سیاسی نظام کے دایاں ہاتھ مقننہ اور بایاں
ہاتھ عدلیہ ہے انتظامیہ کی حیثیت پیروں کی سی ہے ۔ دماغ مطلق العنان ہے اس
کا کام اصول و ضوابط طے کرکے احکامات جاری کرنا ہے۔ قادر مطلق کے نمائندےکی
حیثیت سےمقننہ کا فرض منصبی اپنے آقا کے احکامات پر عملدارآمد کو سہل
بنانے کیلئے قوانین اور ضابطے وضع کرنا ہے ۔ انتظامیہ کی اولین ذمہ داری
قوانین کا نفاذ ہے۔ عدلیہ یہ دیکھتا ہے کہیں قانون کی خلاف ورزی تو نہیں
ہورہی ہےگویا ظلم واستحصال کو روککر عدل قائم کرنا اس کافرض عین
ہے۔انتظامیہ کی دوسری ذمہ داری عدلیہ کے فیصلوں کا نفاذ ہے اس طرح گویا ایک
پیر مقننہ کی خدمت کرتا ہے اور دوسرا عدلیہ کی خدمت میں لگا رہتا ہے۔ تمام
سیاسی نظاموں کے یہ مشترک اجزائے ترکیبی ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ اسلامی نظام
میں سر پر خدا کا سایہ ہوتا ہے ۔ جمہوریت میں سر پر عوام براجمان ہوتے ہیں
لیکن اگر دنیا کے کسی خطے میں سرمایہ دارانہ جمہوریت قائم ہوجائے تو سرمایہ
داروں کوعوام کے سر پر سوارکردیا جاتا ہے۔ آمریت میں اس مقام پر کوئی فوجی
اور ملوکیت میں بادشاہ مسلط ہوتا ہے۔
فی زمانہ ذرائع ابلاغ بھی سیاسی نظام جزولاینفک بن بیٹھا ہے۔ اس خود ساختہ
دعویدار کی حیثیت زبان کی سی ہے۔اس کا کام ویسےتو عوام کے مسائل کو
اجاگرکرنا اور حکمرانوں کی غلط کاریوں کے خلاف آواز اٹھانا ہے لیکن جب
مادہ پرستی کا بول بالا ہوگیا اور اس کی رال ٹپکنے لگی تو سرمایہ داروں نے
اسے خریدلیاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سیاسی نظام کےپیروں کی جوتی بن گیا ہے۔
اب تواس کی حیثیت دم کی سی ہوگئی ہے جو سرکار کے اشارے پر ہلتی رہتی ہے ۔
اس امر کےمظاہر اخبارات، رسائل اور ٹی وی چینلس پر موقع بہ موقع دیکھنے کو
ملتےرہتے ہیں۔ گزشتہ پارلیمانی انتخاب وہ پوری طرح بے نقاب ہوگیا اورجواہر
لال یونیورسٹی سانحہ کے بعد تو ضمیر فروشی میں حکومت سے بھی دو قدم آگے
نکل گیا۔ اس لئے امید کی آخری کرن عدلیہ ہےلیکن ان میں سرکار ی مداخلت
ہوتی رہتی ہے ۔ جب کوئی جج سرکار سے مرعوب نہیں ہوتا ہے تو انصاف ہوتا
ہےورنہ عدالت سے بھی عدل کے بجائے ناانصافی ہی ہاتھ آتی ہے اور سیاست سے
تو خیرخالی خولی نعروں کے علاوہ کچھ ہاتھ ہی نہیں آتا۔
قانونِ فطرت یہ ہے کہ اگر جسم کا ایک حصہ مفلوج ہوجائے تو اس کا کام کسی نہ
کسی حد تک دوسرا کرنے لگتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج کل مقننہ کیاپنی بنیادی
ذمہ داری سے غفلتکے سبب عدلیہ کو اپنے حدود سے نکل کر حکمرانی کے فرائض
انجام دینے کیلئے بھی مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ فلاح عام کے مسائل پر آئے دن
