بدی کا بیج ضرور تناور درخت بنتا ہے ۔۔۔
(Usman Ahsan, Gujranwala)
قدرت کا اصول ہے کہ ہر راز کسی نہ کسی وقت ظاہر ہوکررہتا ہے ، اس لئیے بدی کا بیج نہ بو کیونکہ وہ ضرور اگے گا اور تن آور درخت بنے گا ۔ |
|
|
پانامہ پیپرز نے دنیا میں تہلکہ
مچا دیا ، مہذب دنیا کے کچھ صاحب اقتدار لیڈر استعفے دیکر گھروں کو چلے گئے
باقی اپنے ٹیکس گوشوارے منظر عام پر لے آئے اپنی دولت اور اثاثوں کو اپنی
اپنی قوم کے سامنے کھول کر رکھ دیا ۔ ہمارے ہاں نہ کچھ ہونا تھا نہ ہی ہوا
اور نہ ہوگا ۔ اسکی وجہ ہے اس معاشرے میں کبھی بڑی تبدیلی نہیں آسکتی جہاں
کا دانشور کرپٹ ہوجائے ، یہ جملہ متعدد بار لکھ چکا ہوں اور آئندہ بھی
لکھتا رہوں گا ۔ ہمارے ہاں میڈیا کی نام نہاد آذادی نے جہاں غریب کی غربت
کو نیلام کیا ہے وہیں نام نہاد دانشوروں کو ککھ پتی سے کروڑ پتی بنا دیا ہے
۔ دنیا نے پانامہ لیکس کو انتہائی سریس لیا ہے اور ان پیپرز کی روشنی میں
برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں قانون سازی ہونے جارہی ہے ۔ ہمارے ہاں پانامہ
لیکس پر بھی میڈیا روٹیاں سینک رہا ہے اور تب تک مال بناتا رہے گا جب تک
ریٹنگ کا میٹر چل رہا ہے اور یاں کوئی نیا ایشو میسر نہیں آجاتا ۔ چھوٹو
گینگ کے خلاف آپریشن کا ایشو ہاتھ تو لگا مگر اس پر زیادہ رپورٹنگ کی نہیں
جاسکتی ۔ Honore de Balzac نے کہا تھا کہ
Behind every great fortune lies a great crime
ہر بڑی خوش قسمتی کے پیچھے بڑا جرم ہوتا ہے یا یوں سمجھ لیجئیے کہ بے تحاشہ
مال دولت کے پیچھے بڑا جرم کارفرما ہوتا ہے ۔ حسین نواز نے یہ تو بتایا کہ
الحمد اللہ آف شور کمپنیاں اس خادم کی یعنی میری ہیں مگر قوم کے خادم
خاندان کے اس خادم چشم و چراغ نے یہ نہیں بتایا کہ اس بے پناہ دولت کے
پیچھے کونسا جرم کارفرما ہے ۔ ثبوت ثبوت کی رٹ لگانے والو تم صرف اک نظر اس
قوم کی حالت پر ڈال کر تو دیکھو جس پر یہ دہائیوں سے حکومت کررہے ہیں تمھیں
کسی ثبوت کی ضرورت نہیں پڑے گی اس مردہ قوم کے روں روں سے تمھیں صدا آئے گی
کہ اسکے ساتھ دہائیوں سے یہ چند خاندان واردات کررہے ہیں ۔ قوم بھوک ننگ و
افلاس کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے اور انکی دولت الحمد اللہ روز ضربیں کھا
رہی ہے اور پھر بھی ستم بالائے ستم حامد میر اور نجم سیٹھی جیسے دانشور
پانامہ لیکس کے پیچھے بھی انٹرنیشنل سازش تلاش کررہے ہیں ۔ میرا سوال ہے ان
نیم دانشوروں سے کہ دنیا کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ ان بونوں کے خلاف سازش
کرتی پھرے انکی اوقات ہی کیا ہے انٹرنیشنل لیڈران کے سامنے ۔ سازش تب ہوتی
