اپنے والد میر داد خان کی دوسری
بیوی کے پہلے بیٹے ،سابق صدر، فیلڈ مارشل اور سیاسی راہ نما ۔ سب سے کم
عمری میں زیادہ رینکس حاصل کرنے والے فوجی ۔پاکستان کے پہلے فوجی آمر،محمد
ایوب خان 14 مئی 1907 ء کو ہری پور ہزارہ کے قریب ایک گاؤں ریحانہ ،ہندکو
پشتو گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم سرائے صالح میں پھر گھر سے 5
میل کے فاصلے پر کاہل پائیں گاؤں کے سکول میں داخلہ لیا ،جہاں خچر کی سواری
پر جایا کرتے ۔ 1922ء میں میٹرک کرنے کے بعد علیگڑھ چلے گئے ۔ وہاں سے فارغ
التحصیل ہونے کے بعد رائل ملٹری کالج سینڈ ہرسٹ (انگلستان) سے فوجی تعلیم
حاصل کی اور 1928ء میں کمیشن حاصل کیا۔جنگ عظیم دوم میں آپ نے بطور کپتان
حصہ لیا ۔اور پھر بعد میں برما کے محاذ پر بطور میجر تعینات رہے ۔ 1947ء
میں کرنل کے عہدے پر ترقی ملی‘ قیام پاکستان کے بعد انہیں بر یگیڈئیربنا
دیا گیا،اس وقت دسویں نمبر پر تھے ۔ پھر 1948 ء میں مشرقی پاکستان میں
پاکستانی فوج کے سربراہ ۔ 1949 ء میں مشرقی پاکستان سے واپسی پر آپ کو ڈپٹی
کمانڈر ان چیف بنا دیا گیا۔ 1954ء میں جب محمد علی بوگرہ نے گورنر جنرل کی
دعوت پر نئی وزارت تشکیل دی تو اس میں سکندر مرزا اور ایوب خان کو بھی شامل
کیا گیا۔ یوں جنرل ایوب خان پاکستان کے وزیر دفاع بن گئے ۔
جب اسکند مرزا نے 7 اکتوبر 1958 ء میں مارشل لاء لگایا تو آپ کو چیف مارشل
لا ء ا یڈمینسٹریٹربنے۔صدر اسکندر مرزا سے اختلافات کی بنا اختلافات بڑھے
اور اسکندر مرزا کو معزول کر کے ایوب خان نے پاکستان کی صدارت سنھبال
لی۔قوم اس وقت سیاست دانوں سے بیزار ہو چکی تھی، اس لیے ایوب کے اس اقدام
کو عوام نے سراہا۔ 17 فروری 1960ء کو ایوب خان ملک کے صدر منتخب ہوئے ۔ایوب
خان کو فیلڈمارشل کے خطاب سے نوازا گیا ۔ایوب خان نے اپنی نگرانی میں1961 ء
میں صدارتی آئین بنوایا ۔ اس آئین کے نتیجے میں 1962ء میں الیکشن ہوئے ۔
ان انتخابات میں صدر ایوب خان کے مدِ مقابل مادرِ ملت فاطمہ جناح تھیں جو
کہ بے پناہ مقبولیت کے باوجود ہار گئیں۔اس وجہ سے ان انتخابات کو مشکوک کہا
جاتا ہے ۔ستمبر 1965ء میں جب بھارت نے پاکستان پر جارحانہ حملہ کیا تو پوری
قوم ایوب خان کی قیادت میں سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔ اقوام متحدہ کی مداخلت
پر جنگ بندی ہوگئی۔ جنوری 1966ء میں تاشقند کے مقام پر پاکستان اور بھارت
کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس سے دونوں ملکوں کی افواج جنگ سے
پہلے کی پوزیشن پر واپس چلی گئیں۔ صدر ایوب کے دور حکومت میں پاکستان نے دن
دگنی رات چونگنی ترقی کی۔اس کے باوجود عوام خوش نہ تھی ،اور جمہوریت چاہتی
تھی ،اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے ایوب
خان کے خلاف تحریک شروع کر دی ، عوام کو جمہوریت کے فوائد گنوائے گئے،عوام
کی ذہین سازی کی گئی،سب جماعتوں نے مل کر ان کے خلاف تحریکِ جمہوریت کا
آغاز کردیا۔
ان کے خلاف ملک بھر میں مظاہروں اور ہنگاموں کا آغاز ہوا۔ ، اسی دوران عوام
میں ذالفقار علی بھٹو مقبول ہوئے۔ پورا ملک ہنگاموں کی لپیٹ میں آگیا۔صدر
ایوب نے طاقت کے استعمال کی بجائے صدارت سے استعفٰی دے دیا ،اور اقتدار 25
مارچ 1969ء کو یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔ایوب خان کی ڈائری کے مطابق
