سعید شہید رحمتہ اﷲ علیہ

اسلام کی حقانیت جب دل میں گھر کر جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخری کامیابی ہی مقصود اصلی بن جاتی ہے۔ خشیت الہیٰ کے سامنے دنیا کا ہر خوف بے معنی ہو جاتا ہے زمانے کے حوادث دل کا اطمینان چھیننے سے قاصر ہوجاتے ہیں۔ اللہ تبارک تعالیٰ کی عظمت دل میں اُترتی ہے تو انسان دنیا کی فانی طاقتوں اور عارضی مظالم کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیتا ہے۔ ایک مسلمان حق کی خاطر جان مال عزت آبرو غرض اپنا سب کچھ لٹانے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ اسلام کا دامن کبھی ایسی ہستیوں سے خالی نہیں رہا جو اس کا عملی نمونہ بن کر دنیا کے سامنے اسلام کی حقانیت کی دلیل بن جاتے ہیں۔ حضرت سعید بن جبیر(رح) کا شمار بھی انہیں ہستیوں میں ہوتا ہے۔ آپ ایک جلیل القدر تابعی ہیں۔ آپ تقویٰ، علم ، زہد و عبادت ، ہر لحاظ سے نہایت بلند مقام پر فائز تھے۔

دوسری طرف اس زمانہ میں حجاج نے زمین کو ظلم و جور سے جس طرح بھرا وہ بھی عالم میں اپنی نظری نہیں رکھتا۔ یہی نہیں کہ لاکھوں بندگانِ خدا کو بے گناہ تہ تیغ کیا بلکہ چُن چُن کر اُن مبارک اور مقدس سروں پر تیغ آزمائی کی جن کے وجود پر اسلام کو ناز تھا۔ حضرت سعید بن جبیر(رح) حجاج کے ظالمانہ معاملات سے نا خوش اور کبیدہ خاطر تھے اور پھر بعض واقعات ایسے پیش آئے جن کی وجہ سے اس میں اضافہ ہوتا رہا اور بالآخر وہ دن آ گیا جب حضرت سعید(رح) کو دوسرے بہت سے مظلوموں کے ساتھ گرفتار کر کے حجاج کے پاس روانہ کردیا گیا۔

اس واقعہ میں سب سے اہم اور قابلِ غور یہ دلچسپ اور عبرت انگیز مکالمہ ہے جو ایک غضبناک اور ظالم گورنر اور ایک خرقہ پوش فقیر کے درمیان ہورہا ہے، جس سے علما سلف کی قوت ایمانی اور توکل علی اللہ کے ساتھ اس کا بھی اندازہ ہوسکے گا کہ وہ لوگ حق کے مقابلہ میں اپنی جان و مال کو کہاں تک عزیز رکھتے تھے۔

