چھوٹو گینگ ۔نو گو ایریا اور سوئے ہوئے حکمران
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
قارئین راجن پور پنجاب کا ایک
ضلع ہے۔ رانا ثناء اﷲ جو پنجاب میں نو گو ایریا سے ہمیشہ انکاری رہے ہیں۔
ہمیشہ حکمرانوں کو اُن کے مشیران لے ڈوبے ہیں۔ایسا ہی خادم اعلیٰ کے وزیر
اُن کے ساتھ کر رہے ہیں۔ایک نجی چینل پر رانا ثناء اﷲ صاحب سابق ڈپتی ائیر
مارشل جناب لطیف کے ساتھ اتنی ہتک آمیز گفتگو سنی تو بندہ ناچیز کے دل سے
ایک آہ نکلی اور میرا یہ ایمان ہے کہ اﷲ پاک ظالم کی رسی بس ایک حد تک دراز
کرتا ہے۔راجن پور کے علاقے میں اتنا زیادہ نو گو ایریا کہ پولیس بھیگی بلی
بن گئی بلکہ بچارئے غیرتربیت یافتہ پولیس اہلکار اِن عاقبت نا اندیش
حکمرانوں کی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھونا پڑئے۔ خادم اعلیٰ
انتہائی فعال شخصیت ہیں لیکن وہ اپنے مشیران کو شاید سمجھ نہیں پائے کہ اُن
کی صلاحتیں کیا ہیں۔عدلیہ کو چاہیے کہ جناب رانا ثنا ء اﷲ کو طلب فرمائے
اور اُن سے پوچھے کہ آپ تو ہمیشہ سے انکاری رہے ہیں کہ پنجاب میں کوئی نو
گو ایریا نہیں ہے۔ تو راجن پور کیا ہندستان کے کچے کا علاقہ ہے۔پولیس کو
انتہائی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے اور فوج کو آخر بلانا حکومت کی مجبوری بن
گیا ہے۔راجن پور میں جرائم پیشہ گروہ چھوٹو گینگ کیخلاف جاری فوجی کارروائی
میں گن شپ ہیلی کاپٹروں سے گینگ کے ٹھکانوں اور کمین گاہوں پر شیلنگ جاری
ہے۔ علاقے کے لوگوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جرائم پیشہ گروہ
کی جانب سے فوجی ہیلی کاپٹر پر اینٹی ایئر کرافٹ گن سے فائرنگ کے بعد علاقے
میں مزید فوجی کمک بھیجی گئی ہے۔ حکومتی ذرائع نے ان خبروں کی تردید کی کہ
چھوٹو گینگ کے ساتھیوں نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ ادھر کچے کے علاقے میں
چھوٹو گینگ کیخلاف جاری آپریشن کے بعد کرفیو میں تین گھنٹے کیلئے نرمی کی
گئی تھی جس کے بعد علاقے میں دوبار کرفیو نافذ کر کے آپریشن شروع کردیا گیا۔
راجن پور کے علاقے کچا بنگلا اچھا، کچا شاہ والی، کچا سون میانی، مورو اور
کچا جمال میں دو گھنٹے کیلئے کرفیو میں نرمی کر دی گئی اور تین گھنٹے کی
نرمی کے بعد چھوٹو گینگ کیخلاف ایک بار پھر آپریشن ضرب آہن شروع کردیا گیا
ہے۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے
کہاہے کہ راجن پور کے علاقے کچے میں چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن ’’ضرب آہن‘‘
کا چارج پاک فوج نے سنبھال لیا ہے جس کے بعد مجرموں کے گرد گھیرا مزید تنگ
کردیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے
ایک بیان میں کہا کہ آپریشن کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے اور
کامیابی کے حصول کو یقینی بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن کی باقاعدگی
سے معلومات دی جائیں گی اور پیشرفت سے مسلسل آگاہ رکھا جائیگا۔ ذرائع کے
