ایک تھا لکڑہارا۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک تھالکڑ ہارا ۔جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بڑی مشکل سے اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ایک دن لکڑیاں کاٹتے کاٹتے سوچنے لگا کہ زندگی اس ڈھب سے کیسے گزرے گی-

اچانک اسے ’’لکڑہارے کی دیانت داری‘‘والی کہانی یاد آئی جوبچپن سے اس نے اپنے دادا سے سنی تھی۔ٹھیک طریقے سے یاد نہ تھی ذہن پر زور دیا تو کچھ کچھ یاد آنے لگی۔اس کہانی میں چونکہ دریا کا ہونا ضروری تھا اس لیے دریا کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔۔پوچھنے پر پتہ چلا کہ جنگل سے بیس کلو میٹر کے فاصلے پر دریا ہے دوسرے دن علی الصبح دریا پر کلہاڑا ڈبونے کا منصوبہ بنایا۔بیوی کوہم راز بنا لیااور کہا کہ کسی سنار سے بات کر رکھنا جو اچھے اور نقد دام دے سکے کم از کم اتنے کہ گلبرگ میں جا کر کوٹھی بنا سکیں۔اگلے دن صبح سویرے دریا پر خوشی خوشی پہنچا اور پہنچتے ہی چھپاک سے کلہاڑا دریا میں گرا دیا اور لگا زور زور سے رونے۔کن اکھیوں سے ادھر ادھر دیکھ لیتا کہ فرشتہ آکر واپس نہ چلا جائے۔تھوڑی دیر بعد کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھا بہت خوش ہوا ،مڑ کر دیکھا تو ایک فرشتہ پولیس کی وردی زیب تن کیے کھڑا تھا۔حیرت ہوئی کہ فرشتے کیونکر پولیس کی وردی پہننے لگے۔بہر حال یہ نظامِِ قدرت تھا جس میں دخل اندازی کا اسے کوئی حق نہ تھا ۔وردی پوش فرشتے نے پوچھا اس وقت دریا کے کنارے کھڑا کیوں رو رہا ہے؟؟؟

بتایا کہ غریب لکڑہارا ہوں ،لکڑیاں کاٹ کر بیوی بچوں کو پالتا ہوں۔آج یہاں اس جگہ لکڑیاں کاٹنے لگا تھا کہ کلہاڑا دریا میں گرگیایہی واحد ذریعہ آمدن تھا اب میں کیا کروں گا یہ بتا کر زور زور سے رونے لگا۔

وردی پوش فرشتے نے کہا’’ابے تیرا دماغ تو نہیں چل گیایہاں کون سا درخت ہے جس سے لکڑیاں کاٹ رہے تھے، یہاں تو دور دور تک کوئی درخت نہیں مجھے تو تم مشکوک آدمی لگ رہے ہوآج کل یہاں بہت ڈکیتیاں ہورہی ہیں۔تم کوئی ڈکیت تو نہیں ہو؟ چلو میرے ساتھ پولیس چوکی‘‘لکڑ ہارے کو احساس ہوا کہ وہ کہانی کے غلط پلاٹ کے ساتھ غلط جگہ پھنس گیا ہے۔بہت کوشش کی اپنی صفائی دینے کی مگر فرشتہ اسے جکڑ کر پولیس چوکی لے گیا۔وہاں اور فرشتے بھی موجود تھے انھوں نے خوب دھلائی کی۔

کہانی کا درست نتیجہ حاصل کرنے کے لیے کہانی کے درست کوائف ،محلِ وقوع،پلاٹ اور بالخصوص کرداروں کا صحیح علم ہونا ضروری ہے۔کیونکہ کہانی کے درست کوائف، محلِ وقوع،پلاٹ،مناسب وقت اور کرداروں کے صحیح علم کے بغیر جوکوئی کام بھی کیا جائے اس کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے -
 
Rasheed Ahmed Naeem
About the Author: Rasheed Ahmed Naeem Read More Articles by Rasheed Ahmed Naeem: 126 Articles with 122557 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.