حجاج: ﴿حضرت سعید(رح) سے مخاطب ہوکر﴾ تمہارانام کیا ہے؟
حضرت سعید(رح): سعید بن جبیر۔
حجاج: بلکہ تو شقی بن کُسیر ہے۔ ﴿سعید کے معنی خوش نصیب کے ہیں اور جبیر کے معنی بھی بڑائی پر دلالت کرتے ہیں اس لئے حجاج نے اظہارِ غضب کے لئے اس کو بدل کر شقی یعنی بد بخت اور کسیر کہا جو حقارت پر دال ہے﴾
حضرت سعید(رح): میری والدہ بہ نسبت تیرے میرے نام سے زیادہ واقف تھی۔
حجاج: تیری والدہ بھی شقی ہے اور تو بھی۔
حضرت سعید(رح): غیب کی بات ﴿سعادت و شقاوت﴾ کا جاننے والا تو کوئی اور ہی ہے۔
حجاج: بخدا میں تیری ساری عیش کو بھڑکتی ہوئی آگ سے بدل دوں گا۔
حضرت سعید(رح): اگر میں یہ جانتا کہ نفع و ضرر یا راحت و آرام تیرے قبضہ میں ہے تو میں تجھے خدا سمجھتا اور سجدہ کیا کرتا۔
حجاج: اچھا یہ تو بتاؤ کہ محمد ﷺ کے بارے میں تمہارا کیا عقیدہ ہے۔
حضرت سعید(رح): آپ ﷺ نبی رحمت اور امام ہدایت ہیں۔
حجاج: اچھا یہ کہو کہ حضرت علی(رض) کے بارے میں تم کیا عقیدہ رکھتے ہو وہ جنت میں ہیں یا دوزخ میں۔
حضرت سعید(رح): اگر میں جنت و دوزخ کی سیر کرتا تو مجھے معلوم ہوتا کہ کون دوزخ میں ہے اور کون جنت میں۔
حجاج: اچھا بتلاؤ کہ خلفا کے بارے میں تمہارا کیا عقیدہ ہے۔
حضرت سعید(رح): مجھے اللہ تعالیٰ نے ان پر مؤکل بنا کر نہیں بھیجا کہ میں ان کے احوال کی تفتیش کروں۔
حجاج: یہ بتاؤ کہ خدا کے نزدیک کون زیادہ بہتر ہے۔
حضرت سعید(رح): اس کا علم اس کو ہے جو ظاہر و باطن کو یکساں جانتا ہے۔
حجاج: ﴿حضرت سعید(رح) کی صفائی اور حاضر جوابی سے متاثر ہو کر نرم لہجہ میں﴾ میں چاہتا ہوں کہ تم کسی بات میں تو میری تصدیق کرو۔
حضرت سعید(رح): اگر مجھے تمہاری محبت نہ ہوتی تو میں تمہاری تکذیب نہ کرتا۔ ﴿اس سے حضرت سعید(رح) کی مراد یہ ہے کہ میری تردید و تکذیب اور یہ ساری مخالفت محض تمہاری محبت پر مبنی ہے۔ کیونکہ میرا مقصود اس تمام دردسری سے تم کو عذاب الہیٰ سے بچانا ہے اس لئے یہ مخالفت حقیقت میں بہترین موافقت ہے۔ اسی لئے حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ مسلمان بھائی کی مدد اس وقت بھی کرو جبکہ وہ مظلوم ہو، اور اس وقت بھی جبکہ وہ ظالم ہو۔ صحابہ(رض) نے عرض کیا کہ یارسول اللہ مظلوم کی مدد تو یہ ہے کہ اس کو ظلم سے نجات دلائیں۔ یہ فرمائیے کہ ظالم کی امداد کیسے کریں۔ ارشاد فرمایا کہ ظالم کی امداد یہی ہے کہ اس کو ظلم سے روکو۔ مترجم﴾
حجاج: تمہیں کیا ہوا کہ تم کسی بات پر ہنستے نہیں؟
حضرت سعید بن جبیر(رح): وہ شخص کیسے ہنس سکتا ہے کہ جو مٹی سے پیدا کیا گیا ہو اور اسے یہ معلوم ہو کہ آگ مٹی کو کھا سکتی ہے۔
حجاج: پھر ہم کیوں ہنستے ہیں؟
حضرت سعید(رح): سب قلوب برابر نہیں ہوتے، کوئی غافل ہوتا ہے کوئی بیدار۔
حجاج پر اس وقت نہ معلوم کونسا افسون پڑھ دیا گیا ہے کہ حضرت سعید(رح) اس کی ہر بات کو کاٹتے ہیں اور وہ نرم ہوجاتا ہے اور اس بے باکانہ مکالمہ پر بجائے گردن مارنے کے اپنے خدّام کو حکم دیتا ہے کہ قیمتی موتی اور یاقوت و زبر جد حضرت سعید کے سامنے پیش کریں۔
حضرت سعید(رح): یہ مال تو نے اگر اس لئے جمع کیا ہے کہ احوالِ قیامت اور عذاب آخرت سے تیرے لئے ڈھال بن جائے تو بہتر ہے، ورنہ یاد رکھو قیامت کا ایک زلزلہ ماں کو اپنے شیر خوار بچہ سے غافل کردے گا اور سمجھ لو کہ حلال طیّب کے سوا دنیا کے کسی مال میں خیر نہیں۔
حجاج یہ سن کر بے پروائی سے راگ باجے میں مشغول ہوگیا۔
حضرت سعید(رح) باجے کی آواز سنکر زار و زار رونے لگے۔
حجاج: اے سعید یہ کیا حرکت ہے۔ اسباب تفریح کو رونے سے کیا نسبت۔
حضرت سعید(رح): باجے کی آواز نے مجھے صور قیامت کی یاد تازہ کردی اور اس کے ساتھ یہ بھی سوہانِ روح بن آیا ہے کہ تمہارے یہ سارے آلات لہو ولعب بھی تمہارے لئے وبالِ جان ہیں۔