اس کی دلچسپی اور مداخلت دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ ابھی حال میں ۱۲ اپریل
۲۰۱۶ کو چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکرکی صدارت والے بہنچنے آربیآئی کی جانب
سےبڑے قرض چوروں کی فہرست پر وزارت خزانہ اور انڈین بینک ایسوسی ایشن کو
نوٹس جاری کرتے ہوئے پوچھا کہ قرض خواہوں سے وصولی کےلئےکیا قدم اٹھائے
جارہےہیں؟عدالت عظمی کا یہ تبصرہ ایک معاملے کی سماعت کے دوران کیا گیا، جس
میں اخبار کے اندر آرٹیآئی کےحوالےسےشائع ہونےوالی ایک خبر پر حکومت پر
انحصار کرنے کے بجائے ازخود اقدام کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔
اخبار کے مطابق۲۹سرکاری بینکوں نے۲۰۱۳سے۲۰۱۵کےدرمیانتقریبا۱۸ء۲لاکھ کروڑ
روپے کے قرض کےمعاف کردئیے۔ درخواست دہندہ نے آربیآئی سے ان کمپنیوں اور
افراد کی فہرست سونپے جانے کو کہا تھا، جن پر پبلک سیکٹر کے بینكوں
کا۵۰۰کروڑ روپے یا اس سے زیادہ کا قرض واجب الادا ہے۔ آربیآئی کو سپریم
کورٹ کی پھٹکارتے ہوئے کہا کہ معمولی قرض لینے والےغریب کسانوں پرتو سخت
کارروائی ہوتی ہے ۔ ان سے قرض وصول کرنے کیلئےکی زمین کو کرکی کرکے بیچ دیا
جاتا جبکہ ہزاروں کروڑ روپے قرض لینے والےلوگ اپنی کمپنیوں ک وديواليہ بتا
کر بیرون ملک عیش کرتے ہیں۔ عدالت نے آربیآئی کو سخت لہجے میں
ریگولیٹرکےطورپر اس کی یہ ذمہ داری یاد دلائی اوران معاملات پر کڑی نگاہ
رکھنے کی تلقین کی۔
دستور کی نظر میں ایک کسان اور ایک سرمایہ دار کے حقوق یکساں ہیں۔ ملک میں
بڑے سرمایہ داروں کی تعداد اس ایک سال میں ریاستِ مہاراشٹر کے اندر خودکشی
کرنے والے کسانوں سے بھی کم ہے۔حکومت سرمایہ داروں کے ووٹ سے نہیں بلکہ
کسانوں کی رائے سے بنتی ہے۔ملک میں چونکہ سرمایہ دارانہ جمہوریت غالب ہے اس
لئے حکومت مٹھی بھر سرمایہ داروں کا آلۂ کار بن کرغریب کسانوں اور
مزدوروں کا استحصال کررہی ہے ۔ اس مجبور اکثریت کے نمائندہ کی حیثیت سےعام
محنت کش عوام کے حقوق کاتحفظاس کا فرض منصبی ہے۔ کسانوں کے حوالے سپریم
کورٹ نے ایک سال کے اندر یہ دوسری مرتبہ اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ۳۱
اکتوبر ۲۰۱۵ کوعدالت عظمیٰ نے کہا تھا ’’خود کو کسان دوست کہنے والی مرکزی
سرکار کو کسانوں کی خودکشی کے معاملے سنجیدہ نہیں ہے۔ عدالت نے اس وقت
حکومت کی غفلت دور کرنے کی غرض بروقت حلف نامہ دائر نہ کرنے کے سبب ۲۵ ہزار
روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا تھا ۔
اس وقت عدالت کے سامنے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار تھے جس کے
مطابق ۲۰۱۴میں ۶ ہزار سے زیادہ کسانوں نے خود کشی کی تھی اور یہ سلسلہ
بدستور جاری تھا ۔ اس معاملے میں ۲۱اگست ۲۰۱۵ کو سپریم کورٹ نے مرکزی
