقتوں کی کتابوں سے بھرپور ، لائبریریوں کی بوجھل ہوتے ہوئی الماریاں اس بات کا غماز ہے کہ دیکھا اور سوچا جائے کہ ہر مہینے اور ہر چھ مہینے پر منظر عام پر آنے والی تصنیفات یہ کس کاوش ومحنت کا نتیجہ ہے۔ کیا واقعی حضور عالی ایسی قابلیت کے حامل ہیں یا یہاں بھی مافیا کردار کام کر رہا ہے۔

ویسے ہمارے درمیان نہ کوئی کمیٹی ہے اور نہ ہی کسی کے کاموں کا جائزہ لینے والا کوئی گروہ۔ علماء میں دو طبقے ہیں یا تو کروڑ پتی ارب پتی یا سو سو روپئے کیلئے ترسنے والے معصوم بے چارے اساتذہ۔ جو ارب پتی ہیں ایک دوسرے کے میدان تجارت میں انگلی نہیں کرنا چاہتے ۔کیونکہ ہر کسی کی بوٹی کا راز ایک دوسرا جانتا ہے۔ اگر ڈسٹرب کیا تو خود بھی گھیرے میں آجائے گا۔ (اس لئے مل کر دفاع بھی کرتے ہیں اور کھاتے پیتے بھی ہیں۔ بقول مولانا کھاؤ پیو اور مست رہو)معصوم تین ہزار ر وپئے کی تنخواہ والا استاذ سب کچھ دیکھ رہا ہے لیکن کل اس کے پاس بچوں کو روٹی کھلانے کیلئے کچھ نہیں ہوگا اس لئے خاموش ہے۔نہ لکھ سکتا ہے اور نہ ہی بول سکتا ہے۔ بس دل ہی دل میں برا ماننے کا فریضہ انجام دئے جا رہا ہے۔
زیر نظر ایک کتاب کا ٹائٹل بھی تصنیفی چوری کے زمرے میں سے ایک ہے۔ کتاب پر الزام ہے کہ یہ کتاب غیر مطبوعہ شکل میں مولانا محترم جناب رئیس الاحرار ندوی صاحب کی ذاتی لائبریری سے چرائی گئی ایک کتاب ہے۔ مصنف نے کچھ ردوبدل کرکے اسے اپنے نام سے شائع کراکے میدان تصنیف کے شہہ سوار بن بیٹھے۔ کتاب کے الفاظ اور جملے بھی بتاتے ہیں کہ یہ الفاظ رئیس الاحرار صاحب کے ہیں، اور ان کی لائبریری میں غیر مطبوعہ کتابوں میں یہ کتاب بھی موجود دیکھی گئی تھی ۔ بعد میں اسے مصنف نے کے نام سے شائع ہونے پر وہی بات آئی کہ بولے کیوں۔ اس چوری کو انجام پانے میں ندوی صاحب کی جامعہ میں موت اور بعد میں ان کی ذاتی لائبریری کو چند سکوں کے ذریعہ خرید کرجامعہ کی لائبریری میں شامل کیا گیااور غیر مطبوعہ کتابوں کے ساتھ ایسا کچھ کیا گیا۔

ویسے تو ندوی صاحب کے غیر مطبوعہ دستاویزات میں سیکڑوں ایسی کتابیں تھیں جن کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔ لیکن مصنف نے اس کتاب کو اپنی جسامت کے اعتبار سے ناپا ، تولا ، پرکھا۔ اور شائع کرا لی ۔ یہ تک نہیں سوچا کہ آخر جس شخص کے ساتھ پہلے ہی نا انصافیاں کیں۔تل تل مرنے پر انہیں مجبور کیا۔ بڑھاپے میں کئی بار جامعہ سے نکل جانے کیلئے مجبور کیا گیا۔ محدث میں شائع ہونے والے درس قرآن کو چھین کرندوی صاحب کے بجائے اپنے نام سے شائع کرانے کیلئے مفسر قرآن ہونے کا چولا پہنا گیا ۔ جب کہ قاری دیکھ رہا ہے کہ ایک صفحہ کے مفسرانہ قابلیت میں ایک جملہ آیت ہوتی ہے ، دوسرا جملہ اس کا ترجمہ تیسرا جملہ کسی تفسیر کی کتاب سے اٹھایا ہوا تفسیر۔ اس تفسیر کو بھی اپنی زبان میں کرنے کیلئے ایک جملے میں درجنوں غلطیاں ۔ اگر اعتبار نہ آئے تو ’’حج مبرور ‘‘اور محدث کے درس قرآن کا کوئی بھی شمارہ اٹھا کر دیکھ لیا جائے۔

