شبِ معراج اور اس سے منسوب غلط روایات !

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم

وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لیے تھے
اعلان نبوت کے بار ہویں سال ماہ رجب المرجب کی ستا ئیسویں شب سرکار دو عالم ﷺ کو سفر معراج کا اعزاز حاصل ہوا ۔ بحکم الٰہی حضرت جبریل علیہ السلام پچاس ہزار فرشتوں کے ساتھ ، ایک برق رفتار سواری’’ براق‘‘لیے حاضر ہوئے …… فرشتوں کی تسبیح ودرود سے حرم مکہ معظمہ گونج اُٹھا۔
؂خوشی کے بادل اُمنڈکے آئے دلوں کے طاؤس رنگ لائے
وہ نغمہء نعت کا سماں تھا حرم کو خود وجد آرہے تھے

حضور انور ﷺ حضرت اُم ھانی رضی اﷲ عنہا کے گھر آرام فرماتھے کہ جبریل علیہ السلام حاضر ہوئے …… محبوب کریم ﷺ کو بیدار کرنے کے لیے حکم الٰہی ہوا‘ اے جبر یل!ان کے قدموں کو چھو تاکہ تیرے نورانی لبوں اور کا فوری آنکھوں کی ٹھنڈک سے ہمارے محبوب خود بخود بیدار ہوجائیں……چنانچہ اس طرح محبوب کریم ﷺ خواب ناز سے بیدار ہوئے…… جبر یل علیہ السلام نے وصال رب ذوالجلا ل کا مژ دۂ جانفر اء ان الفاظ سے سنا یا:
یا رحمۃ للعالمین ان اللّٰہ یقرء السلام و یقول زرنی وانی مشتاق الیک ۔(مہمانِ عرش، مفتی حبیب احمد ہاشمی،ص:۵۹)
’’ اے رحمت عالمین! اﷲ تعالیٰ آپکو سلام فرمار ہاہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ تشریف لائیے ! ہم آپکی ملا قات کے مشتاق ہیں‘‘۔ ؂
تبارک اﷲ ہے شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوش’’ لن ترانی‘‘ کہیں تقاضے وصال کے تھے

حضوراکرم ﷺ اُٹھے، جبر یل علیہ السلام کے ہمراہ حطیم کعبہ تک تشریف لائے، واقعہ شقِ صدر ہوا ، قلب ِاطہر کو آب ِزم زم سے دھویا گیا ، پچاس ہزار فرشتوں کے نوارنی جھر مٹ میں جبریل علیہ السلام نے حضوراکرم ﷺ کو آبِ کو ثر سے غسل دیا ۔ جنتی لباس پہنا کر سر اقد س پر عمامہ شریف کا تاج رکھا، ایک نورانی چا در اوڑ ھائی اور جنتی دولہابنایا گیا۔(مولانا ابوالنور محمد بشیر کوٹلوی،مواعظ، اول،ص؛۲۶۲)
شب اسرٰی کے دولہا پہ دائم درود
نوشہء بزم جنت پر لاکھوں سلام

سواری کے لیے ایک سفید رنگ کا بر اق پیش کیاگیا ۔ اس کے دوبازو تھے اور پیشانی سرخ یا قوت کی بنی تھی ۔ اس کی تیز رفتاری کا انداز ہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ منتا ئے نظر پر اس کا قدم جاتاتھا ۔( مفتی حبیب احمد ہاشمی،مہمانِ عرش)

ستر ہز ار نوارنی فرشتوں نے براق کے گر د حلقہ کیا ، سرکار دوعالم ﷺ براق پر اس اندا ز سے سوار ہوئے کہ جبریل علیہ السلام نے رکاب تھا می اور گر وہ ملائکہ سمیت بیت المقد س کو بصد عز ت وتکریم روانہ ہوئے ؂
باغ عالم میں بادِ بہاری چلی، سرورِ انبیاء کی سواری چلی ہے
یہ سواری سوئے ذات باری چلی ،ابرِ رحمت اُٹھا آج کی رات

