قیام پاکستان کے بعد گذشتہ
69سالوں میں بے پناہ ترقی کی اس دوران اس کے سائنسدانوں،انجینئروں
اورڈاکٹروں نے دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا اور اس وقت دنیا کے
کئی ممالک ان کی صلاحیتوں سے استعفادہ حاصل کر رہے ہیں پاکستانی سائنسدانوں
نے ایٹم بم بنا کر اس کو دنیا اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنایاجبکہ جدید ترین
ٹیکنالوجی سے لیس مزائل ایف16تیاروں کو ری اسمبلڈ کرنابین الاقوامی معیار
کا جدید ترین اسلحہ جے ایف تھندر جنگی تیارے ٹینک بکتر بند فوجی گاڑیاں اور
دیگر جنگی سامان تیار کر کے دنیا بھر میں پاکستان کا نام بلند کیا قیام
پاکستان سے اب تک فوجی اور عوامی سربراہوں فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں،جنرل
یحییٰ خاں،جنرل ضیا الحق،جنرل پرویز مشرف،ذوالفقار علی بھٹو،محمد خاں
جونیجو،محترمہ بے نظیر بھٹو،میاں نواز شریف،شوکت عزیز،آصف علی زرداری کے
علاوہ دیگر رہنما بھی شامل ہیں لیکن انہوں نے ملک میں بڑے بڑے پراجیکٹ اور
ترقیاتی کام کروائے لیکن اپنے علاج کے لئے ہسپتال نہ بنوا سکے جس کے لئے ان
کو دوسرے ممالک خصوصاً لندن جانا پڑتا ہے یہ حکمران اقتدار میں آکر اپنے
ملک میں صرف تعلیمی اداروں میں بچوں کو تعلیم دلوانے کے لئے ان کی تشہیر پر
کروڑ روپے خرچ کرتے ہیں اور ملک میں لوگوں کو صحت کی سہولتیں مہیا کرنے کے
لئے اربوں روپے کا بجٹ مختص کرتے ہیں اس کے علاوہ ملک کے بڑے شہروں میں
پرائیویٹ سیکٹر میں بڑے بڑے ہسپتال قائم ہیں جوکہ دورجدید کی سہولتوں اور
آلات سے آراستہ ہیں جن میں مہنگا ترین علاج ہوتا ہے جس میں بڑے بڑے لوگ
سرمایہ دار لوگ استعفادہ حاصل کررہے ہیں لیکن ہمارے ملک کے سیاستدان اقتدار
میں ہویا اقتدار سے باہر وہ اپنے علاج کے لئے انگلینڈ لندن کا انتخاب کرتے
ہیں حالانکہ دنیا کے بڑے بڑے ممالک کے ہسپتالوں میں پاکستان کے ڈاکٹر ز
اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں لیکن حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اپنے ملک
کے ہسپتالوں اور ڈاکٹرز پر اعتماد نہ ہے سیاست دانوں پر جب بھی کوئی مشکل
وقت آتا ہے تو ان کو کوئی مرض لاحق ہوجاتا ہے اﷲ تعالیٰ تمام لوگوں کو
بیماریوں سے محفوظ رکھے اور فوراً علاج کے لئے دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں
زیادہ تر اپنے علاج کے لئے لندن کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ دوبئی جرمن امریکہ
فرانس اور دیگر ممالک میں بھی علاج کے لئے جاتے ہیں ایم کیو ایم کے قائد
الطاف حسین کے خلاف حکومت نے گھیرا تنگ کرنا شروع کیا تو وہ اپنے گھٹنوں کے
علاج کے لئے1992میں لندن چلے گئے ان کے گھٹنوں کا علاج تو نہ ہوسکا-
لیکن جوں جوں ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے بارے میں سنسنی خیز انکشافات
ہوتے رہے الطاف حسین کے امراض بھی بڑھتے گئے اور ابھی تک وہ لندن میں زیر
علاج ہیں پیپلزپارٹی کے چیئرمین سابق صدر آصف علی زرداری اور حکومتی اداروں
کے مابین تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ ہواتو وہ بھی علاج کے لئے دوبئی لندن
اور امریکہ میں گئے اور ابھی تک بغرض علاج لندن میں ہیں پیپلزپارٹی کے
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی علاج کی غرض سے دوبئی لندن آتے جاتے رہتے
ہیں پیپلزپارٹی سندھ کے رہنما اور صوبائی وزیر شرجیل انعام مہمن کی کرپشن
پر جب ان کے خلاف گھیرا تنگ ہوا تو وہ بھی علاج کے لئے دوبئی چلے گئے تاحال
اس جگہ میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف جوکہ ایک طویل عرصہ 9سال تک
برسراقتدار رہے لیکن ان کے خلاف درج کیوں میں جب انکو پیشی لئے عدالت لے
جایا جارہا تھا تو اچانک وہ بھی بیمار ہوگئے ان کو عدالت کی بجائے ہسپتال
پہنچایا گیا اسی طرح جب تک وہ پاکسان ہی تھے مختلف امراض میں مبتلا رہے
بالاآخر وہ بھی علاج کی غرض سے دوبئی چلے گئے جہاں پر جاکر وہ بالکل صحت
مند ہوگئے اور انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں وزیر اعلیٰ
