افغان صدرڈاکٹراشرف غنی اورچیف
ایگزیکٹوعبداللہ عبداللہ کے درمیان بھارتی پراجیکٹ پرصدرکولاعلم رکھ
کردستخط کرنے، امن مذاکرات میں روڑے اٹکانے اورافغان الیکشن کمیشن کی جانب
سے متنازعہ صدارتی انتخابات کی رپورٹ آنے کے بعدنہ صرف اختلافات نے شدت
اختیارکرلی ہے بلکہ عبداللہ عبداللہ کے ساتھی اس انتظارمیں ہیں کہ اشرف غنی
کواتنا اشتعال دلایا جائے کہ وہ عبداللہ عبداللہ کو برطرف کر دیں تاکہ
افغانستان میں کشیدگی کوہوادیکرپارلیمانی انتخابات سے قبل شمالی اتحاد کو
ایک مرتبہ پھر متحدکیاجاسکے۔افغان الیکشن کمیشن نے متنازعہ صدارتی انتخابات
کے دوسال بعد رپورٹ کومکمل کرکے اقوام متحدہ کے حوالے کر دی ہے۔جعلی ووٹوں
کو نکالنے کے باوجود افغان صدر نے چھ لاکھ آٹھ ہزار سے زیادہ ووٹوں سے
عبداللہ عبداللہ کوشکست دی ہے اوراشرف غنی قانونی صدر ہیں جبکہ عبداللہ
عبداللہ کوچیف ایگزیکٹوبنانے کیلئے خصوصی صدارتی فرمان جاری کیاگیا تھا
اورجس میں بنیادی کردارامریکی جان کیری نے اداکیاتھا۔
اب بھارتی لابی کے کہنے پرامن مذاکرات میں روڑے اٹکانے اورپاکستان پر
الزامات لگانے کے بعدافغان صدراورچیف ایگزیکٹو کے درمیان اختلافات میں شدت
پیدا ہوگئی ہے۔یہ شدت گزشتہ دنوں اس وقت اورزیادہ ہوئی جب ازبک ملیشیاکے
کیمونسٹ سابق کمانڈر جنرل مالک کوعبداللہ نے صدرکوبتائے بغیراپنا مشیر مقرر
کرا لیا اور جاوید کوہستانی کوان کے عہدے سے ہٹادیاکیونکہ جاوید کوہستانی
نے افغان صدرپرنکتہ چینی کی تھی تاہم جنرل مالک کی تقرری پر افغان صدراوران
کے ساتھی نہ صرف ناراض ہیں بلکہ نائب صدرجنرل دوستم نے تو کابل
چھوڑکرمزارشریف میں رہائش اختیارکرلی ہے۔جنرل دوستم نے افغان صدر سے کہا ہے
کہ انتخابات میں جنرل مالک نے نہ صرف بھاری رقوم خرچ کی بلکہ شمالی
افغانستان میں عبداللہ عبداللہ کو کامیابی دلانے میں اہم کردارادا کیاتھا،
اس کے باوجودجنرل دوستم اوران کے ساتھیوں نے صدرکے تمام منصوبوں کی حمائت
کرکے ان کوکامیاب کرایا ۔جنرل دوستم نے صدرکو بتایاہے کہ انہوں نے گزشتہ
دنوں صرف یہ بیان جاری کیاتھاکہ ہندوستان افغانستان میں مداخلت بنداور امن
مذاکرات کیلئے وقت دے جس پرڈاکٹرعبداللہ عبداللہ نے بھارتی ایماء پران کے
ذاتی دشمن اورمخالف جنرل مالک کو اپنامشیرمقررکرلیا۔
افغان صدرکوان کے دوستوں نے کہاہے کہ الیکشن کمیشن رپورٹ کے بعدعبداللہ
عبداللہ کی کوئی حیثیت نہیں رہی لہنداانہیں برطرف کردیاجائے۔اس برطرفی
کیلئے ایک اورفرمان جاری کرکے پرانا فرمان واپس لیاجائے کیونکہ افغان آئین
میں چیف ایگزیکٹوکاکوئی عہدہ نہیں ہے۔عبداللہ عبداللہ نہ صرف صدارتی کاموں
میں مداخلت کررہاہے بلکہ طالبان کے خلاف پروپیگنڈے میں پیش پیش اورحامد
کرزئی کے ساتھ مل کربھارتی منصوبوں کوعملی جامہ پہنارہاہے۔اس امرکااندازہ
اس سے لگایاجا سکتا ہے کہ حال ہی میں چنددنوں میں عبداللہ عبداللہ نے بھارت
کے ساتھ ٩٢چھوٹے منصوبے جن میں زراعت، کلچر، تعلیم،ثقافت،فنکاری، ہنر مندی
سمیت کئی اورمنصوبوں پردستخط کئے اوربعدمیں افغان صدرکواطلاع دی جس پروہ