دوران سفر ، سرزمین مدینہ عالیہ ، طور سینا ، ولا دت گاہ ِعیسٰی علیہ السلام ملاحظہ فرماتے قبلہ اول بیت المقدس پہنچے جہاں پہلے سے تمام انبیاء کرام علیہم السلام موجود تھے…… مسجد اقصیٰ پہنچنے پر آپ ﷺ نے تمام انبیاء علیہم السلام کی امامت فرمائی اور سب نے آپکی اقتد اء میں نماز ادا کی ۔ تکمیل نماز کے بعد انبیا ء کرام نے اﷲ تعالیٰ کی حمد وثنا ء بیان کی، خطا بات فرمائے ۔ ان انبیاء علیہم السلام نے اپنے اپنے خطاب میں حمد خدا وندی کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے معجزات وکمالات کا اظہار بھی کیا،اور سب سے آخر میں حضوراکرم ﷺ نے حمد وثنائے رب جلیل کے بعد فرمایا ـ:
’’تمام حسن وکمال اسی اﷲ تعالیٰ کے لیے ہے جس نے مجھے رحمۃ للعالمین اور کائنات کے لیے بشیر ونذیر بنا کر بھیجا مجھ پر قرآن مجید جو حق وباطل میں فرق کرنے والا ہے،نازل فرمایا ۔میری اُمت کو خیرِاُمم کے خطا ب سے نوازا۔ میرے سینے کو کشادہ فرمایا ، میرے ذکر کو بلند فریا ، میرا بوجھ ہلکا کردیا، مجھے تمام مخلو ق سے اوّل پیدا کیا اور تمام انبیاء کے بعد آخری نبی بنا کر بھیجا ‘‘ ۔
اس پر آخر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:
بھذا افضلکم محمد ﷺ
’’اے محمد ﷺ! اسی بنا پر حق تعالیٰ نے آپ کو سب سے افضل قرار دیا ‘‘۔
(شیخ عبدالحق محدث دہلوی،مدارج النبوۃ،جلد اول،ص؛۲۹۷)
؂فرشتے خدم رُسل حشم تمام اُمم غلام کرم
وجود و عدم حدوثِ قدم جہاں میں عیاں تمہارے لیے

دائیں بائیں فرشتے ہی فرشتے تھے…… سرکار دو عالم ﷺ براق پر سوار ہوئے آسمانوں پر پہنچے۔ ہر آسمان پر مختلف انبیاء کرام سے ملا قات فرمائی اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملا قات فرمائی ۔

حدیث شریف میں ہے کہ حضوراکرم ﷺ نے فرمایا:
’’ جب میں بیت المعمور (فرشتوں کا قبلہ )میں گیا تو میں نے دیکھا کہ ساتوں آسمانوں کے فرشتے اس کا طواف کرکے میرے انتظار میں کھڑے تھے وہاں بحکم الٰہی اذان ہوئی اور جبریل علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے حبیب خدا ! جس طرح آپ نے بیت المقد س میں انبیاء کی امامت فرمائی اسی طرح یہاں بھی ملائکہ کی امامت فرمائیں‘‘ ۔
چنانچہ آپﷺ نے تمام ملائکہ کی امامت فرمائی اور انہیں دورکعت نماز پڑھائی۔ ؂
بغورِ صدا سماں یہ بندھا یہ سدرہ اُٹھا وہ عرش جھکا
صفوف سما نے سجدہ کیا ہوئی جو اذاں تمہارے لیے

جب حضوراکرم ﷺ سد رۃ المنتہیٰ (جوجبریل علیہ السلام کی پر واز کی آخر ی حد ہے )پہنچے تو جبر یل علیہ السلام رُک گئے اور عرض کیا:
’’ اگرایک بال کے برابر بھی آگے/ اوپر اُڑوں تو اﷲ کی تجلیات سے جل کر راکھ ہوجاؤں ‘‘۔
(مفتی حبیب احمد ہاشمی،مہمانِ عرش،ص:۵۹)

اس پر سرکار دو عالم ﷺ نے جبریل علیہ السلام سے فرمایا اگرتمہاری کوئی حاجت ہو تو بتاؤ،میں رب کریم کی بارگاہ میں پیش کر دوں گا؟ تو جبریل علیہ السلام نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! میری یہ آرزو ہے کہ جب روزِ محشر آپکی اُمت پل صراط سے گزرے تو مجھے اجازت ہو کہ میں اپنے پروبازو وہاں بچھا دوں تاکہ آپکی اُمت بآسانی گز رسکے ۔(مدارج النبوۃ،جلد اول،ص؛۲۹۹)

