قادیانیوں کی عبادت گاہ پر حملے
کے بعد ایک بار پھر قادیانی میڈیا کا موضوع بن گئے ہیں۔ ان کی عبادت گاہ پر
حملے کیوں کیے گئے، اصل وجوہات کیا تھیں؟ اس واقعے کا پس منظر کیا ہے؟ ہم
ان باتوں پر بحث نہیں کریں گے کیوں کہ اس حوالے سے کئی لوگوں نے سیر حاصل
گفتگو کی ہے اور ہماری ویب کے فورم پر بھی جناب عشرت اقبال وارثی صاحب اور
محترم عبدالقدوس محمدی صاحب نے بہت اچھے مضامین لکھے ہیں اسلیے ہم اس پر
بات کر کے آپ لوگوں کا وقت ضائع نہیں کریں گے البتہ ہم یہاں اس بات کی
وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ قادیانیوں کی عبادت گاہ پر حملے کے بعد کئی
چینلز نے انکی عبادت گاہ کو مسجد کا نام دیا اور کہا کہ “ قادیانیوں کی
مسجد “ پر حملہ کیا گیا ہے حالانکہ نہ تو ان کی عبادت گاہ مسجد ہے اور نہ
انکی عبادت کو نماز کہا جاسکتا ہے اس لئے تمام بھائی بہنیں اس حوالے سے
احتیاط برتیں۔ بہرحال اس وقت ہمارا موضوع جناب میاں محمد نواز شریف صاحب کا
قادیانیوں کے حوالے سے تازہ ترین بیان ہے۔
اتوار 6 جون کو میاں صاحب کا بیان اخبارات میں شائع ہوا کہ انہوں نے
قادیانیوں کی عبادت گاہ پر حملے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “
قادیانی اس ملک کا سرمایہ اور ہمارے بہن بھائی ہیں “ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں
شہباز شریف کو ہدایت کی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کو اولین ترجیح دی جائے،
دہشت گرد جہاں بھی ہوں ان کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے “ قارئین کرام جہاں
تک قادیانیوں کی عبادت گاہ پر حملے کا تعلق ہے تو بطور مسلمان ہم بھی اس کی
مذمت کرتے ہیں اور بطور مسلم ہمارا یہ ایمان ہے کہ کسی بھی مذہب کی عبادت
گاہ پر حملہ درست نہیں ہے، یہ کام جن لوگوں نے بھی کیا ہے غلط کیا ہے اور
ان کو اپنے اس فعل کی قرار واقعی سزا ملنی چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ میاں
صاحب کی یہ بات بھی درست ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کو اولین ترجیح دینی
چاہیے اور دہشت گرد جہاں کہیں بھی ہوں ان کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے۔ یہ
ساری باتیں درست ہیں لیکن یہ جو انہوں نے کہا ہے کہ “ قادیانی ہمارے بھائی
ہیں “ کیا یہ بھی درست ہے؟
دیکھیں بہت سے لوگوں کے نزدیک قادیانی مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ ہیں اور وہ
اس حوالے سے بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ جبکہ ملک کے عوام کی اکثریت
ایسی بھی ہے جو انکو غیر مسلم تو سمجھتی ہے لیکن ان کے نزدیک جس طرح عیسائی،
یہودی اور ہندو وغیرہ غیر مسلم ہیں اسی طرح قادیانی بھی غیر مسلم ہیں۔ جبکہ
یہ بات بھی غلط ہے۔ دیگر غیر مسلموں اور قادیانیوں میں بھی ایک واضح فرق ہے
اور وہ یہ کہ عیسائی و ہندو وغیرہ کو تو ہم واضح طور پر پہچانتے ہیں اور وہ
لوگ اپنے آپ کو عیسائی یا ہندو کے طور پر ہی متعارف کراتے ہیں جبکہ
قادیانیوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ محض غیرمسلم نہیں ہیں بلکہ وہ امت کے غدار
ہیں اور وہ اپنے آپ کو مسلم جب کہ مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں اور
مسلمانوں کے درمیان رہ کر ان کے ایمان پر نقب لگاتے ہیں۔ (ان کے عقائد ے
بارے میں ہم انہیں صفحات پر پہلے بھی بہت تفصیل سے بات کرچکے ہیں جن کا لنک
ہم یہاں پیش کر رہے ہیں۔
“ توہین رسالت کا قانون٬ الطاف حسین اور قادیانی https://hamariweb.com/article.aspx?id=4612
قادیانی نواز اور قادیانی عقائد https://hamariweb.com/article.aspx?id=4762
قادیانیوں کے اسرائیل سے روابط کا ثبوت https://hamariweb.com/article.aspx?id=4907
)۔
یاد دہانی کے لئے ایک بار پھر ان کے کچھ بنیادی عقائد بیان کر دیتے ہیں
تاکہ کسی کو کوئی ابہام نہ رہے۔
قادیانی مذہب کے جد امجد مرزا غلام احمد قادیانی صاحب نے پہلے تو مسلمانوں