پنجاب میاں شہباز شریف جو کہ علاج کی غرض سے لندن جرمن جاتے ہیں جب کہ انکے
بڑھائی مسلم لیگ کے قائد اور وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف جن کو دل کے
چیک اپ کے لئے لندن جا ناتھا لیکن ملکی مصروفیات کی وجہ سے اپنا علاج کے
لئے لندن نہ جاسکے لیکن اچانک پانامہ لیکس کا سکینڈل سامنے آگیا جو ہنگامہ
پوری دنیا نظر آیا اور پاکستانی سیاست میں پانامہ پیپرز نے ہلچل مچادی جس
پر اپوزیشن جماعتوں نے بھر پور احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا اور حکومت کو
آڑے ہاتھوں لیا اور وزیر اعظم میاں نوازشریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ
کردیا پہلے تو حکومتی وزیر اور مشیروں نے اس ایشو کو نارمل لیالیکن دوسرے
ممالک میں اس پر بھر پور احتجاج شروع کردیا گیا متعدد ممالک کے سربراہوں
اور وزیروں نے عوامی اور اپنی جماعتوں کے دباؤ پر استعفےٰ دینے پر مجبور
ہوگئے اس ساری صورتحال کے بعد میاں نواز شریف پر بھی پریشر بڑھ گیا حکومت
کے وزیروں نے اپنے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے وزرا ان کے دفاع کے لئے
میدان میں آگئے اور وزیر اعظم نے اس سلسلہ میں ایک ریٹائرڈ جج کی سر براہی
میں کمیشن بنانے کا اعلان کیا لیکن اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعظم کی اس
پیشکش کو مسترد کردیا اور مطالبہ کیاکہ چیف جسٹس آف پاکستان کی قیادت میں
ایک خود مختار کمیشن قائم کیا جائے جس میں انٹر نیشنل فرانزک ایکسپرٹ شامل
ہوں اور اس مسئلے پر بحث جاری تھی کہ اچانک وزیر اعظم میاں نواز شریف نے
علاج کے لئے لندن جانے کا اعلان کر دیا اس دوران وزیر داخلہ چوہدری نثار
علی خاں نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف میڈیکل
چیک اپ کے لئے نہیں بلکہ علاج کے لئے جارہے ہیں اس طرح وہ چہ میگوئیاں تو
ختم ہوگئیں لیکن علاج کے لئے کتنا عرصہ ملک سے باہر رہیں گے اس بارے میں
کوئی اعلان نہیں کیاوزیر اعظم کی عدم موجودگی میں تمام امور وزیر خزانہ
اسحاق ڈار سرانجام دیں گے اور انکی معاونت وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نوا
زکریں گی ملک کے20کروڑ عوام کو صحت کی سہولتیں میسر نہیں ہیں لیکن حکمران
اپنے علاج کے لئے غیرممالک جانے خصوصیاً لندن کا رخ کرتے ہیں ملک کے وز یر
داخلہ چوہدری نثار علی خاں بھی اپنی اہلیہ کے علاج کے لئے جرمن چلے گئے اس
وقت لندن علاج کے ساتھ ساتھ پاکستانی سیاست کی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہو اہے
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خاں اپنے ساتھیوں جہانگیر خاں ترین ،میاں نواز
شریف جوکہ علاج کے لئے گئے ہیں جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری کا پڑاؤ بھی
وہیں ہیں جبکہ ایم کیو ایم کے الطاف حسین ایک طویل عرصہ سے علاج کی غرض سے
قیام پذیر ہیں جبکہ پوری قوم اس وقت میاں نواز شریف کی جلد صحت یابی کے دعا
گو ہے ہمارے ملک کے حکمرانوں کا حال بھی اس جرمن بوڑھے کی مثال جیسا ہے جو
کہ جرمن کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھا اس بوڑھے شخص کے ساتھ والے کمرے
میں غیر معمولی آمد و رفت سیکیورٹی کے لوگوں کی بہتات اور عملے کا احتمام
دیکھا تو اپنے ساتھ موجود وارثان سے اس کا سبب پوچھا بوڑھے مریض کے ورثا نے
اسے بتایا کہ اس کمرے میں میسر کے صدر حسنی مبارک کو علاج کے لئے ٹھہرایا
گیا ہے بوڑھے نے پوچھا یہ حسنی مبارک کون ہے اور کب سے میسر پر صدارت کر
رہا ہے بوڑھے کو بتایا گیا کہ اسے صدر رہتے ہوئے 25سال ہوگئے ہیں بوڑھے نے
کہا یہ ایک مفسد اور گندا شخص ہے ورثا نے پوچھا کہ آپ کیسے جانتے ہیں کہ یہ
ایک گندا اور مفسد انسان ہے بوڑھے نے کہا کہ جوشخص اپنے 25سالہ دور حکومت
میں اپنے ملک میں ایک ایسا ہسپتال نہیں بنوا سکا جس میں وہ خود اپنا علاج
اعتماد کے ساتھ کروا سکے اس شخص کا اپنے ملک اور عوام کے ساتھ خلوص مشکوک
اور اس کے انتظامی اصلاحی و تعمیری کاموں میں کھوٹ ہے یہ واقعہ اس وقت کا
ہے جب میسر کا صدر حسنی مبارک تھا- |