چنانچہ سرکار دو عالم ﷺ اس مقام سے آگے خود ہی پر واز کناں ہوئے…… براق کے بعد رفر ف پر سوار ہوکرمقامات عالیہ کی طرف گئے۔ آگے اﷲ ہی جانے کہ کیاکیا مقامات و مدارج، کیسے کیسے عبو ر فرمائے ……الغرض حضوراکرم ﷺ عرش الٰہی کے قریب پہنچے، آپکے قلب اقدس پر عظمت وجلال الٰہی کے آثار ظاہر ہورہے تھے کہ آواز آنے لگی:
ادن یا خیر البریہ ادن یا احمد ادن یا محمد(ﷺ)
’’نزدیک آیئے اے ساری مخلوق سے افضل ! نزدیک آئیے اے احمد! نزدیک آئیے اے محمد (ﷺ) !
؂ بڑھ اے محمد قریں ہو احمد قریب آ سرور ممجد (ﷺ)
ثنار جاؤں یہ کیا ندا تھی یہ کیا سماں تھا یہ کیا مزے تھے

حضوراکرم ﷺ نے فرمایا:
’’پھر میرے رب نے مجھے اپنے سے اتنا قریب فرمایا اور میں اتنا نزدیک ہوگیا جیسا کہ خوداس نے فرمایا( ترجمہ آیت )’’ پھر وہ قریب ہوا اور قریب ہو ا،یہاں تک کہ صرف دوکمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا ۔ پس وحی کی اﷲ نے اپنے محبوب بندے کی طرف‘ جو وحی کی‘‘۔(مدارج النبوۃ،،جلد اول،ص؛۳۰۵)
ان بلندیوں کے ادراک سے ہم انسانوں کی عقل عاجز ہے۔ ہم تو بس یہی فریاد کرتے ہیں کہ: ؂
نبی رحمت شفیع اُمت رَضا پہ ﷲ ہو عنایت
اسے بھی ان خلعتوں سے حصہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے

شیخ الاسلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضاحنفی محدث بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ سے دریا فت کیاگیا کہ کیا حضور سرورعالم ﷺنے شب معراج براق پر سوار ہوتے وقت اﷲ تعالیٰ سے وعدہ لے لیا ہے کہ روز قیامت جب کہ سب لوگ اپنی اپنی قبروں سے اُٹھیں گے ہرایک مسلمان کی قبر پر اسی طرح ایک ایک براق بھیجوں گا جیسا کہ آج آپ کے واسطے بھیجا گیاہے ۔یہ مضمون صحیح ہے یانہیں کیونکہ کتاب ’’معارج النبوۃ‘‘ سے لوگ اس کو بیان کرتے ہیں۔’’کتاب معارج النبوۃ‘‘ کیسی کتاب ہے اور اس کے مصنف عالم اہل سنت معتبر محقق تھے یانہیں ؟

اس کے جواب میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ:
’’روز قیامت ہر مسلمان کی قبر پر براق آنے والی روایت بے اصل ہے اور کتاب ’’معارج النبوۃ‘‘ کے مصنف سنُی واعظ تھے، کتاب میں رطب و یابس سب کچھ ہے ۔واﷲ تعالیٰ اعلم ‘‘ (احکام شریعت،مطبوعہ لاہور ۱۹۸۴؁ء،ص:۱۶۳)
کچھ نعت خواں حضرات نعتوں میں ایسے اشعار پڑھتے سنائے دیتے ہیں :
؂ یا نبی دیکھا یہ رتبہ آپ کی نعلین کا عرش نے چوما ہے تلوا آپکی نعلین کا
جبکہ کچھ واعظین اپنے خطاب میں بھی بڑے اطمینان سے یہ روایت بیان کرتے سنائی دیتے ہیں کہ ہمارے آقاومولیٰ کی یہ شان ہے کہ وہ شب معراج عرش الٰہی پر نعلین شریف سمیت تشریف لے گئے۔ جب شیخ الاسلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا حنفی محدث بریلوی علیہ الرحمۃ سے یہ دریافت کیا گیا تھا کہ شب معراج میں حضور اقدس ﷺکا عرش الٰہی پر نعلین مبارک کے ساتھ تشریف لے جانا صحیح ہے یانہیں توآپ نے ارشاد فرمایا کہ :
’’یہ محض جھوٹ اور موضوع ہے ……واﷲ تعالیٰ اعلم ‘‘
(احکام شریعت،مطبوعہ لاہور ۱۹۸۴؁ء،ص:۱۶۴)