حکومت کو ۴ ہفتوں کےاندر حلف نامہ داخل کرنے کا حکم دیا لیکن حکومت نے۲ ماہ
بعد بھی حلف نامہ جمع نہیں کیا جس پرسخت ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔ کورٹ نے
حکومت سے کااستفسار کیاکہ اس مقصد کیلئے قائم کردہ ایم ایس سوامی ناتھن
کمیٹی رپورٹ کے ۱۹۰ نکات پر اتفاق رائے کے باوجود اسے لاگو کرنے میں تاخیر
کیوں ہو رہی ہے؟کورٹ نے افسوس کے ساتھ کہا گوصورتحال نہایت سنگین ہے پھر
بھی سوامی ناتھن کمیٹی کی سفارشات کے نفاذ کی خاطر بنائے گئے حکومتی پینل
کی گزشتہ ۸ سالوں میں صرف۵ نشتیں ہوئی ہیں۔ جو حکومت سپریم کورٹ کی ہدایت
پر کاغذی کارروائی تک کرنے میں تاخیر کرتی ہو اس سے کسی ٹھوس اقدام کی توقع
کرنا بے سود ہے۔
دو ماہ قبل فروری میں سپریم کورٹ نے فوڈ سیکورٹی ایکٹ کو نافذ نہ کرنے پر
کچھ ریاستوں کو سخت پھٹکار لگائی تھی۔ عدالت نے سخت الفاظ میں سرزنش کرتے
ہوئےپوچھاتھاکہ پارلیمنٹ کی طرف سے منظور قانون کو آخر گجرات جیسی ریاست
کیوں نافذ نہیں کر رہی ہے؟ جسٹس مدن بی لوكر کی قیادت والی بنچ نے کہا تھا
آخر پارلیمنٹ کیا کر رہی ہے؟ کیا گجرات ہندوستان کا حصہ نہیں ہے؟ قانون
کہتا ہے کہ وہ پورے ہندوستان کے لئے ہے اور گجرات ہے کہ اس پر عمل نہیں کر
رہا ہے۔ کل کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ مجرمانہ ایکٹ اور تعزیرات ہند کو نافذ
نہیں کرے گا۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے ۱۰ فروری تک مرکزی حکومت کو خشک سالی
سے متاثرہ ریاستوں کی تفصیلی معلومات پیش کرنے کا حکم دیا تھا ۔ سپریم کورٹ
نے اپنے حکم میں ان ریاستوں میں چلائی جانے والی مختلف اسکیموں ، فوڈ
سیکورٹی ایکٹ اور مڈڈے میل کے متعلق حلف نامہ داخل کرنے کی ہدایت دی تھی۔
ملک کے اندر جب سے نئی سرکار قائم ہوئی ہے قحط سالی کا دور دورہ ہے۔
مہاراشٹر، کرناٹک، چھتیس گڑھ، راجستھان، آندھرا پردیش اور تلنگانہ سمیت نو
ریاستیں خشک سالی کی زد میں ہیں۔ کئی ریاستوں میں حالات اتنے بدتر ہو گئے
ہیں کہ لوگ پینے کے پانی کی خاطر نقل مکانی پر مجبور ہیں ۔ ایسے میں
یوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن نےمفاد عامہ کی عرضی داخل کرکےمطالبہ کرنا
پڑاکہ وہ خشک سالی سے متاثرہ ریاستوں کی عوام کو غذائی تحفظ قانون کے تحت
اناج فراہم کرنے کی خاطر مرکزی حکومت ہدایت جاری کرے ۔ ان کیغیر سرکاری
تنظیم”سوراج ابھیان” نےراحت اور بازآبادکاری کے دیگر اقدامات کے لئے
بھیعدالت سے درخواست کی کہ وہ مرکز کو حکمنامہ جاری کرے۔ سوال یہ پیدا ہوتا
ہے کہ ایک این جی او پر عوامی فلاح بہبود کےمعاملے میں براہ راست حکومت سے
رجوع کرنے کے بجائے عدالت کے دروازے پر دستک دینے کی مجبوری کیوں آن پڑی؟
