اذنِ نا گہاں
(Tehzeeb Hussain Bercha, )
بسا اوقات خوش بختی انسان کی کم علمی
،فکری پستی اور نا اہلی پر بھی ایک دھندلا سا پردہ ڈال دیتی ہے۔شاید اسی
سبب خواجہ احتشام ایک سرکاری ادارے کے روحِ رواں تھے۔بھاری بھرکم جسم ،کوتاہ
قداور چہرے پر چیچک کے داغ نمایا ں تھے۔ان کا دور دور تک شہرہ تھا اور
اخبارات اکثر ان کی تصاویر سے مزین ہوتے تھے۔پابند صوم و صلوٰۃ ہونے کے
ساتھ ساتھ ــ ـ"اﷲ والوں" سے بھی خاص مراسم رکھتے تھے۔عبادات کو اپنا اولین
فرض سمجھتے اور خصو صاََ جمعہ کی نماز تو کبھی نہ چھوٹتی کیونکہ ان کے
نزدیک یہ وحدت کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ پارسائی کا بھرم رکھنے کا بھی
ایک بہترین موقع ہوتا ہے۔اتنی عبادتوں اور پارسائی کے بعد خود کو ایمان ِکُل
سمجھ بیٹھے اسی سبب زمیں پر خدا کی نعمتوں اور کائنات میں پوشیدہ خزانوں کے
لیے خود کو اکلوتا وارث سمجھتے تھے۔ہوسِ زر گردشِ خوں تک سرایت کر گئی
تھی۔دل میں ایک خلش تھی جو ہمیشہ ناگن کے پھَن کی طرح سر اٹھاتی رہتی۔انہوں
نے ایک سیاسی گھرانے کی کالی کلوٹی خاتون سے شادی رچائی تھی اور شاید اس
رشتے کی ڈور کا سرا تھامنے کا مقصد بھی دولت کا حصول تھا۔ان کی ایک بیٹی
تھی جو نازو نخروں میں پلی بڑھی تھی۔
خواجہ صاحب کے ماضی کو ٹٹولا جائے تو ایک مالدار مذہبی گھرانے کے چشم و
چراغ تھے۔گھر میں مذہب کو خاص فوقیت دی جاتی ۔ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہونے
کے سبب ان کا بچپن پرُ تعیش گزرا ۔ان کے والد کاروبار کرتے تھے جبکہ ان کی
والدہ ایک تیز طرار اور شاطرانہ اوصاف کی حامل خاتون تھیں،ان کے نزدیک محلے
کے تمام گھروں کی جانکاری رکھنا اور ہمیشہ انہیں زیرِ بحث لانا زندگی کے
اولین مقاصد میں سے تھا ۔خواجہ صاحب کو شاطرانہ اوصاف گھریلو ماحول سے ورثے
میں ملے تھے ۔روزمرہ کی اسی عامیانہ زندگی کے ماہ و سال گزرتے گئے اور
انہوں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا اور یونیورسٹی کی سطح تک پہنچ
گئے۔یونیورسٹی میں تیز طرار ہونے کے سبب دیگر ہم جماعتوں میں نما یاں نظر
آتے۔یوں ایک مذہبی سیاسی پارٹی نے یونیورسٹی سطح پر صدارت کی پیشکش کی جو
انہوں نے خندہ پیشانی سی قبول کیا ۔تنظیم کو فعال کرنے میں شاطرانہ اوصاف
خوب کام آئے اور پارٹی کے سیاسی قائدین کی نظر میں سیاسی قد کاٹھ بلند ہونے
کے ساتھ ساتھ مراسم بھی مضبوط ہوئے۔طلباء و طالبات کو سیاسی دھونس پر داخلہ
دلوانا اور ان کے جائز و ناجائز مسائل حل کرنا اب ان کے بائیں ہاتھ کا کام
تھا ۔یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے تک ان کے تعلقات کا دائرہ کار ملکی
سطح کے سیاستدانوں تک پھیل چکا تھا۔
خواجہ احتشام کے والد اکثر ان سے نالاں رہتے تھے۔چونکہ وہ بڑھاپے کی چادر
اوڑھ چکے تھے اور دمہ کے عارضے میں بھی مبتلا تھے لٰہذا ان کی دلی خواہش
تھی کہ گھر کی کفالت کا بوجھ اپنے فرزند کے کندھوں پر منتقل کریں لیکن
خواجہ صاحب سیاسی قد کاٹھ اوراتنی شہرت کے کاروبار ی زندگی تک کہاں محدود
ہونے والے تھے۔
ایک رات کھانے کے دسترخوان پر احتشام کے والد نے آخر کار چپ کا روزہ توڑ