بعض نادان شعلہ بیان واعظین یہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺکو خواب ہی میں دیدارالٰہی ہوا تھا ،معراج میں نہیں اور یہ معراج بھی ایک خواب ہی ہے……امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی علیہ الرحمۃ اس حوالے سے اپنے ایک مکتوب شریف میں لکھتے ہیں کہ:
’’شب معراج میں آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو رویت باری تعالیٰ اس دنیا میں واقع نہیں ہوئی ہے بلکہ آخرت میں واقع ہوئی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس رات جب مکان وزمان کے دائر ہ سے باہر ہوگئے اور تنگی ٔمکان سے نکل گئے تو ازل وابد کوآنِ واحد پایا اور ابتداء وانتہاکوایک نقطہ میں متحد دیکھا‘‘ ……(مکتوبات مجدد الف ثانی،دفتراول،مکتوب:۲۸۳)

جب شیخ الاسلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا حنفی محدث بریلوی علیہ الرحمۃ سے دریافت کیاگیا کہ کیا حضور اقدس ﷺنے خواب میں دید ار کیا تھایاکہ ظاہری آنکھوں سے دیدار الٰہی کاشرف پایا تھا توانہوں نے فرمایا کہ:
’’ حضورسرور عالم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے ۔اﷲ تبارک و تعالیٰ نے عرش ،جنت اور لامکاں کی بلندیوں پر عروج کے علاوہ اپنے دیدار پُرانوار سے بھی نوازا جو آپ ہی کا حصہ ہے اس موضوع پر اگر ائمہ متاخرین کے الگ الگ اقوال نقل کیے جائیں تو ایک طویل دفتر درکار ہے کہ وہ حد شمار سے خارج ہیں ،المختصر یہ کہ حضور سرور عالم ﷺ نے معراج کی شب بیداری کے عالم میں اپنے سر کی آنکھوں سے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کادیدار فرمایا ‘‘۔
(منبہ المنیہ بوصول الحبیب الی العرش والرویہ،مطبوعہ کراچی ۱۹۹۵؁ء)
شیخ الاسلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا حنفی محدث بریلوی علیہ الرحمۃ نے عالم بیداری میں معراج اور دیدار الٰہی کے حوالے سے ایک تحقیقی رسالہ ’’منبہ المنیہ بوصول الحبیب الی العرش والرویہ‘‘ تصنیف فرمایا ہے۔جسے فقیرنے اس کی تسہیل اور ترتیب نو کر کے دوالگ الگ ناموں سے شائع کرائے تھے:
(۱) ……رحمت عالم ﷺاور عالم بیداری میں معراج
(۲)……رحمت عالم ﷺاور دیدار الٰہی

یہ دونوں رسائل بزم عاشقان مصطفی ﷺ، لاہور /ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا ،کراچی /اسلامک ایجوکیشن ٹرسٹ‘نارتھ کراچی نے شائع کیے……فقیر نے جو حقائق پیش کیے‘ عامی واعظین اور خطباء انہیں خوب شورودلیری سے بیان کرتے نظر آتے ہیں، انہیں ان غلط روایات سے پر ہیز کرنا چاہیے ……حضور اکرم ﷺکی شان بیان کرنے کے لیے پورا قرآن کریم بھرا پڑا ہے، غلط روایات کا سہارا لینا اپنے اور دوسروں کے ایمان کو خراب کرناہے۔اگر آج سے قبل ایسی روایات بیان کی ہیں تو اس کے ازالہ کے لیے اب حق اور سچ کو عام کریں ۔مولیٰ تعالیٰ ہم سب کوحق کی آگاہی اور اس پر عمل کی توفیق عطا فر ما ئے۔آمین
Dr Iqbal Ahmed Akhtar
About the Author: Dr Iqbal Ahmed Akhtar Read More Articles by Dr Iqbal Ahmed Akhtar: 30 Articles with 46653 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.