کے بنیادی عقیدے یعنی عقیدہ ختم نبوت پر ضرب لگائی، وہ فرماتے ہیں “ یہ کس
قدر لغو اور باطل عقیدہ ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ بعد آنحضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے وحی الہیٰ کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا اور آئندہ
کو قیامت تک اس کی کوئی بھی امید نہی ۔ صر قصوں کی پوجا کرو، پس کیا ایسا
مذہب کچھ مذہب ہوسکتا ہے جس میں براہ راست خدا تعالیٰ کا کچھ پتہ نہیں لگتا؟
“ ( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ١٨٣ بحوالہ قادیانی مسئلہ اور اس کے
مذہبی، سیاسی اور سماجی پہلو از مولانا سید ابو لاعلیٰ مودودی)۔
“ مجھے اپنی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے جیسا کہ تورات اور انجیل اور قرآن
کریم پر “ ( اربعین نمبر ٤ مرزا غلام احمد صاحب صفحہ نمبر ٢٥، بحوالہ
قادیانی مسئلہ اور اس کے مذہبی، سیاسی اور سماجی پہلو از مولانا سید ابو
لاعلیٰ مودودی )۔
میں بموجب آیت(و آخرین منھم لما یلحقو بھم ) بروزی طور پر وہی خاتم النبیاء
ہو اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور
احمد رکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی وجود قرار دیا “ (ایک
غلطی کا ازالہ از مراز غلام احمد )۔
اس امت میں نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام
لوگ اس نام کے مستحق نہیں ہیں (حقیقت الوحی ،مرزا غلام احمد ،صفحہ ٣٩١)
جب مرزا صاحب نے واضح طور پر نبوت کا اعلان کردیا اور یہ کہہ دیا کہ وہ
خاتم النبیاء ہیں (نعوذ باللہ ) تو پھر اس دعوے کا لازمی نتیجہ نہ نکلنا
تھا کہ اب ان کی ایک امت بھی ہو۔ اور اس امت کا کوئی نام بھی ہو اس لئے
انہوں نے بڑی چالاکی سے خود کو مسلمان کہا اور مسلمانوں کو اپنے عقائد کی
رو سے کافر اور جہمنی قرار دیا ملاحظہ کیجئے۔ مرزا غلام احمد صاحب کے عقیدے
اور دعوے کے مطابق “ جو شخص مسیح موعود کو نہیں مانتا یا ماننے کی ضرورت
نہیں سمجھتا وہ بھی حقیقت میں اسلام اور غائت نبوت اور غرض رسالت سے بے خبر
محض ہے اور وہ اس بات کا حق دار نہیں کہ اس کو سچا مسلمان، خدا اور اس کے
رسول کا سچا تابع دار اور فرماں بردار کہہ سکیں۔۔۔۔۔۔۔ اس کے نہ ماننے
والوں اور اس سے انحراف کرنے والوں کا نام فاسق رکھا ہے “ (حجتہ اللہ تقریر
لاہور از مرزا غلام احمد منقول از النبوت فی الاسلام، مولوی محمد علی ایم
اے صفحہ ٢١٤ ) ۔
“ جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور
تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا جہنمی ہے“ (
اشتہار معیار الاخیار از مرزا غلام احمد ،٢٥ مئی ١٩٠٠ ) ۔
“ اب جبکہ یہ مسئلہ بالکل صاف ہے کہ مسیح موعود کے ماننے کے بغیر نجات نہیں
ہوسکتی تو کیوں خوامخواہ غیر احمدیوں کو مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی
ہے “ ( کلمتہ الفضل صفحہ ١٢٩)۔
ہر ایک شخص جو موسیٰ کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا یا عیسیٰ کو
مانتا ہے مگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں مانتا یا محمد کو مانتا
ہے مگر مسیح موعود کو نہیں مانتا وہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ
اسلام سے خارج ہے۔ “ ( کلمتہ الفضل صفحہ ١١٠ )۔
اب یہاں تک اگر جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آئی کہ پہلے انہوں نے نبوت کے
ختم ہونے کا انکار کیا، اس کے بعد خود نبی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ
کیا، اس دعوے کے نتیجے میں خود کو ایک الگ امت قرار دیا اور مرزا غلام احمد
صاحب کی نبوت کو انکار کرنے والے مسلمانوں کو کافر قرار دیا۔ جب امت الگ
ہوگئی اور ان کو کافر قرار دیا گیا تو اب لامحالہ یہ بھی لازمی ہوگیا کہ ان
کے عقیدے کے مطابق جو کافر ہیں ان سے سماجی تعلقات میں بھی فرق آئے گا جس
کی جانب مرزا صاحب نے اس طرح اشارہ کیا ہے۔
(جاری ہے) |