اس سوال کا سیدھا جواب یہ ہے کہ اس قومی مسئلہ کی جانب نہ تو ریاستی
حکومتیں توجہ دیتی ہیں اور مرکزی حکومت سنجیدگی اختیار کرتی ہے۔ مرکزی
حکومت کا موقف یہ ہے اس کی ذمہ داری صرف وسائل فراہم کردینے اور ہدایات
جاری کردینے تک محدود ہے اس پر عملدرآمد ریاستی سرکار کا کام ہے۔ عدالت اس
سے اتفاق نہیں کرتی اس کا کہنا ہے کہ ملک کے نو ریاست خشک سالی سے متاثر
ہیں اس لئے مرکزی حکومت اپنی آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی ۔ اس سنگین صورتحال
سے نمٹنے کے لئے مرکزی حکومت کوضروری اقدام کرنے پڑیں گے ۔ سرکار کی بے حسی
کے پیش نظرعدالت نے مرکز کو ایک دن کے اندر حلف نامہ داخل کرکے یہ بتانے کی
ہدایت دی کہ مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی قانون (منریگا) خشک
سالی سے متاثرہ ریاستوں میں کس طرح لاگو کیا جا رہا ہے؟ عدالت عظمی نے
حکومت سے یہ بھی جاننا چاہا کہ ان ریاستوں میں مالیات کی فراہمی کیسے ہو
رہی ہے ؟
سپریم کورٹ کی اس پھٹکار کا بھی مرکزی حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔دوسرے دن
سماعت میں اس کا وکیل تقریباً ۱۵منٹ دیر پہنچا۔ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے
انتظار میں خفا ہوکر ججوں نے ناراضگی جتاتے ہوئے کہاکہ اس اہم مسئلے پر بھی
خاطر خواہ سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی ۔کیا یہ آپ کی ترجیح نہیں ہے؟کیا ہم
لاوارث لوگ ہیں؟ ہم یوں ہی خالی بیٹھےر ہیں۔کیا آپ ہم سے یہ توقع کرتے ہیں
کہ ہم کچھ نہ کریں، ٹائم کاٹتے ہوئے ہوئے صرف گھڑی کو دیکھتے رہیں؟ اس کے
بعد جو حلف نامہ داخل کیا گیااس کے مطابق مرکزی حکومت نے وعدہ کیا کہ وہ
ایک ہفتے کے اندر منریگا کے تحت ریاستی حکومتوں کو ۱۱۰۳۰کروڑ دے گی۔ عدالت
کے دباو میں حکومت کی جانب سے اس خطیر رقم کی فراہمی اس بات کا ثبوت ہے
غریب مزدوروں کے اس حق پرسرکار سانپ بن کر بیٹھی ہوئی تھی ۔ اس ناگ دیوتا
کو وہاں ہٹانے کی خاطر ہی سوراج ابھیان والوں کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا
نا پڑا تھا۔ اگر وہ براہ راست سرکار کے بل میں جاتے تو وہ اژدہا انہیں بھی
نگل جاتا۔
عدالت عظمیٰ نے جو وضاحت طلب کی تھی اس کے جواب میں حلف نامہ کے اندر درج
تھا کہ ۲۰۱۴۔۱۵میں منریگا کے تحت کام کرنے والوں میں سے صرف ۲۷ فیصد کو ان
کا محنتانہ ادا کیا گیایعنی ۷۳ فیصد لوگ اپنی شدید ترین مجبوری کےعالم میں
اس مددسے محروم رہے۔ منریگا پر سیاست تو خوب ہوئی پہلے تو گزشتہ حکومت کی
ناکامی قرار دے کر اس کا مذاق اڑایا گیا پھر ناکامی کی یادگارکے طور پر
جاری رکھنے کا عزم کیا ۔ منریگا کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ اس کے تحت مزدور