حجاج: ﴿غصّہ سے﴾ سعید تم پر ہلاکت ! یہ کیا بیباکی ہے؟
حضرت سعید(رح): جس کو اللہ نے دوزخ سے چھڑایا اور جنت میں داخل کیا ہو اس کی ہلاکت کیا؟
حجاج: ﴿پھر غصہ میں بھڑک اٹھا اور کہنے لگا کہ﴾ سعید معلوم ہوتا ہے کہ تم اپنی زندگی سے بیزار ہو چکے ہو اس لئے اب تم ہی خود پسند کرلو کہ تمہیں کس طرح قتل کیا جائے۔
حضرت سعید(رح): جس طرح تم اپنا قتل پسند کرتے ہو اسی طرح مجھے کردو۔ کیونکہ قیامت میں خدائے تعالیٰ تمہیں اسی طرح قتل کرے گا جس طرح تم مجھے قتل کرو گے۔
حجاج: کیا تم چاہتے ہو کہ ہم تمہاری جان بخشی کردیں۔
حضرت سعید(رح): یہ تیرے اختیار میں نہیں اگر جان بخشی ہوگی تو خدائے علیم و قدیر کی طرف سے ہوگی۔ مگر تیری جان بخشی کی کوئی صورت نہیں اور نہ تیرا کوئی عذر مسموع ہے۔
حجاج: ﴿سپاہیوں سے مخاطب ہوکر﴾ اس کو لے جا کر قتل کردو۔
حضرت سعید(رح): ﴿نہایت مسرّت سے ہنستے ہوئے کھڑے ہوکر﴾ بہت اچھا۔
سپاہی: حضور یہ گستاخ مجرم آپ کے حکم پر ہنستا ہے۔
حجاج: ﴿حضرت سعید کو واپس بلا کر﴾ تم کس بات پر ہنستے ہو؟
حضرت سعید(رح): مجھے اس بات پر ہنسی آئی کہ تو اللہ پر کتنی جرأت کرتا ہے اور وہ کتنی بردباری۔
حجاج: اچھا اس کو ہمارے سامنے قتل کردو۔
حضرت سعید(رح): نہایت اطمینان سے ﴿گویا سونے کے لئے بستر پر لیٹتے ہیں﴾ قبلہ رُو لیٹ کر:
اِ نِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَ رْضَ حَنِیْفًا وَّ مَآ اَ نَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ہ ﴿میں سارے مذاہب باطلہ سے الگ ہو کر اپنا رُخ صرف اس ذات قدوس کی طرف پھیرتا ہوں جس نے آسمان و زمین پیدا کئے اور میں مشرکین میں داخل نہیں﴾۔
حجاج: ﴿حضرت سعید کو قبلہ رُو ہونے پر خوش دیکھ کر﴾ اس کا منہ قبلہ سے پھیر دو۔
حضرت سعید(رح): ان باتوں سے کب متاثر ہونے والے تھے، جس کروٹ لٹایا لیٹ گئے اور یہ ورد زبان پر ہے اَیْنَماَ تُوَلُّوٰافَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ ﴿تم جس طرف بھی منہ پھیرو اللہ اس طرف ہے﴾
حجاج: ﴿سعید(رح) کو اور بھی مسرور دیکھ کر﴾ اس کو اوندھا کردو۔
حضرت سعید(رح): جن کا رُخ صرف ایک خدائے بے نیاز کی طرف ہے جو حدود و مکان سے اعلیٰ اور برتر ہے اس پر بھی خوشی کے ساتھ راضی ہیں اور یہ آیت وردِ زبان ہے:
مِنْھَا خَلَقْنَاکُمْ و فیھا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْریٰ۔ ﴿ہم نے تمہیں زمین ہی سے پیدا کیا ہے اور اسی میں لوٹائیں گے اور اسی مٹی سے دوبارہ ﴿بروزِ محشر﴾ نکالیں گے﴾۔
حجاج اس خدا کے سچے ولی کی کرامت دیکھ رہا ہے مگر شقاوت اپنے خیال سے پھرنے کی اجازت نہیں دیتی، اور اسی حالت میں ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔
حضرت سعید(رح): اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ، وَرَسُوْلُہ،۔ پڑھ کر ’’اے حجاج میرا یہ آخری کلمہ محفوظ رکھ یہاں تک کہ ہم قیامت میں خدا کے سامنے حاضر ہوں‘‘۔ آخر میں سعید شہید(رح) یہ دعا کرتے ہیں اَللَّھُمَّ لَا تُسَلِّطْہُ عَلیٰ اَحَدٍ یَقْتُلُہ، بَعْدِیْ۔ ﴿اے اللہ میرے بعد اس کو کسی شخص کے قتل پر مسلّط نہ فرمائیے﴾۔
حجاج: اس گستاخ کو زیادہ بولنے کی فرصت نہ دو۔
جلّاد بے رحم بڑھا اور اس مقدس سر کو بدن سے جدا کردیا جس کا زمانہ محتاج تھا۔
حضرت سعید شہید(رح) کے بدن سے خلاف عادت خون کا فوارہ شدت سے جاری ہے۔ حجاج کو اس وقت یہ حیرت ہوئی کہ آج سے پہلے اُس نے کسی شہید کے گلے سے اتنا خون نکلتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اطبائ کو جمع کر کے اُن سے اس کی وجہ پوچھی تو سب نے کہا کہ حضور موت کے خوف سے مقتولین کا خون پہلے ہی خشک ہو جاتا تھا اور سعید بن جبیر(رح) کے نزدیک موت کوئی خوف کی چیز ہی نہیں تھی بلکہ اُن کے لئے خدا کے راستہ میں جان دیدینا ہی اصل مقصد تھا۔