دیا۔
"برخور دار ! وقت کا ضیاع تو بہت کر چکے اب تو ہوش کے ناخن لو "
ـ"اباّ !دکان تک محدود ہوکر میں اپنی زندگی تباہ نہیں کرنا چاہتا "خواجہ
صاحب نے دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا۔
"زندگی کے شب و روزسیاسی آوارگی میں گزارو گے تو زندگی خود ایک مذاق بن
جائے گی"خواجہ صاحب کے والدغصے سے بڑبڑاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔
اُنہی دنوں خواجہ احتشام کے والد کی طبیعت مسلسل خراب رہنے لگی تھی ۔اسی
سبب جاڑے کی ایک رات زندگی نام کی دیوی ان سے روٹھ گئی۔خواجہ صاحب اب
پریشاں رہنے لگے تھے۔گھر کی کفالت کا بوجھ اب ان کے سر آ پڑا تھا لیکن
طبیعت میں لا ابالی پن کے سبب اس بوجھ کو اٹھانے سے قاصر نظر آتے۔الیکشن کا
موسم قریب تھا لٰہذا دن رات انہی تیاریوں میں گزر جاتے۔چھ مہینے بعد الیکشن
ہوئے اور خوش قسمتی سے خواجہ صاحب کی پارٹی نے تین نشستیں جیت لیں جبکہ
جیتنے والے ایک سیاستدان سے ان کے خاص مراسم بھی تھے اور ماضی میں پارٹی پر
احسانات بھی۔ یوں ایک سرکاری ادارے کی سربراہی کی پیشکش کی گئی۔طبیعت نوکری
پر مائل نہیں تھی لیکن گھریلو مشکلات آڑے آئیں اور اس پیشکش قبول کوکرنا
پڑا۔
اسے حسنِ اتفاق کہیے ۔ ادارے کا ماحول خواجہ صاحب کے من کو خوب بھا
گیا۔کیونکہ یہ طبیعت پر پورا اترتا تھا ۔ایک تو تنخواہ معقول تھی دوسرا اس
کے ساتھ ساتھ تحائف کی مد میں بھی کچھ نہ کچھ ضرور ملتا تھا اور وہ بغیر
کسی تعامّل کے دولت سمیٹنے میں مشغول رہے۔ان کی حالت کسی نخلستان میں بھٹکے
ہوئے پیاسے مسافر کی سی تھی جسے جبرِ مسلسل کے بعد ایک کنواں تو میسر آئے
لیکن سیراب ہونے کے باوجود پیاس کی شدت بجھنے کا نام نہ لے۔
خواجہ صاحب ان دنوں سخت پریشان تھے ایک طرف دھن دولت کے پہاڑوں پر تخت
سجائے بیٹھے تھے جبکہ دوسری طرف ان کی اکلوتی بیٹی ایک غریب گھرانے کے
نوجوان پر فریفتہ ہو گئی تھی۔ پہلے نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی اور ایک دن
دفتر سے واپسی پر بیٹی سے مخاطب ہوئے
"محبت کی بے رحم موجوں میں بہہ کر تم نے غلط ساتھی کا انتخاب کیا ہے وہ
ہمارے شان و شوکت کے کسی طور پر قابل نہیں"
"بابا! محبت کے رشتے اور جذبے کو دولت کے میزان میں نہیں تولا جاتا ۔دنیا
میں دولت مندوں کے نام اور شان و شوکت موت کے بعدخاک میں مل جاتے ہیں لیکن
محبت کرنے والے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہوجاتے ہیں" شازیہ نے فلسفیانہ
انداز میں جواب دیا
" تمہاری زندگی عیش و عشرت میں گزری ہے مجھے خدشہ ہے کی جب غربت کی لُو
تمھارے گھر کے آنگن کا رخ کرے گی تو بہت پچھتاؤ گی"
خواجہ احتشام نے نرمی سے کہا۔
"میں نے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے فرہاد کے ساتھ میں زندگی کے ہر تکلیف
اور دکھ کا خوشی سے سامنا کروں گی۔" شازیہ نے ایک ہی سانس میں جواب دیا۔
" میری زندگی بھر کی شفقت کو اس لڑکے کی دو دن کی محبت پر فوقیت دیتی
ہو؟"خواجہ صاحب نے سگریٹ کو ایش ٹرے میں بجھاتے ہوئے کہا۔
" بابا میں آپ کی محبت سے انکاری نہیں لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!"
"لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا؟"خواجہ صاحب کی آواز میں غصے کی لہر ہویدا تھی۔
شازیہ نے کچھ کہے بغیر اٹھ کر اپنے کمرے کا رخ کیا لیکن اس کی آنکھوں سے
رواں اشکوں کا طوفاں اس کی اضطرابی کیفیت کی عکاسی کر رہا تھا۔
خواجہ احتشام نے جب اس معاملے کو سلجھانے کے لئے سختی کا سہارا لیا تو
معاملہ سلجھنے کے بجائے مزید بگڑ گیااور ایک رات ان کی بیٹی خاموشی سے گھر
چھوڑ کر چلی گئی ۔لاکھ جتن کیے لیکن کوئی سرا غ نہیں ملا ۔اس حادثے سے کچھ
دن تو وہ سب سے کٹ کر پریشانی کی تصویر بنے رہے لیکن رفتہ رفتہ زندگی پھر
اپنے ڈگر پر آگئی۔
خواجہ احتشام کو جب احساس ہواکہ دولت کے کچھ انبار جمع ہو چکے تو انہوں نے
کاروباری سرگر میوں میں بھی خاص دلچسپی لینے کا آغاز کیا۔تاجروں سے مراسم
بڑھانے شروع کیے اور زیادہ سے زیادہ وقت تاجروں کی صحبت میں گزارنے لگے۔ایک
صاحب نے انہیں مختلف کمپنیوں کے حصص خریدنے کا مشورہ دیا۔جس پر وہ سوچ و
بچار کرنے لگے تھے۔جبکہ اب جو ّا خانے بھی ان کے قدموں سے آشنا ہو گئے
تھے۔جہاں نا تجربہ کاری کے سبب اکثر بازی ہار جاتے تو کبھی کسی ساتھی کی
چال کا سہارا لے کر کسی اور کو لوٹ لیتے۔
گرمیوں کے دنوں کی ایک سہ پہرخواجہ صاحب سخت تیاریوں میں مصروف تھے کیونکہ
ایک بین الاقوامی ادارے کے حصص بیچے جا رہے تھے اور ABCگروپ آف کمپنیز کے
حصص کا حقدار بننا دولت کے سمندر میں غوطہ زن ہونے کے برابر تھا۔لٰہذا
خواجہ صاحب بھی دلچسپی رکھنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ خریدنے کے خوابوں
میں مگن تھے۔جمع شدہ دولت کا تخمیہ لگانے پر چند ہی حصص خریدنے کی استطاعت
رکھتے تھے۔تھوڑی سی تگ و دو کے بعد کچھ دوستوں سے قرضے بھی لیے اور شہر کی
جانب روانہ ہوئے۔
ایک بہت بڑے عالی شان ہال میں تاجروں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔حد سے زیادہ
موٹاپے کے شکار مہنگے پوشاک زیبِ تن کیے اور چہروں پر احساسِ برتری کے
تاثرات لئے افراد کو دیکھ کر گماں گزرتا تھا کہ دولت کے نشے میں دھت
ہیں۔بَڑھیا برانڈ کے سگریٹ پھونکے جا رہے تھے جبکہ کچھ تاجر بے چینی کو کم
کرنے کے لئے مے نوشی کا بھی سہارا لے رہے تھے۔اسی محفل میں خواجہ احتشام کی
ملاقات چوھدری
عظمت سے ہو ئی جو نہایت گرم جوشی سے ملے۔
چوھدری عظمت سگریٹ سلگاتے ہوئے خواجہ صاحب سے مخاطب ہوئے
ــ"احتشام صاحب ! ہم آپ کی طرح کسی سرکاری ادارے کے سربراہ تو نہیں لیکن
پرُکھوں سے کچھ زمینیں ورثے میں ضرور ملی ہیں"
"یہ آپ کا حسن ِ نظر ہے چوھدری صاحب ! وگرنہ بندہ بشر فقط ایک سرکاری ملازم
ہے لیکن آپ کے ہم پلہ ٹھاٹ بھاٹ کہاں میسر! "
خواجہ صاحب نے ایک تمسخرانہ انداز میں جواب دیااور فضا میں ایک قہقہہ بلند
ہوا۔
کچھ سمے بعد ABC گروپ آف کمپنیز کی جانب سے مقرر کیے گئے میزباں کی جانب سے
مائیک پر "خوش آمدید "کے رسمی کلمات کی آواز کے ساتھ بولی کے شروعات کے
اعلان پر دونوں متوجہ ہوئے۔
دو گھنٹے کے دورانیے پر محیط بولی کے بعد نسشت بر خاست ہوئی اور خواجہ صاحب
کمپنی کے دو حصص خریدنے میں کامیاب ہوئے۔ایک طرف خوشی کا کوئی ٹھکانہ تھا