کو اسی شام مزدوری چکا ئی جاتی تھی لیکن نئی سرکار کے بعد یہ حالت ہوگئی کہ
مزدور کو ۳ ماہ تک انتظار کرنا پڑتا تھا ۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ کوئی مزدور بھلا اس اسکیم میں کام ہی کیوں کرے؟ اور اپنی مزدوری پانے تک
زندہ کیسے رہے؟دوسرے سال یعنی ۲۰۱۵ ۔۱۶ میں قدرے بہتری آئی اس کے باوجود
صرف ۴۵ فیصد کو ان کی مزدوری وقت پر ملی ۵۵ فیصد پھر بھی محروم ہی رہے۔
دیہی ترقیات کےمرکزی وزیربریندرسنگھ نے کو ضاحت کی کہ مہاتما گاندھی دیہی
روزگار گارنٹی ایکٹ کے نفاذ کے سلسلے میں ریاستوں کو ۱۲۲۳۰کروڑ روپےجاری
کئے گئےہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس رقم کے اجراء سے ریاستوں کی
زیرالتواء اجرت کی ذمہ داری کو نمٹایا جائے گا اور نئے مالی سال کےدوران
ریاستوں کو مدد ملے گی۔ حلف نامہ کے مطابق ۷۹۸۳کروڑ روپے کی رقم ریاستوں کے
بقایا جات کی ہے اور۲۷۲۳کروڑ روپے خشک سالی کا شکار ریاستوں میں منریگا کے
تحت کام کرنے والے مزدوروں کیلئے ہے تاکہ انہیں مزید۵۰دن کاروزگار مل
سکے۔عدالت نے وعدوں پر طنز کستے ہوئے کہا کہ نئی مزدوری کے خواب چھوڑئیے
اورپہلے پرانی ادائیگی کیجئے۔ کیا آپ چاہتے ہیں دیگر ریاستوں کے مزدور اس
بات کا انتظار کریں کہ جب اس کی ریاست کو قحط زدہ نامزد کیا جائے تواس کے
بعد وہ اضافی مزدوری کیلئے آپ کے پاس آئے۔
عوامی مسائل کے تئیں حکومت کی بے حسی کے ایک علامت مہاراشٹر میں آئی پی
ایل کے کھیلوں کا انعقاد بھی ہے۔گزشتہ ہفتےمہاراشٹر میں آئی پی ایل کی
میزبانی کے خلاف ایک غیرسرکاری تنظیم 'لوک ستہ موومنٹ' کی داخل کردہ مفاد
عامہ کی عرضیکی سماعت کے دوران ممبئی ہائی کورٹ نے مہاراشٹر کرکٹ اسوسی
ایشن (ایم سی اے) کی سرزنش کی اور بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ اِن انڈیا (بی
سی سی آئی) سے کہا کہ ریاست کے قحط زدہ علاقوں سے انڈین پریمیر لیگ (آئی پی
ایل) میچز کو منتقل کردیں۔ ہائی کورٹ نے ایم سی اے سے کہہ دیا کہ پانی کی
حفاظت ٹورنامنٹ کے انعقاد سے کہیں زیادہ اہم ہے، بالخصوص ایسے وقت میں جب
ریاست پانی کی شدید قلت سے دوچار ہے۔ آپ لوگ اس طرح پانی کیوں کر ضائع
کرسکتے ہو۔ عوام زیادہ اہم ہیں یا آپ کے آئی پی ایل میچز؟ آپ اس قدر بے
پروا کیسے ہوسکتے ہو؟'' یہ دراصل حکومت کے کرنے کا کام ہے لیکن چونکہ وہ
اپنی ذمہ داری سے گریز کررہی اس لئے مجبوراً عدالت کو میدانِ عمل میں آنا
پڑ رہا ہے۔
اس موقع پرسوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت یہ سب نہیں کررہی ہے تو کرکیا
رہی ہے؟ اس بابت چند ماہ قبل مہاراشٹر کی ریاستی حکومت پر یہ سنگین الزام
