بلدیاتی الیکشن، آخری مرحلہ!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
بالآخر عدالتِ عظمیٰ نے فیصلہ سنا ہی دیا۔
ضلع، تحصیل کے چیئرمین اور میئرز کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوگا۔
عدالت کے ریمارکس سو فیصد درست ہیں کہ حکومت ہر کام عدالت پر چھوڑ دیتی ہے،
خود کچھ نہیں کرتی۔ موجودہ حکومت کے الیکشن میں عوام کے ساتھ وعدوں میں ایک
اہم وعدہ بلدیاتی الیکشن کا بھی تھا۔ مگر ’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا ‘
کے مصداق حکومت نے بہت سے وعدے پسِ پشت ڈال دیئے اور نئی ترجیحات پر کام
شروع کردیا، ساتھ ساتھ قوم کو یہ بھی بتایا جاتا رہا کہ ہم نے الیکشن میں
کئے گئے تمام وعدے پورے کردیئے ہیں۔ بلدیاتی الیکشن کی اہمیت سے انکار نہیں،
تاہم جب یہ معاملہ عدالتِ عظمیٰ میں پیش ہوا تو بھی حکومت کے کانوں پر جوں
نہیں رینگی، پھر عدالت نے الیکشن کروانے کے احکامات جاری کئے تو بھی ٹال
مٹول سے کام لیا گیا، دوبارہ حکم دیاتو مردم شماری اور حلقہ بندیوں کو جواز
بنا کر انکار کیا گیا، پھر حکم ملا تو ملکی حالات کی طرف اشارہ کرکے بتایا
گیا کہ امن وامان کی صورت حال نامناسب ہے، جس کی بنا پر الیکشن کروانے سے
قیمتی انسانی جانوں کے تلف ہونے کے خدشات ہیں۔ پھر ایسا وقت آیا کہ سپریم
کورٹ آف پاکستان کو توہینِ عدالت کا نوٹس لینا پڑا، خدا خدا کرکے حکومت نے
الیکشن کروانے کا فیصلہ کرلیا۔ قبل ازیں بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی
حکومتوں نے الیکشن کروادیئے تھے، معاملہ صرف پنجاب اور سندھ کا تھا۔
بلدیاتی الیکشن ایک طرف تو جمہوریت کی بقا کی ضمانت ہوتے ہیں، اس کا دوسرا
بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عوامی نمائندے سامنے آتے ہیں جو اپنے گلی محلے کے
حقیقی مسائل سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں، تیسرا فائدہ یہ کہ مرکزی یا صوبائی
حکومتوں پر سے کام کا بوجھ کم ہوجاتا ہے، تقسیمِ کار سے تمام کام اچھے
طریقے سے سرانجام پاجاتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ مرکزی یا صوبائی
حکومتوں کو اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ ضمنی یا بلدیاتی الیکشن میں ہمیشہ
حکومتی پارٹی کے لوگ ہی کامیاب ہوا کرتے ہیں، لوگوں کو علم ہوتا ہے کہ جن
کی حکومت ہے، اسی کا بندہ جیتے گا تو اسے فنڈز وغیرہ مل سکیں گے، ورنہ جیتی
ہوئی نشست کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ عوام کی اسی سوچ کا نتیجہ ہی ہوتا ہے کہ
حکومتی پارٹی ہی اکثریت حاصل کرتی ہے، تحصیلوں، ضلعوں اور دیگر کارپوریشنوں
میں اسی کی حکومت بنتی ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود یہ راز کبھی فاش نہیں ہوسکا
کہ آخر حکومتیں بلدیاتی الیکشن سے خوفزدہ کیوں رہتی ہیں، کیوں انہیں اس بات
کا ڈر رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ گلی محلے میں ان کے مخالفین ہی کامیاب
نہ ہوجائیں، شاید اس لئے کہ وہ اپنی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوتے، انہیں
اپنے منصوبوں پر اعتماد نہیں ہوتا، انہیں اپنی خدمات پر بھروسہ نہیں ہوتا۔
پنجاب اور سندھ حکومت نے بلدیاتی الیکشن تو جیسے تیسے کروا دیئے، ہزار جتن
کئے کہ ایسا نہ کرنا پڑے، مگر عدالت کے سامنے ایک نہ چلی، عوام کو بھی
حکومت کے اس فرار کا علم ہوچکا تھا، تاہم مقامی سطح پر حکومتی اثرورسوخ
رکھنے والے لوگ تو ہر جگہ موجود ہیں، اور چھوٹے الیکشن میں کامیابی کے ایسے
ہی گُر ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ہوا، سوائے چند ایک مقامات کے اکثر علاقوں میں
حکومتی پارٹیوں نے معرکہ مار لیا، سندھ میں کراچی میں ا یم کیوایم اور بدین
میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے علاوہ کسی کو کچھ نہیں ملا، ہر طرف صوبائی
حکومت کی کامیابیوں کے جھنڈے ہی گڑے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی کچھ پنجاب میں
ہوا، سوائے رحیم یار خان کے اکثر اضلاع میں حکومتی پارٹی کی اکثریت زیادہ
واضح انداز میں دکھائی دے رہی ہے۔ الیکشن تو ہو چکے، اکثریت اور اقلیت کا
بھی اندازہ ہوگیا، مگر منتخب لوگوں کو اختیار دینے کی کہانی ’آسمان سے گرا
، کھجور میں اٹکا‘ کے مصداق ہے۔ ایم کیوایم وغیرہ تو اختیارات کے لئے ہر
طریقہ استعمال کرنے کے موڈ میں ہے، مگر پنجاب اور سندھ میں جہاں اکثریت
حکومتی پارٹیوں کے پاس ہے، وہاں کوئی اختیارات کا مطالبہ کرکے عہدوں کی دوڑ
سے باہر ہونے کی حماقت نہیں کرسکتا۔ حکومت نے ’خوئے بد را بہانہ بسیار‘ کی
صورت ایک رکاوٹ یہ بھی پیدا کی کہ ضلعی، تحصیل چیئرمین اور میئرز وغیرہ کے
الیکشن میں ’شو آف ہینڈ‘ کا طریقہ اپنایا جائے گا، سپریم کورٹ نے آج حکم
جاری کرکے یہ رکاوٹ بھی دور کردی ہے کہ یہ الیکشن قومی الیکشن کی طرح خفیہ
رائے شماری کے ذریعے ہی کیا جائے۔ اب دیکھئے حکومت کونسی نئی رکاوٹ تلاش
کرتی ہے۔ یا پھر بلدیاتی نمائندوں (جن میں سے اکثر ان کے اپنے ہیں) کو
مقامی اقتدار سونپ کر بلدیاتی الیکشن کا سارا کریڈٹ خود لینے کی مہم چلاتی
ہے۔ |
|