جب اس میں حقیقت نہ ہوتی الزام تب ہوتا جب ثبوت ساتھ منسلک نہ ہوتے جب ثبوت
آ گئے اور اقرارنامہ بھی آگیا کہ الحمداللہ یہ کمپنیاں میری ہیں تو یہ اب
ملزم سے مجرم کا سفر طے کرچکے ہیں - میرے ملک کا وزیر خزانہ پانامہ کے وزیر
کو التجا کرتا ہے کہ مذید انکشافات روکو پھر بھی ثبوت مانگتے تمھیں شرم
نہیں آتی ۔ مجھے سو فیصد یقین ہے پوری دنیا میں پانامہ پیپرز کے اثرات مرتب
ہوں گے مگر پاکستان میں کچھ نہیں ہوگا مذید دو ہفتے لگیں گے سب اپنا حصہ
باقدر جثہ لیکر بی جمہوریت کی خاطر پرسکون ہو جائیں گے ۔ مجھے کیوں پختہ
یقین ہے کہ کوئی ایکشن نہیں ہوگا اسکی تین وجوہات ہیں ۔ پہلی وجہ اکثریتی
میڈیا فکس ہے شرفاء میڈیا کو مینیج کرنا باخوبی جانتے ہیں یہ جو روز آپ
پروگرام دیکھتے ہیں سب فکس اور نورا کشتی ہے ۔ دوسری وجہ میرے ملک کا قانون
مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں مکھی مچھر اور چھوٹے حشرات الارض تو پھنس جاتے
ہیں مگر بڑے جانور توڑ کر نکل جاتے ہیں ۔ یہ قانون سائکل چور اور دھنیا چور
کو تو پکڑتا ہے مگر اربوں کھربوں لوٹنے والوں کو سیلوٹ کرتا ہے - شراب کی
بوتل پر سوموٹو ایکشن لینے والی سب سے بڑی عدالت کے بڑے جج صاحب نے فرمایا
کہ پانامہ لیکس پر ایکشن لینا ہمارے اختیار میں نہیں ۔ تیسری وجہ عوام کی
بے حسی و بے شرمی ہے یہ اپنے جیسے غریب کو ووٹ دینا باعث شرم سمجھتے ہیں یہ
عوام چاہتی ہے ان پر لٹیرے حکمرآنی کریں ۔ چاہئیے تو یہ تھا کہ ن لیگی اپنے
لیڈران کے محلات کا گھراؤ کرتے اور ان سے پوچھتے کہ جن پارک لین اپارٹمنٹس
کا ساری زندگی تم انکار کرتے رہے آج اقرار کیسے کرلیا ؟ اگر اقرار کر ہی
چکے تو اب یہ بتاؤ کہ یہ دولت آئی کہاں سے ۔ ؟
نہ ادھر ادھر کی تو بات کر مجھے یہ بتلا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری راہبری کا سوال ہے -
مگر نون لیگی اپنے لیڈران کا گریبان پکڑ کر سوال کرنے کی بجائے عمرآن خان
کے سامنے احتجاج کررہے ہیں اور گو عمرآن گو کے نعرے لگا رہے ہیں ۔ جس
معاشرے میں اسطرح کی اندھی عقیدت ہو اور ایسی اخلاقی گراوٹ ہو وہاں حالات
نہیں بدلا کرتے ۔ قدرت نے اپنا کام کردیا ہمیں موقع فراہم کردیا انکے چہروں
سے پردہ نوچ کر انکے راز افشاء کرکے مگر ہم اپنے حصے کا کام کرنے کو تیار
نہیں ۔ قدرت کا اصول ہے کہ ہر راز کسی نہ کسی وقت ظاہر ہوکررہتا ہے ، اس
لئیے بدی کا بیج نہ بو کیونکہ وہ ضرور اگے گا اور تن آور درخت بنے گا ۔
شرفاء نے آف شور کمپنیوں میں مال چھپا کر سمجھا کہ یہ اب سات پردوں میں
پوشیدہ ہے مگر اس راز کو ظاہر ہونا تھا ہوگیا ۔ کاش اب میری قوم کی عقلوں
پر پڑے پردوں کے ہٹنے کا بھی کوئی انتظام ہوجائے ۔ |
|