لگا تھا کہ اس نے ودربھ کےکسانوں کی فلاح بہبود پر مختص رقم کا کچھ حصہ
کوریا کے رقاصوں پر خرچ کردیا ۔ اس سال مہاراشٹر کے ۳۲۰۰ سے زیادہ کسان
خودکشی کر چکے ہیں جو پچھلے ۱۴ سالوں میں سب سے زیادہ ہے اس کے باوجود
وزیراعلیٰ کو کسانوں کے مسائل حل کرنے کے بجائے’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ کا
نعرہ لگا رہے ہیں اور اعلان عوام کو فریب دینے کیلئےفرمارہے ہیں کہ اگر
مجھے وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا تب بھی میں باز نہیں آوں گا ۔
دیویندر فردنویس کی اس حماقت خیز سیاست کا سب سے اچھا جواب کٹر قوم پرست
پارٹی اور بی جے پی کی حلیف شیوسینا کے رہنما ادھو ٹھاکرے نے دیا ۔ اپنے
اخبار سامان کے اداریہ میں انہوں نے لکھا کہ فی الحال بھارت ماتا کی جئے پر
سیاست زوروں پر ہے۔مجھے زیادہ خوشی ہوتی اگر فردنویس کہتے کہ وہ مہاراشٹر
کے ہر گھر میں پانی پہنچائیں گے یا مستعفی ہوجائیں گے۔
ادھو ٹھاکرے نے کہا نعرہ لگانے کیلئےانسان کا زندہ رہنا ضروری ہے۔ بھارت
ماتا کے بیٹے پانی کو ترس رہے ہیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہورہے ہیں
۔ انہوں نے یاددلایا کہ نوجوان ناانصافی کے خلاف اسلحہ اٹھا کر نکسلوادی بن
جاتے ہیں ۔ کیا مراٹھواڑہ کے نوجوانوں کو ایک گھونٹ پانی کیلئے دہشت گرد بن
جانا پڑے گا؟اگر ایسا ہوگیا تو بھارت ماتا کا نعرہ بے معنیٰ ہوجائیگا۔ اگر
بھارت کے لوگ خوش نہ ہوں گے تو بھارت ماتا کبھی بھی خوش نہیں ہوسکتی۔ بھارت
ماتا کی جئے دراصل عوام کی جئے ہےلیکن عوام کے پاس پینے کیلئے پانی نہیں
ہے۔ مویشی مررہے ہیں اور کھیت قبرستان بنتے جارہے ہیں ۔ انہوں نے کہا یہ
بھارت ماتا کے خوابوں کا مہاراشٹر نہیں ہے وزیراعلیٰ (میدان چھوڑ کر بھاگنے
کے بجائے ) اپنی کرسی پر براجمان رہئے مگر ہر گھر میں پانی پہنچائیے۔ کیا
ادھو ٹھاکرے نہیں جانتے کہ جب حکومتیں اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہو
جاتی ہیں تو اس طرح کے گمراہ کن نعرے لگاتی ہیں۔
اس موقع پر ڈیڑھ سال قبل ۱۰ اکتوبر ۲۰۱۴ کے دن دیا جانے والا سپریم کورٹ
کا تبصرہ یاد آتا ہے جبکہ اس نے نئی نویلی مرکزی حکومت کی لاپرواہی سے
ناراض ہوکر بے حد تلخ لہجے میں سرکارکو رامائن میں روان کے بھائی كمبھكرن
اور۱۹ ویں صدی میں لکھی گئی ارون واشنگٹن کی مشہور کہانی رپ وین ونکل کے
کام چور کردارسے تشبیہ دی تھی ۔ ماحولیاتی معاملات میں لاپرواہیوں سے ناراض
سپریم کورٹ کی بنچ کے جسٹس دیپک مشرا اور آرایف نریمن وزارت ماحولیات پرجم
کر برسے تھے۔ عدالتِ عالیہ نے کہا تھا ’’مرکزی حکومت كمبھ كرن کی نیند میں
سوئی ہوئی ہے اور رِپ وین ونکل کا طر زعمل اختیار کئے ہوئے ہے ‘‘۔اتراکھنڈ