حضرت حسن بصری(رح) نے جب آپ کی شہادت کی خبر سنی تو فرمایا کہ بخدا اگر تمام روئے زمین کے آدمی سعید بن جبیر(رح) کے قتل میں شریک ہوتے تو بیشک اللہ تعالیٰ سب کو سر کے بل جہنم میں ڈال دیتا۔

دوسری طرف سعید شہید کو قتل کرنے کے بعد حجاج ایک سخت مرض میں مبتلا ہوگیا جس کی بے چینی میں نہ دن کو آرام ہے نہ رات کو نیند۔ اگر کسی وقت ذرا آنکھ لگتی ہے تو خواب میں دیکھتا ہے کہ حضرت سعید اس کا دامن پکڑ کر کھینچ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’او خدا کے دشمن تو نے مجھے کس جرم میں قتل کیا‘‘۔ حجاج یہ دیکھ کر چونک کر اُٹھ جاتا ہے اور بار بار کہتا ہے:
مالی ولسعید ابن جبیر ﴿مجھے سعید بن جبیر سے کیا کام تھا﴾۔

بالآخر اسی اضطراب اور بے چینی میں رہ کر سعید بن جبیر(رح) سے ایک ماہ بعد حجاج بھی رخصت ہو جاتا ہے اور دنیا حجاج کے مظالم سے پاک ہوئی۔

مرنے کے بعد بعض لوگوں نے خواب میں دیکھا اور دریافت کیا کہ خداوند عالم نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا۔ کہا کہ جتنے آدمیوں کو میں نے بے گناہ قتل کیاتھا اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر ایک کے بدلہ میں ایک مرتبہ قتل کیا اور سعید بن جبیر(رح) کے بدلہ میں ستر مرتبہ قتل کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 214616 views A Simple Person, Nothing Special.. View More