نباتات وجمادات کی حیات و شعور
(syed imaad ul deen, samundri)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے
ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ تم بکریوں
اور جنگل سے محبت کرتے ہو، پس جب تم اپنی بکریوں اور اپنے جنگل میں ہو تو
بلند آواز سے اذان دیا کرو، کیونکہ موذن کی آواز کو بھی جن یا انسان یا جو
چیز بھی سنے گی وہ قیامت کے دن اس کی اذان کی گواہی دے گی۔ (یعنی جمادات
اور نباتات میں سے ہر چیز تمہاری اذان کی گواہی دے گی اور ان چیزوں کا
گواہی دینا اس پر موقوف ہے کہ وہ ان کو اذان دیتا ہوا دیکھیں اور ان کی
اذان سنیں اور دیکنا اور سننا ان کی حیات اور ان کے شعور کی دلیل ہے۔)
(صحیح البخاری رقم الحدیث :609 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :723، مسند احمد
رقم الحدیث :11413 عالم الکتب بیروت)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مسجد کی چھت کھجور کے
شہتیروں کی بنی ہوئی تھی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مسلمانوں کو
خطبہ دیتے تو کھجور کے ایک شہتیر سے ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے، جب آپ کے
لئے منبر بنا دیا گیا تو آپ اس پر خطبہ دیتے تھے، تب ہم نے اس شہتیر سے
ایسی آواز سنی جیسے دس سال کے حمل والی اونٹنی کے رونے کی آواز آتی ہے، پھر
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس آئے اور اس کے اوپر اپنا ہاتھ رکھ
دیا تو وہ شہتیر پر سکون ہو یا (اس شہتیر کا رونا اور آپ کے فراق سے غم زدہ
ہونا بھی اس کی حیات اور اس کے شعور کی دلیل ہے۔) (صحیح البخاری رقم الحدیث
:3585 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :495 صحیح ابن حبان رقم الحدیث :1124، مسند
احمد رقم الحدیث :21295 عالم الکتب بیروت)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب کھانا کھایا جاتا تھا تو
ہم کھانے کی تسبیح کی آواز سنتے تھے (یہ اس طعام کی حیات اور اس کے کلام
کرنے کی دلیل ہے۔) (صحیح البخاری رقم الحدیث :3579)
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب کھانا کھایا جاتا
تھا تو ہم کھانے کی تسبیح کی آواز سنتے تھے (یہ اس طعام کی حیات اور اس کے
کلام کرنے کی دلیل ہے) (صحیح البخاری رقم الحدیث :3579)
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ کے ایک راستہ میں جا رہا تھا، آپ کے
سامنے جو پہاڑ یا درخت آتا تھا وہ یہ کہتا تھا، السلام علیک یا رسولاللہ !
(سنن الترمذی رقم الحدیث :3626، سنن الدارمی رقم الحدیث :21 دلائل النبوۃ
للبیھقی ج ٢ ص 153 شرح السنہ رقم الحدیث :3710)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ (صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا میں کیسے پہچانوں کہ آپ نبی ہیں ؟ آپ نے
فرمایا : اگر میں اس کھجور کے خوشہ کو بلائوں تو تم میرے رسول اللہ ہونے کی
شہادت دو گے ؟ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خوشہ کو
بلایا تو وہ درخت سے اتر کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے گرگیا
، آپ نے اس سے فرمایا ” لوٹجا“ تو وہ اپنی جگہ پر لوٹ گیا، سو وہ اعرابی
مسلمان ہوگیا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث :3628 مسند احمد ج ١ ص 223 سنن
الدارمی رقم الحدیث :24 المعجم الکبیر رقم الحدیث :12622 المستدرک ج ٢ ص
620 دلائل النبوۃ للبیھقی ج ٦ ص 15)
حضرت عمر بن الخطاب سے روایت ہے کہ ایک گوہ نے آپ کی نبوت کی شہادت دی اور
کہا آپ رب العلمین کے رسول اور خاتم النبین ہیں۔ (المعجم الصغیر رقم الحدیث
:948 حافظ ابن حجر عسقلانی، علامہ آلوسی اور مفتی محمد شفیع نے اس حدیث سے
استدلال کیا ہے۔
حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ آپ کے بلانے پر ایک درخت زمین کو شق کرتا ہوا
آیا اور آپ کے سامنے کھڑے ہو کر تین بار آپ کی نبوت کی شہادت دی پھر آپ کے
حکم سے واپس چلا گیا، یہ دیکھ کر ایک اعرابی مسلمان ہوگیا۔ (المعجم الکبیر
رقم الحدیث :13582 مسند ابویعلی رقم الحدیث :5662 مسند البزار رقم الحدیث
:2411 حافظ الھیثمی نے کہا امام طبرانی کی سند صحیح ہے، مجمع الزوائد رقم
الحدیث : (14085
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
نے ایک ہر نی کو آزاد کردیا تو اس نے کہا لا الہ الا اللہ انکہ رسول اللہ
(المعجم الکبیرج ٢٣ ص 331) اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔
حضرت یعلی سے روایت ہے کہ اونٹ نے آپ سیشکایت کی کہ وہ بوڑھا ہوگیا ہے اور
اب اس کے مالک اس کو ذبح کرنا چاہتے ہیں تو آپ نے اس کی شکایت زائل کردی۔
(مسند احمد ج ٤ ص 173)
مامن شیء فیھا الایعلم انی رسول اللہ الا کفرۃ اور فسقۃ الجن والانس۔ روئے
زمین کی ہر چیز کو علم ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ماسوا انسانوں اور جنات
میں سے کفار اور فساق کے۔ (المعجم الکبیرج ٢٢ ص 261-262 مسند احمد ج ٣ ص
310 مسند البزار رقم الحدیث : ٢٤٥٢ )
ان تمام احادیث میں یہ دلیل ہے کہ تمام جمادات، نباتات اور حیوانات کو اللہ
تعالیٰ نے حیات اور شعور عطا فرمایا ہے وہ کلام سمجھتے ہیں اور گفتگو کرتے
ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کا آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں سے کلام فرمانا اور
ان کا جواب دینا مستبعد نہیں ہے۔
|
|