جب سے بھارتی ایجنٹ ’’ کل بھوشن
یادیو ‘‘ کو پاکستانی سیکورٹی ایجنسیوں نے گرفتار کیا ہے اس دن عوام الناس
، سوشل میڈیا ، پرنٹ میڈیا اور الیکیٹرانک میڈیا پر اس کا تذکرہ ہوتا تھا
اور اس بارے خبریں، مذاکرے، تجزیئے اور مختلف پروگرام دیکھنے اور سننے کا
مل رہے تھے لیکن حکومت پاکستان کی پراسرار خاموشی اور حکمت عملی سے ہر محب
وطن شہری تذبذب اور پریشانی کا شکار ہے۔ سیکورٹی اداروں اور افواج پاکستان
کی حکمت عملی اور اقدامات کے قطع نظر حکومت پاکستان نے بھارتی ایجنٹ ’’
کلبھوشن یاد یو ‘‘ کی گرفتاری پر کوئی واضح حکمت عملی اختیار نہیں کی
حالانکہ چاہیئے تو یہ تھا کہ حکومت پاکستان کو بھارت کا مکروہ چہرہ پوری
دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کے لئے سفارتی حکمت عملی اختیار کرتی اور بھارت
جو پوری دنیا میں اپنے آپ کو پر امن ملک، جمہوریت کا علمبردار اور دہشت
گردوں کو سب سے بڑا مخالف ثابت کرتا ہے اس کی اصل حقیقت دنیا کے سامنے آ
جاتی۔ لیکن بھارت کے ساتھ سیاسی ، معاشی اور ذاتی تعلقات کے خواہشمند
سیاستدانوں کو نہ عوامی جذبات کاخیال ہے اور نہ ہی ملک و قوم کے مفادات کی
کوئی پرواہ ہے اس لئے وہ اس معاملے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں حالانکہ
بھارت پاکستان کو دنیا میں بدنام کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے
دیتا اور چھوٹے سے چھوٹے معاملے کو بھی اتنا اچھالتا ہے اور دنیا کے سامنے
اس طرح پیش کرتا ہے کہ پوری دنیا میں دہشت گردی کرانے کا ذمہ دار پاکستان
ہے اور دنیا کے امن و امان کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے حتی کہ خود ساختہ حملے
کراکر بھی وہ یہ سب ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے-
لیکن حکومتی سیاستدانوں کی پر اسرار خاموشی کے باوجود بھی سب سے زیادہ
کوریج دینے والا نکتہ بنا ہوا تھا کہ اچانک ’’ پانامہ لیکس ‘‘ کا معاملہ
سامنے آگیا اور عوام الناس ، سوشل میڈیا ، پرنٹ میڈیا اور الیکیٹرانک میڈیا
کا مرکزی اور سب سے زیادہ اہم نکتہ بن گیا دوسرے تمام امور اور معا ملات
ثانوی حیثیت اختیار کر گئے جس میں ’’ کل بھوشن یادیو ‘‘ کا معا ملہ بھی دب
گیا ہے۔ کہیں پانامہ لیکس کا معاملہ ’’ کل بھوشن یادیو ‘‘ کے معاملے کو
دبانے کے لئے تو نہیں اٹھایا گیا اس کو کچھ عرصہ پہلے (کلبھوشن یاد یو کی
گرفتاری سے قبل)بھی سامنے لایا جا سکتا تھا یا کچھ عرصے بعد مزید تحقیقات
اور تحریری ثبوتوں کے ساتھ مکمل تفصیلات سے پیش کیا جا سکتاتھا تا کہ جو
الزامات اور حقائق پانامہ لیکس میں بیان کئے گئے ہیں ان کو جھٹلانا آسان نہ
ہوتا جس طرح کچھ ممالک کے وزیر اعظم نے استعفی دے دیا اسی طرح پاکستان کے
وزیر اعظم کو بھی اپنے آپ کو بے قصور اور بے گناہ ثابت کرنے کا موقع نہ
ملتا اور میاں نواز شریف، ان کے خاندان والے اور ان کے حکومتی نمائندے ہر
روز ان کو بے گناہ اور بے قصور ثابت کرنے کی نت نئی تاویلیں پیش کر رہے ہیں