شدیدناراض ہیں اوراس حوالے سے افغانستان کے نائب وزیر خارجہ حکمت کرزئی نے
افغان صدرکوبتایا کہ بھارت عبداللہ کے ساتھ مل کرسابق افغان صدر حامد کرزئی
کے منصوبے کوآگے بڑھانا چاہتاہے کہ افغانستان میں کشیدہ صورتحال پیداکرکے
مذاکرات ختم کئے جائیں اورایک مرتبہ پھرحامد کرزئی افغانستان میں لانے
کیلئے راستہ ہموارکیاجائے تاہم افغان صدراوران کے ساتھیوں نے مسلسل ان پر
نگاہ رکھی ہوئی ہے۔
افغان صدرکے قریبی ذرائع کے مطابق افغان صدرکوان کے ساتھیوں نے مشورہ دیاہے
کہ افغانستان کے پارلیمانی انتخابات جس کے اسی سال انعقاد کا امکان ہے
اورطالبان کے ساتھ ممکنہ مذاکرات میں کامیابی کے بعدرمضان المبارک کے بعد
یعنی جولائی اوراگست میں پارلیمانی انتخابات کرائے جاسکتے ہیں، انہیں ان
انتخابات سے قبل برطرف کرناضروری ہے کیونکہ عبداللہ عبداللہ پارلیمانی
انتخابات میں اثر اندازہوکراگراپنے زیادہ لوگوں کوکامیاب کرنے میں کامیاب
ہو جاتے ہیں توافغان آئین کے مطابق پارلیمان سے وزراء کے کاموں کی توثیق
اور وزراء کے خلاف عدم اعتمادجیسی تحریکیں پیداہوسکتی ہیں جن سے عملی طور
پر افغان صدرپھرمفلوج ہوسکتے ہیں،اس لئے ضروری ہے کہ انتخابات پراثراندا
زہونے سے قبل ہی ان کوہٹایاجائے۔
دوسری جانب افغان صدرکی ممکنہ برطرفی کو روکنے کیلئے عبداللہ عبداللہ نے
صدارتی انتخابات میں اپنے مخالف احمدشاہ مسعود کے بھائی احمدضیاءمسعود،
سابق اسپیکر پارلیمان یونس قانونی،جمعیت اسلامی کےمعروف کمانڈراوربلخ کے
گورنرعطاء محمد نورسمیت استادکریم خلیلی، استادمحقق سمیت شمالی اتحادکے کئی
رہنماؤں سے مذاکرات کیے ہیں اورانہیں منالیاہے اورانہیں یقین دہانی کرائی
ہے کہ اگروہ پارلیمانی انتخابات میں کامیاب نہ ہو سکے توافغان صدرطالبان کے
ساتھ معاہدہ کرکے شمالی اتحادکوایک طرف رکھ دیں گےجس کے بعدنہ صرف طالبان
کاغلبہ ہوجائے گابلکہ افغان صدربھی اپنے اقدامات میں مضبوط ہوجائیں گے۔
انہوں نے لسانی طورپرشمالی اتحادکوکافی حدتک راضی کرلیاہے تاہم جمعیت
اسلامی کے سربراہ اوروزیر خارجہ افغانستان صلاح الدین ربانی اس راستے میں
مزاحمت کر رہے ہیں تاہم دوسری جانب اس تمام منصوبے کے پیچھے بھارت اورکرزئی
کا ہاتھ بتایاجاتاہے۔بھارت چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طورپرافغان صدر
کوپاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کی کامیابی کی کوششوں کوسبوتاژکرسکے اوراس
کیلئے اس نے ہرطرح سے کوششیں شروع کردی ہیں جبکہ امریکا کی جانب سے پاکستان
کوایف سولہ طیاروں کی فروخت اور بھارتی واویلا کومستردکرنے، افغانستان میں
انہیں مداخلت کرنے اورپاکستان کیلئے مشکلات پیداکرنے سے باز رہنے کی تنبیہ
کے بعدبھارت نے شمالی اتحادکے ذریعے چھوٹے چھوٹے پروجیکٹس کے نام پرافغان
صدرکے خلاف محاذبنالیاہے۔افغان صدراورعبداللہ عبداللہ کے درمیان
شدیداختلافات پرگزشتہ دنوں امریکی صدرباراک اوبامانے بھی انہیں ٹیلیفون
کرکے متنبہ کیاہے کہ وہ افغان صدرکی مرضی کے بغیر ہندوستان اوردیگر ممالک