مطابق ڈاکوؤں نے فورسز کو دھوکہ دینے کیلئے یرغمالی اہلکاروں کی وردیاں خود
پہن لیں اور اپنے کپڑے انہیں پہنا دئیے ہیں۔ یرغمال اہلکاروں کی رہائی
تاحال نہیں ہوسکی۔ آپریشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے تونسہ بیراج کے
مقام پر دریائے سندھ میں پانی کے اخراج میں کمی کردی گئی ہے جس کے نتیجے
میں آپریشن زدہ علاقہ میں بہنے والے دریا میں پانی کی سطح مسلسل کم ہورہی
ہے۔ فورسز کی جانب سے اعلیٰ حکام کو آگاہ کیا گیا تھا کہ کچے کے علاقے میں
دریائے سندھ میں پانی کی سطح بلند ہونے کے باعث جاری آپریشن میں مشکلات کا
سامنا ہے جس پر اعلیٰ حکام نے تونسہ کے مقام پر پانی کے اخراج میں کمی کی
ہدایات جاری کردیں۔۔ سکیورٹی فورسز نے نئی مورچہ بندی کرلی، ڈاکووں نے
یرغمال بنائے گئے پولیس اہلکاروں کی وردیاں استعمال کرنا شروع کردیں۔ فیصلہ
کن کارروائی کیلئے فورسز کے تازہ دم دستوں کے علاوہ پانی میں چلنے والی
بکتر بند گاڑیاں بھی کچے کے علاقے میں پہنچ چکی ہیں۔کچے میں جاری آپریشن کی
کمانڈ سنبھالتے ہی ڈاکو مغوی پولیس اہلکاروں کی وردیاں خود پہن کر انکو
سادہ کپڑے پہنا کر انہیں ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں جس کے باعث
سکیورٹی فورسز کو ڈاکوؤں پر فائرنگ کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا
ہے۔ ماہرین کے مطابق سکیورٹی فورسز کو دریا میں پانی کی مقدار بڑھنے سے قبل
جاری آپریشن مکمل کرلینا چاہئے کیونکہ دریا میں پانی کی مقدار بڑھنے کے
باعث سکیورٹی فورسز کو جاری آپریشن میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا
ہے۔ آپریشن ضرب آہن میں 2 گن شپ اور 5 ریسکیو ہیلی کاپٹروں کا استعمال کیا
جا رہا ہے۔ ڈاکوؤں کو فرار سے روکنے کیلئے پولیس اور رینجرز کی 16 چوکیاں
قائم کردی گئی ہیں۔ ٹینک، توپیں اور بکتر بند گاڑیاں بھی علاقے میں پہنچ
گئی ہیں۔چھوٹو گینگ کے پاس 3 ہیوی مشین گنیں 2 سو سے زائد سب مشین گنیں اور
کئی ہزار کلو بارود موجود ہے۔
چھوٹو گینگ یرغمال بنائے جانے والے پولیس اہلکاروں کو آپریشن میں شدید
کارروائی سے بچنے اور اپنے بنکرز پر بمباری روکنے کیلئے بطور انسانی شیلڈ
استعمال کر رہا ہے۔ تاحال گینگ کے خلاف بھرپور کارروائی نہیں کی گئی اور
پنجاب حکومت کی پہلی ترجیح یرغمال بنائے جانے والے اہلکاروں کی بحفاظت
بازیابی ہے۔ آپریشن میں پاک فوج کے سپیشل کمانڈ سب سے آگے ہیں اور رینجرز
اور پولیس ان کی معاونت کر رہی ہے۔ پنجاب کے علاقے میں امن وامان کا یہ
عالم دہشت گردی نے حالیہ دنوں میں لاہور کو ہلا کر رکھ دیا، پنجاب میں راہ
کے جاسوسں کی گرفتاری کا سلسلہ بھی ابھی تک جارہ ہے۔ خادم اعلیٰ پنجاب کو
وزارتِ داخلہ پنجاب کو کسی ایماندار اور محنتی وزیر کے حوالے کرنا چاہیے۔
پولیس کی پورئے معاشرئے کارکردگی زبان زد عام ہے لیکن پنجاب حکومت کے
مشیران سب اچھا ہے کہ رپورٹ دئے رہے ہیں۔ امید ہے کہ خادم اعلیٰ پولیس کی
کارکردگی اور پنجاب میں دہشت گردوں ڈاکوؤں کی لوٹ مار پر نوٹس لیں۔ |
|