امریکہ براہ راست صورتحال کو خراب کرنے میں ملوث تھا ۔ امریکہ ایک زوال
پذیر پاکستان چاہتا تھا تاکہ خطے میں بھارت ایک طاقتور ملک بنے جسے چین کے
خلاف استعمال کیا جا سکے ۔صدر ایوب خان 19 ،اپریل 1974ء کو اسلام آباد میں
انتقال کر گئے۔ انہیں تمام فوجی اعزازات کے ساتھ ان کے آبائی گاؤں ریحانہ
میں دفن کردیا گیا۔ایوب خان مرحوم ایک قابل اور مدبر شخصیت تھے ان کے دور
حکومت میں ملک کی خارجہ پالیسی بھی غیر جانبدار اصول پر کاربند رہی جس سے
دنیا بھر میں پاکستان کا وقار بلند ہوگیا۔ایوب خان مرحوم نے اپنی سوانح
عمری Friends not Masters کے نام سے تحریر کی تھی، جس کا اردو ترجمہ ’’جس
رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے ۔
صدر ایوب خان فرقہ پرستی کو ناپسند کرتے تھے لیکن روحانیت کو پسند کرتے تھے
۔کوہ مری کے بزرگ جو کہ سید لعل شاہ کے نام سے مشہور ہوئے ان کاچرچا مری کے
گردونواح میں دور تک پھیلا ہوا تھا ۔ ان کی روحانیت کے کرشموں کا ذکر کیا
جاتا تھا، پاکستان کے سابق صدر محمد ایوب خان ان کی دل سے قدر کرتے تھے، ان
کا ذکر عقیدت کے ساتھ کرتے تھے ۔ ایوب خان نے جس محبت کا اظہار ان کی شخصیت
کے بارے میں کیا ان سے بابا جی کی شہرت دور دور تک پھیلی ایوب خان ان کے
کرشموں کا ذکر اکثر عقیدت کے ساتھ کرتے تھے ۔
صدر ایوب خان پاکستانی تاریخ کی متنازعہ شخصیت ہیں، ان کو چاہنے والے اور
ان سے نفرت رکھنے والے دونوں موجود ہیں ،انہوں نے جہاں پاکستان کی ترقی کے
لیے بہت سے اقدامات کیے وہاں ان سے غلطیاں بھی ہوئیں ۔محترم جناب حافظ شفیق
الرحمن اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ، وہ ایک جرنیل تھا۔حقیقی جرنیل۔ وہ
وطن عزیز کا پہلا بااختیار چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھا۔ وہ بنیادی
جمہوریت کے نظام کا خالق تھا۔ ایک دور میں وہ اس درماندہ و پسماندہ ملک کا
صدر تھا لیکن اسکے دور میں پاکستان آج کی طرح درمانہ و پسماندہ نہیں تھا
بلکہ اس کا شمار ایک تیزی سے ابھرتے ہوئے ترقی پذیر ممالک میں ہوا کرتا
تھا۔
ہم ان کی زندگی کے ایک دلچسپ واقع پر کالم کا اختتام کر رہے ہیں ۔لاہور سے
تعلق رکھنے والے بھانڈ منیر حسین المعروف ’’بھامنیر ‘‘ نے روزنامہ دنیا کو
خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے بتایاکہ ان کے بیٹے گوہر ایوب کا ولیمہ ایوان صدر
میں ہوا ،یہ وہ زمانہ تھا جب وہ بھارت کے ساتھ معاہدہ تاشقند کرکے لوٹے تھے
۔ ایسے میں ہم نے سیاسی جگت کے ذریعے ان پر تنقید کی ،مگر آفرین ہے کہ
انہوں نے ناراض ہونے کے بجائے ہمیں انعام سے نوازا۔میرے اوربڑے بھائی اعجاز
حسین کے درمیا ن مکالمہ ہوا جس میں ہم نے کہاکہ ایوب خان تاشقند سے واپس
آئے ہیں اور فیصلہ بھی پاکستان کے حق میں ہوا ہے ،بھئی کیافیصلہ ہوا ہے ؟
معاہدے کی رو سے کشمیر بھارت کا اور کشمیری پاکستان کے حصے میں آگئے ہیں ،
اس سے فائدہ کیاہوگا؟ بھئی بہت فائدہ ہوگا کشمیریوں سے اکبری منڈی میں
بوریاں اٹھوانے کا کام لیاجائے گا ،جب ہم نے یہ بات کہی تو پنڈال میں سناٹا
چھا گیاسب نے سوچا کہ بھانڈوں کو اس سرکشی پر کم از کم عمر قید ہوگی لیکن
جب ایوب خان نے قہقہہ لگایاتو یوں لگا جیسے ہر طرف قہقہوں کا طوفان آگیاہو۔ |