مذکورہ کتاب کے بارے میں مصنف نے جس طرح سے غلط کاری کی ہے اسی طرح سے اس کتاب کے تعلق سیکئی ایسے اقدامات بھی کئے ہیں جنہیں سن کر لوگ حیران رہ جاتے ہیں۔ 1۔ مصنف نے کتاب کے جملے تبدیل کرانے کیلئے اپنی حکومت کے تنخواہ دار کو مہینوں ذاتی سرقہ میں ہیر پھیر کیلئے مصروف رکھا۔2۔ جس بندے سے کتاب کی کمپوزنگ ، ایڈیٹنگ کرائی گئی اسے بات کو راز میں رکھنے کیلئے پیسے دینے کی بات کی گئی۔ بے چارے غریب کمپوزر نے دن رات ایک کرکے کام کو ختم کیا۔ جب حساب کتاب کی بات آئی تو یہ کہہ کر کچھ بھی ادا کرنے سے انکار کر دیا کہ تم تو پہلے سے ہی میری ریاست میں رہتے ہو ، کھاتے سوتے اور سانس لیتے ہو ، پیسے کیسے۔ (بھلا جو شخص حلال کی کمائی سے گھر بناتا ہے اسے گھر کی ایک ایک اینٹ سے محبت نہ ہوگی۔ مزدور کو دو روپئے بھی نہ دے گا)۔ 3 ۔ موصوف کو حدود حرم میں کتاب کے پرچار کرنے کے دوران یہ سننے کو ملا کہ حضور ’’یہ کتاب رئیس الاحرار ندوی صاحب کی غیر مطبوعہ کتاب تھی جسے آپ نے اپنے نام سے شائع کرا لیا ہے‘‘ تو مصنف صاحب بغیر کچھ بولے اور جواب دیئے وہاں سے چلتے بنے۔ آخر ناظم صاحب اتنی بڑی سرقہ کے بعد بولنے میں کیوں گناہ محسوس کرتے ہیں۔
 
دوستوں کے کسی بھی غلط کمینٹ سے بچنے اور خصوصا فتوے سے بچنے کیلئے میں نے کسی مقام ، جامعہ ، جمعیت وشخصیت کا نام نہیں لیا ہے۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ دنیا سے ختم ہو رہے قابل علماء کے ساتھ کیا یہی انصاف ہے کہ ان سے ان کی پوری زندگی میں کوئی خدمت نہ لیا جائے۔ قابل اساتذہ کو ان کی قابلیت کی وجہ سے ان کے ساتھ غیر رسمی رشتہ رکھا جائے۔ انہیں دوسرے درجے کا شخص مانتے ہوئے ان کی قابلیت اور تجربے سے فائدہ نہ اٹھایا جائے، ان سے علمی لام نہ لیا جائے۔ قابل اساتذہ کا بائیکاٹ کہاں کا انصاف ہے ۔اس کے باوجود اگر قابل اساتذہ نے کچھ تحریر کیا تو اسے منظر عام پر نہ لا کر دیمک کی خوراک بنا دیا جائے۔ اگر کسی استاذ نے کوئی قلمی صلاحیت کا ثبوت دیا تو اسے اپنے نام سے شائع کرا لیا جائے۔ دنیا کا اصول ہے کہ جب جب نالائق لوگ منصب پر فائز کر دئے جائیں گے تو لائق وفائق لوگوں کی قدریں ختم ہو جائیں گی اور ختم کر دی جائیں گی۔ 25-25سال تک کسی بھی طرح کے قوم میں حوصلہ افزا کام نہ کیا جانا اسی نالائقی کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ قابل اور تجربے کار اساتذہ کی تلاش کے بجائے چند ہزار کے اساتذہ کو مرکزی ادارہ میں رکھنا یہ قوم کے ساتھ کھلواڑ نہیں تو اور کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جماعت میں لوگ اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے دور کرنے لگے ہیں۔ کیونکہ چند گھڑیالوں کی وجہ سے عالموں کے درمیان دوریاں بنتی چلی جا رہی ہیں۔ واضح رہے کہ ڈکٹیٹرانہ صلاحیت کے ایسے نمونے سیکڑوں کی تعداد میں راز بنائے گئے ہیں جس کو جانتے تو بہت ہیں لیکن منظر عام پر لانے کیلئے یا تو روٹی چھن جائے گی یا پیروں کے نیچے سے زمین ہٹا دی جائے گی۔
Mutiur Rahman Aziz
About the Author: Mutiur Rahman Aziz Read More Articles by Mutiur Rahman Aziz: 7 Articles with 6020 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.