ان کے پاس یہ سب کرنے کا جواز نہ ہوتا۔ ایسا تب ہوتا جب ان حقائق کے بارے
وہ تمام ثبوت اور دستاویزات اکٹھی کرتے جن کا تعلق نواز شریف اور ان کے
خاندان اور انکی سیاسی زندگی سے تھا یعنی ان کے تمام اکاؤنٹس اور پراپرٹی
کی تمام تفصیلات جو انہوں نے دی ہیں اس بارے تمام حقائق بھی اکٹھے کرتے کہ
کب لی گئیں، کیسے لی گئیں، کس سے لی گئیں اور کس طرح لی گئیں۔ لیکن شاید
ایسا سب کچھ کرتے کرتے بہت دیر ہو جاتی اور بھارتی ایجنٹ ’’ کلبھوشن یاد یو
‘‘ کا معاملہ اس حد تک بڑھ جاتا کہ اس پر حکومت کو بھی ایکشن لینا پڑ جاتا
اور دنیا میں اس کو رد کرنا مشکل ہوجاتا اور بھارت کو مکروہ چہرہ دنیا کے
سامنے نمایاں ہو جاتا اس لئے ’’ پانامہ لیکس ‘‘ کا ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا
تاکہ بھارتی ایجنٹ ’’ کلبھوشن یاد یو ‘‘ کا معاملہ دبایا جا سکے اور اپنے
اسی مقصد میں انہیں بہت حد تک کامیابی بھی مل چکی ہے کیونکہ اب حکومتی
خاموشی کی طرح عوام الناس ، سوشل میڈیا ، پرنٹ میڈیا اور الیکیٹرانک میڈیا
بھی اس معاملے میں خاموش ہو گئے ہیں اور پانامہ لیکس کے پیچھے لگ گئے ہیں
اور سب سے زیادہ کوریج دینے والا واقعہ بن گیا ہے اب کسی ٹی وی چینل، اخبار
یا سوشل میڈیا پر بھارتی ایجنٹ ’’ کلبھوشن یاد یو ‘‘ کا تذکرہ نہیں مل رہا
ہے جو پانامہ لیکس سے قبل دیکھنے اور سننے کو ملتا تھا ۔ بلا شبہ پانامہ
لیکس کا معاملہ بھی اپنی جگہ اہم ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ اہم معاملہ ’ کل
بھوشن یادیو ‘‘ کا ہے جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے اور اس پر نظر رکھنی
چاہئے کیونکہ بھارتی ایجنٹ ’’ کلبھوشن یاد یو ‘‘ کا معاملہ پاکستان کی بقا
ء اور سلامتی کا مسئلہ ہے جب کہ پانامہ لیکس کا مسئلہ پاکستان کی معاشی اور
سیاسی پہلوؤں کے بارے میں ہے جب کسی ملک کی سلامتی اور بقا ء کا مسئلہ
درپیش ہو تو دوسرے مسئلے ثانوی حیثیت اخیتار کر جاتے ہیں اس لئے بھارتی
ایجنٹ ’’ کلبھوشن یاد یو ‘‘ کا مسئلہ بنیادی اور زیادہ اہمیت کا حامل ہے
اور اسی پر زیادہ توجہ دینی چاہیئے اور پانامہ لیکس کا مسئلہ ثانوی ہے اس
پر توجہ دی جائے لیکن بھارتی ایجنٹ ’’ کلبھوشن یاد یو ‘‘ کے معاملے سے
زیادہ نہ دی جائے۔ حکومت کو چاہیئے کہ سفارتی حکمت عملی اپنا کر بھارت کا
مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے لایا جائے ورنہ پانامہ لیکس میں الجھ کر کہیں
بھارت اس معاملے سے صاف صاف نکل نہ جائے اور اس کا مکروہ چہرہ دنیا سے چھپا
ہی رہ جائے گا۔۔ حکومت پاکستان کے پاس بھی اب دنیا کے سامنے بھارت کا اصل
چہرہ بے نقاب کرنے کا موقع ہے اسے ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ ورنہ پھر ہم میڈیا
کو ، حکومت کو یا سیکورٹی اداروں کو مورد الزام ٹھہراتے پھر رہیں لیکن پھر
اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ
’’ اب پچھتائے کیا ہوت ، جب چڑیاں چگ جائیں کھیت ‘‘ |