تو دوسری طرف ہوس کے سمندر کی لہریں خیالوں کے ساحل سے ٹکرا کر پھر سے
سمندر کی گہرائیوں میں اترجاتیں۔
اسی دوران دوپہر کا سمے ہوا تھا ۔سورج آسمان سے زمین کی جانب آگ کے شعلے
برسا رہا تھااور بنی نوع انسان گرمی کی شدت سے بلک رہے تھے۔خواجہ احتشام نے
واپسی کا رختِ سفر باندھا اور ایک ائیر کنڈیشنر گاڑی میں سوار ہوکر اپنے
شہر کی جانب روانہ ہوئے۔گرمی کی شدت کے باوجود شاہراہ پر چہل پہل تھی ۔دور
دور تک سر سبز کھیتوں کا جال بچھا ہو ا تھا جبکہ کہیں کہیں ٹیلے نمایا ں
تھے اور روڈ پر چلتی بسیں، ٹرک اور گاڑیاں شور کا بھی موجب بن رہے
تھے۔خواجہ صاحب نے ڈرائیونگ سیٹ کے نیچے پڑی وسکی کی بوتل سنبھالی اور گاڑی
چلاتے ہوئے اپنے اعصاب پر زور دے کرایک لمحے کے لئے اپنی کامیابی اور
احساسِ تفاخر کو دل کے کسی گوشے میں دفن کرنے کی کوشش کی لیکن ایک خیال بار
بار دماغ کو چھو کر گزر جاتا۔خواجہ صاحب کو چوھدری عظمت کی قسمت پر رشک کا
گماں ہو رہا تھاجو کمپنی کے چار حصص کے حقدار پائے۔اگر وہ بھی اسی طرح
کامیاب ہو جاتے تو ایک سال میں ان کے شاندار ولاز میں ایک بنگلہ کی تعمیر
کا منصوبہ تکمیل کوپہنچ جاتا۔شہر تک پہنچنے کے لئے ابھی کافی مسافت باقی
تھی ۔سفر کٹتا رہا وقت گزرتا گیا ۔اور شام کے بعد رات آگئی۔
چاروں جانب گھُپ اندھیرا پھیل چکا تھا ۔گاڑی مسلسل اپنی منزل کی جانب رواں
تھی جبکہ گاڑی کا سایہ بھی ساتھ ساتھ چل رہاتھا۔ا یک طرف نشے کی شدت اپنے
زوروں پر تھی جبکہ دوسری طرف تھکاوٹ کے باعث خواجہ صاحب کی آنکھوں کے
جھروکوں میں نیند اور غنودگی سرایت کر رہی تھی لیکن وہ بمشکل خود پر قابو
پا رہے تھے اور سٹیئرنگ پر جمے ان کے ہاتھ خشکی پر پڑے کسی ماہی کی طرح
کانپ رہے تھے۔ تھوڑی سی مسافت طے کرنے کے بعد نیند نے آ لیا۔اسی دوران
اچانک سامنے سے آنے والے ٹرک کی بتیّوں کی تیز روشنی اور ایک زور دار ہارن
نے سکوت توڑدیا۔لیکن خواجہ صاحب کی کار تیز رفتاری کے باعث قابو میں نہ
آسکی اور ایک خوفناک ٹکراؤ کے بعد ہوا میں روئی کے گالوں کی طرح بلند ہوئی
اورلڑھکتی ہوئی شاہراہ سے دور جاگری۔
ہر طرف نیم خنک سا اندھیرے میں ایک خوفناک سکوت طاری تھا ۔ٹرک ڈرائیور نے
خوف کے عالم میں ماتھے سے پسینہ پونچھا اور ٹارچ(چراغ) سنبھال کر ٹرک سے
باہر کا رخ کیا ۔تیز قدموں سے حادثے کا شکار گاڑی کی جانب لپکا۔کار بربادی
کا منظر پیش کر رہی تھی جبکہ وجودِ ابنِ آدم سے خالی تھا ۔گاڑی سے تھوڑی سی
دور خاک و خون میں غلطاں ایک لاش پڑی تھی۔شاید یہ حضرتِ انساں کی بے بسی
اور بے اختیاری کی لاش تھی کہ جس میں جب تک تھوڑی سانسیں باقی تھیں تو
مچلتی ہوئی حسرتوں اور تمناؤں کی محور تھی ۔یہ ابنِ آدم کا وہی فانی جسم
تھا کہ جو چند ہی لمحے پہلے غرور کا تاج سر پر سجائے پھرتا تھا اور مزید
دولت و ثروت کی امید کرتا تھا۔اور یہ وہی جسم کہ جو کبھی ریشم و کمخواب پر
آرام کرتا تھا لیکن موت کے اذنِ ناگہاں نے اپنی چھاتی میں سمیٹ لیا اور خاک
کی پوشاک پہنا دی۔اور اس کی کٹی پٹی اور خون میں ڈوبی لاش نوحہ کناں تھی کی
"سامان سو برس کے ہیں کل کی خبر نہیں"۔ |
|