سے ایسے معاہدے کرنے سے بازرہیں کیونکہ اس سے پاکستان کوتشویش لاحق ہوسکتی
ہے۔پاکستان نے جس طرح امن مذاکرات کیلئے اپنی مخلص کوششوں کاثبوت دیاہے
اورمسلسل کوششیں کر رہاہے ،اس کی حمائت کرناضروری ہے۔ امریکی صدرنے انہیں
یاددلایاکہ انہیں چیف ایگزیکٹو بنانے میں جان کیری کابنیادی کردار رہاہے
لہنداعبداللہ عبداللہ کومذاکرات کامیاب بنانے اورافغانستان کے اندر امن
کیلئے صدرکے ساتھ مل کرکام کریں اگرایسانہ ہواتو پھرقانونی راستے سے
امریکاافغان عوام کی حمائت کرے گا۔
ادھر طالبان نے ایرانی میڈیا''پریس ٹی''پرنشرہونے والی اس شرانگیزخبرکی
سختی سے تردید کی ہے جس میں قطرمیں جرمنی کے سابق سفیرگنٹرمولاک کے اس دعوے
کوسختی سے مستردکیا ہے کہ بھارتی نیوی افسراور''را''کے جاسوس کلبوشن یادیو
کو افغان طالبان نے اغواء کرکے آئی ایس آئی کوفروخت کیاہے۔ طالبان کی
بلوچستان میں کوئی سرگرمیاں نہیں،طالبان صرف افغانستان میں امریکااوراس کی
کٹھ پتلی حکومت کے خلاف گوریلاجنگ لڑرہے ہیں۔ دراصل قطرمیں سابق جرمن
سفیرہندوستان کومحفوظ راستہ فراہم کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ
پاکستان کی جانب سے تمام شواہد حاصل کرنے کے بعد چارسدہ سے افغان نیشنل
ڈائریکٹوریٹ آف ڈیفنس کے جس ایجنٹ کوگرفتارکیا گیا ہے،اس کے ننگرہار میں
قائم بھارتی قونصل خانے کے ساتھ روابط تھے ۔
پاکستانی اداروں کی جانب سے جاسوسی کے اس نیٹ ورک کے اہم کرداروں کی
گرفتاری کے بعد بھارت کسی بھی عالمی فورم پریہ ثابت نہیں کرسکتاکہ بھوشن
''را''کاافسرنہیں اوروہ پاکستان میں دہشتگردانہ کاروائیوں میں ملوث نہیں
رہا،اس لئے بھارت نے اب جرمنی کے سفیرکواستعمال کرکے ان سے کہلوایا
ہے۔بھوشن کی سرگرمیوں پرآئی ایس آئی نے پچھلے چھ ماہ سے زائدعرصے سے نظر
رکھی ہوئی تھی ۔ بھارتی جاسوس کے خلاف تمام ٹھوس شواہدحاصل کرنے کے بعداس
پرہاتھ ڈالاگیا۔دوسری جانب بھارت کے معاملات پرگہری نظررکھنے والے اہم
ذرائع کاکہناہے کہ طالبان کے ہاتھوں بھوشن کے اغواء اورپھرآئی ایس آئی کو
فروخت کئے جانے کی من گھڑت کہانی کے پیچھے امریکااورہندوستان کاہاتھ ہے ۔
امریکااوربھارت خودتویہ کہہ نہیں سکتے تھے لہندااس کام کیلئے جرمنی کے ایک
سابق سفیرکاسہارالیاگیاجس کی وجہ شہرت طالبان کی مخالفت اورامریکی پالیسیوں
کی ہر فورم پر بھرپور تعریف کرناہے۔
اسی پراکتفانہیں کیاگیابلکہ امریکانے ایک تیرسے کئی شکارکرتے ہوئے امریکا
کی آمرانہ پالیسیوں کے ناقدین کے ساتھ ساتھ جہاں روسی صدرپیوٹن اور چین کے
مفادات پربھرپوروارکیاہے وہاں پاکستان کو مزیددباؤمیں ڈالنے کیلئے جرمنی کے
ایک اخبار میں''پانامہ لیکس''کے حوالے سے پاکستانی سیاستدانوں کے کالے دھن
کے حوالے سے خبرکی اشاعت بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے تاکہ پاکستانی
میڈیامیں بھوشن کے اعترافات اورپاکستان میں بھارت کے خلاف ردّعمل سے توجہ
ہٹاکرحکمرانوں کے کالے دھن پرمرکوزکی جاسکے اوراس حوالے سے وزیراعظم
نوازشریف کودباؤ میں لاکرکوئی سودے بازی کی جا سکے۔ |