کی الکنندہ اور بھگیرتھی ندیوں پر ۲۴ پن بجلی گھروں کی تعمیر کا معاملہ زیر
سماعت تھا ۔عدالت نے کہا تھا کہ ہمیں بجلی کی ضرورت ہے لیکن اس کا
ماحولیاتی عناصر یعنی مچھلیوں اور دیگر آبی مخلوقات کے ساتھ توازن قائم
ہونا لازمی ہے۔
عدالت نے مذکورہ تعمیراتی منصوبےپر روک لگا کر ایک ۱۳ رکنی تکنیکی ماہرین
کی کمیٹی تشکیل دی اور حکومت کو دو ماہ کے اندر رپورٹ جمع کرنے کی تلقین کی
لیکن حکومت حسب روایت مذکورہ رپورٹ جمع کرنے میں ناکام رہی۔ اس کمیٹی میں
دو سرکاری افسران سمیت باقی ۱۱ ارکان کی متفقہ رائے تھی کہ یہ منصوبہ ناقص
اور نقصان دہ ہے۔ سرکاری ادارہ این ٹی پی سی نقشہ بدلنے کیلئے تیار تھا اس
کے باوجود حکومت ۳ ماہ تک اپنی رپورٹ مرتب کرکے کوئی فیصلہ نہ کرسکی اور
یومیہ ۹ کروڈ کے حساب سے امبانی کی ایل اینڈ ٹی کو بغیر کسی کام کے ادائیگی
کرتی رہی ہے۔ اس موقع پر جج صاحبان نے اعتراف کیا تھا کہ یہ معاملات حکومت
کی دائرۂ کار میں آتے ہیں اور عدالت اس ناپسندیدہ مداخلت سے خوش نہیں ہے۔
اس یادگارفیصلے میں عدالت عالیہ نے راون کے بھائی کمبھ کرن کاذکر کیا تھا
جو کم ازکم ۶ ماہ سونے بعد جاگ جاتا تھا لیکن یہ حکومت نے اپنے دوسال مکمل
کرنے جارہی۔عدالت کی تمام تر کوشش کے باوجودہنوز خواب غفلت میں پڑی ہوئی
اورلگتا ہے شاید آئندہ انتخابی نتائج ہی اسے نیند سے بیدار کریں گے۔ سپریم
کورٹ نے حکومت کا موازنہ ۱۹ ویں صدی کی جس لازوال کہانی کے كاہل اور نااہل
کردار رِپ وان ونكل سے بھی کیا تھا۔ موجودہ حکومت تو گویا اس کاپونر جنم
ہے۔ رِپ وین ونکل خواب آور کہانیاں سنا نے کے سبب بچوں میں بہت مقبول تھا
لیکن چونکہ اپنے کھیت اور گھر کی دیکھ ریکھ پر توجہ نہیں دیتا تھا اس لئے
بیوی کی لعنت ملامت کا شکار رہتا تھا۔
ایک دن اس مصیبت سے بچنے کیلئے وہ دو رپہاڑوں پر چلا گیا جیسا کہ آج کل
ہمارے سیاسی رہنما غیر ملکی دوروں پر نکل جاتے ہیں۔اور وہاں اس نے ایک بزرگ
کو دیکھا جو موسیقی بجا رہے تھے۔ وہ اس میں کھو گیا اور سوگیا ۔ رپ وین جب
نیند سے بیدار ہوا تو اس کی داڑھی کئی فٹ طویل ہو چکی تھی۔ وہ جب واپس اپنے
گھر آیا تو اس کے سارے ہمعصر دنیا سے کوچ کرچکے تھے۔ اس کا نوازئیدہ بیٹا
ادھیڑہوچکا تھا اور امریکہ کے اندر انقلاب برپا ہوچکا تھا کنگ جارج ۳ کے
بجائے جارج واشنگٹن اقتدار پر فائز ہو چکے ہیں۔ ویسے تو سپریم کورٹ نے
’’ہونہار بروان کے چکنے چکنےپات‘‘ دیکھ کر عصر حاضر کےونکل کی نشاندہی ڈیڑھ
سال پہلے ہی کردی تھی لیکن اگر وہ ایسا نہ بھی کرتا تب بھی وقت کے ساتھ ملک
کے باشعور عوام اس کو پہچان جاتے کہ وہ کون پائیڈ پائیپر ہے جو اپنی جادوئی
شہنائی کے سحر میں گرفتارکرکے اپنے وفادارچوہوں کو تباہی کے دہانے پر لئے
جارہا ہے؟ |