ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح ، آپ کی حرمِ نبوی میں آمد اور حجاب کا حکم

ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا ڈاکٹر مشاہدرضوی کی کتاب کے چنداوراق

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہونے کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے ہوا ۔ اُن کی والدہ امیمہ بنت عبدالمطلب ، نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی پھوپھی ہیں ۔ اس طرح وہ نسبی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی زاد ہیں۔ ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہاکا پہلا نکاح حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا ۔ جو کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔ جب انھوں نے طلاق دے دی تو اللہ رب العزت جل شانہٗ نے ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہاکا نکاح سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے کردیا۔

حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح
جیسا کہ ابھی ذکر کیا گیا کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہاکا نکاح پہلے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے کیا تھا ۔حضرت زید رضی اللہ عنہ کے والد کانام حارثہ اور والدہ کا نام سعدیٰ تھا۔ ان کی والدہ اپنے بچیّ (یعنی حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ) کو لے کر مکۂ مکرمہ جارہی تھیں کہ لٹیروں نے حضرت زید کو اُن کی ماں سے چھین کر مکہ کے بازار میں بیچ دیا۔

ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے حکیم بن حزام نے ان کو چار سود رہم میں خرید لیااور اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا۔ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہوا توانھوں نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو ہِبہ کے طور پر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا ۔رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد فرماکر اپنا بیٹا بنالیا اور وہ زید بن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نام سے مشہور ہوگئے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ان کو اتنی بھلی اور اچھی لگی کہ جب ان کے والد اور چچا کو خبر لگی اور وہ مکۂ مکرمہ ان کو لینے کے لیے آئے تو وہ اُن کے ساتھ نہ گئے۔ جب کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مکمل اختیار دے دیا تھا کہ تم چاہو تو چلے جاؤ ۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد ، چچا اور سارے خاندان والوں پر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ گوارا کیا ۔ جب حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بالغ ہوگئے تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح اپنی باندی ’’برکہ‘‘ سے کردیا ۔ جن کی کنیت اُمِ ایمن تھی۔انھوں نے بچپن میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کی تھی۔ جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد یا والدہ کی ملکیت تھیں۔ ان کی وفات میں بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثہ میں آئیں۔ جنھوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں اسلام قبول کرلیا تھا اور مدینۂ منورہ ہجرت بھی کی تھی۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بڑی عزت فرماتے تھے۔ اور یہ فرماتے تھے کہ میری والدہ کے بعد امِ ایمن میری والدہ ہیں کبھی فرماتے تھے کہ ام ایمن میرے خاندان کا بقیہ ہیں۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی والدہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہاہی تھیں۔

حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا حضرت زیدرضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں اور آپ نے ان کادوسرا نکاح حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے کرنا چاہااور پیغام بھیج دیا۔ جب یہ پیغام پہنچا تو حضرت زینب اور ان کے بھائی عبدالرحمن بن جحش نے اس کو مکروہ سمجھا کہ ایک قریشیہ کا نکاح آزاد کردہ غلام سے ہو؟ چوں کی یہ پیغام نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تھا اور حضرت زینب بنت جحش اور ان کے بھائی نے اس کو مکروہ جانا اس لیے اللہ عزوجل کو یہ بات پسند نہ آئی اور اس نے یہ یہ آیت کریمہ نازل فرمائی :
وما کان لمؤمن و لا مؤمنۃٍ اذا قضیٰ اللہ ورسولہٗ امرً۱ان یکون لہم الخیرۃ من امرہم ومن یعص اللہ ورسولہٗ فقد ضل ضلالا مبینا۔( سورہ احزاب۳۶)
ترجمہ: اور کسی مسلمان مرد نہ کسی مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرمادیں تو انھیں اپنے معاملہ میں کچھ اختیار رہے۔اور جو حکم نہ مانے اللہ اور اس کے رسول کا وہ بے شک صریح گمراہی میں بہکا۔

حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا اور ان کے بھائی کو اس آیت کے نازل ہونے کی خبر لگی تو دونوں اس پر راضی ہوگئے کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح ہوجائے۔ چناں چہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے حضرت زینب کا نکاح فرمادیا اور مہر میں ۱۰؍ دینار ، ۶۰؍ درہم ، ۴؍ کپڑے ، ۵۰؍ مُدغلہ، ۳۰؍ صاع کھجوریں مقرر ہوئیں۔ ( مُد اور صاع اس زمانے کے پیمانے کے نام ہیں ، جس طرح آج کلو گرام ہے) حضرت زینب رضی اللہ عنہا اپنے شوہر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے پاس رہنے لگیں ۔

نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم زبانی تعلیمات تو دیتے ہی تھے ساتھ ہی عملی طور پر بھی آپ لوگوں کو اسلامی احکام و آداب سکھاتے تھے۔ حضرت زینب بنت جحش اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کا نکاح فرمادینے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً اس بات کو ثابت کردیا کہ اسلام میں نکاح کے لیے دین داری کی بلندی تمام بلندیوں سے افضل ہے۔نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کو اس طرح واضح فرمایا کہ اپنی حقیقی پھوپھی کی بیٹی کا نکاح ایک ایسے آزاد کردہ غلام سے کرکے دکھایا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرماں برداری میں سراپا ڈوبے ہوئے تھے۔ اس نکاح کے بارے میں اللہ جل شانہٗ نے قرآن پاک مذکورہ بالامیں آیت کریمہ نازل فرماکر نسب پر فخر کرنے والوں کو دین داری کی تاکید اور اہمیت بتادی ۔


حضرت زینب بنت جحش کانبیِ کریم ﷺ سے نکاح
اور آسمانی منظوری و بشارت
حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہاحضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں ایک سال یا اس سے کچھ زیادہ رہیں۔ لیکن دونوں میں نباہ نہیں ہوا ۔ یہاں تک کہ ایک روز حضرت زید رضی اللہ عنہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میںحاضر ہوئے اور عرض کیا کہ :’’ یارسول اللہ ! زینب کی تُرش کلامی نے مجھے ستادیا ہے لہٰذا ،مَیں طلاق دینا چاہتا ہوں ۔‘‘
اس پر نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا :’’ امسک علیک زوجک واتق اللّٰہ ۔ (اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں رکھو اور اللہ سے ڈرو) ‘‘۔

لیکن پھر بھی آپس میں دونوں کا میل نہیں ہوسکا اورآخر کار نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے حضرت زید رضی اللہ عنہ نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی۔ جب عدت پوری ہوگئی تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ ہی کو اپنے نکاح کا پیغام دے کر حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا وہ اس وقت آٹا گوندھ رہی تھیں۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف پشت کرکے فرمایا:’’ اے زینب! خوش خبری قبول کرو۔ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے تاکہ تم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نکاح کا پیغام دوں۔ ‘‘

یہ سن کر حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے فرمایا:’’ مَیں اللہ سے مشورہ لیے بغیر کوئی کام نہیں کرسکتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے استخارہ کرنے کے لیے نماز پڑھنی شروع کردیں۔
یہاں انھوں نے نماز شروع کی اور وہاں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی :
فلما قضیٰ زیدُ ُُ منہا وطرًا زوّجنٰٰکہا (احزاب۳۷)
ترجمہ: پھر جب زید کی غرض اس سے نکل گئی تو وہ ہم نے تمہارے نکاح میں دے دی۔
لہٰذا حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہوکر ازواجِ مطہرات میں شامل ہوگئیں ۔ ام المؤمنین کے شرف سے نوازے جانے کے بعد آپ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری ازواج کے مقابلے میں فخر کیا کرتیں اور کہتیں کہ:’’ تمہار انکاح تمہارے عزیزوں نے نبیِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہے جب کہ میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے ۔‘‘

بعض دوسری روایات میں ہے کہ ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہانبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیویوں سے بہ طورِ فخر کہا کرتی تھیں کہ تمہارے نکاح تمہارے والدین یا دوسرے رشتے داروں نے کیا ہے اور میرا نکاح عرش والے نے کیا ہے ۔ ‘‘

علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’جنتی زیور ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:’’ آیت کریمہ (فلما قضیٰ زید۔۔۔۔الخ ) کے نازل ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ :’’ کون ہے جو زینب کے پاس جاکر اس کو یہ خوش خبری سنادے کہ اللہ تعالیٰ نے میرا نکاح اس کے ساتھ کردیا ؟‘‘ یہ سُن کر ایک خادمہ دوڑی ہوئی گئی اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کو یہ خوش خبری سنادی ۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو یہ خوش خبری سُن کر اتنی خوشی ہوئی کہ اپنے زیورات اتار کر خادمہ کو انعام میں دے دیا۔ اور خود سجدہ میں گر پڑیں۔ اور پھر دو مہینے لگاتار شکریے کا روزہ رکھا۔نکاح کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی بڑی دعوتِ ولیمہ فرمائی کہ کسی بیوی کے نکاح پر اتنی بڑی دعوتِ ولیمہ نہیں کی تھی۔ (ص ۳۷۵)

حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی شادی پر ولیمہ
ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہاسے نبی کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ذی قعدہ ۵ھ میں ہوا بعض نے ۳ھ بھی لکھا ہے مگر صحیح ۵ھ ہے۔ نکاح کے بعد دوسرے روز صبح کو جب دن چڑھ گیا تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیمے کی دعوت رکھی۔ ایک بکری ذبح فرما کر ولیمہ کیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ ایسا ولیمہ آپ نے کسی اور بیوی کا نہیں کیا۔ ان کے الفاظ اس طرح ہیں:
’’ ما اولم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم علی امراۃ من نسائِہٖ اکثر ا وافضل ما اولم علیٰ زینب ‘‘۔
ترجمہ:حضرت زینب رضی اللہ عنہ سے شادی کرکے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)نے جوولیمہ کیا اس سے بہتر ولیمہ آپ (ﷺ)نے کسی اور بیوی سے شادی کرنے پر نہیں کیا۔‘‘( مسلم شریف)

نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بکری ذبح فرمائی اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے بھی اس موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بابرکت خدمت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ حریرہ بناکر ایک برتن میں بھیج دیا اور تقریباً ۳۰۰؍ افراد نے خوب پیٹ بھر کر کھایا۔

نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جاؤ فلاں فلاں کو اور ان کے علاوہ جو تم کو ملے بلالاؤ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مَیں بہت سے لوگوں کو بلالیا جس کے نتیجے میں آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے چبوترہ اور حجرہ میں آدمی ہی آدمی بھر گئے ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے فرمایا کہ دس دس کا حلقہ بنالو اور ہر شخص اپنی طرف سے کھائے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ نے اپنا دستِ مبارک اس کھانے میں رکھا اور کچھ پڑھا ۔ اس کھانے میں اتنی برکت ہوئی کہ سب نے کھالیا تب بھی ختم نہ ہوا۔ سب فارغ ہوگئے تو سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے انس! اس کھانے کو اٹھا لو مَیں نے اسے اٹھایا تو یہ فیصلہ نہ کرسکا کہ جب یہ کھانا مَیں نے لوگوں کے کھانے کے لیے رکھا تھا اس وقت زیادہ تھا یا اب زیادہ ہے۔ غرض یہ کہ اس میں اتنی برکت ہوئی کہ سیکڑوں آدمیوں کے کھالینے پر بھی سارا بچ گیا ۔ بل کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پہلے سے زیادہ ہے۔( مسلم شریف) سبحان اللہ! پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں کی برکتوں کے کیا کہنے !

حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی شادی اور حجاب کا حکم
ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہاسے نبی کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کے وقت تک پردے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد ولیمہ کیا تو اس موقع پر جب لوگ دعوتِ ولیمہ میںشرکت کے لیے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت کدہ پر حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی نئی دلہن ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا دیوار کی طرف منہ کرکے علاحدہ پردہ ڈالے بغیر بیٹھی رہیں ۔ یہاں تک کہ پردہ کا حکم نازل ہوگیا ۔ جس کی تفصیل حضرت انس رضی اللہ عنہ اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ پردہ کا حکم کب اترا اور کیوں اترا؟ اس کو مَیں سب لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں ۔ فرماتے ہیں حضرت انس رضی اللہ عنہ کہ ’’ سب سے پہلے پردہ کا حکم اس وقت نازل ہوا جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہاسے نکاح کے بعد دوسرے روز صبح کو ولیمہ کیا۔ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے لوگوں کو بلایا ۔ لوگ آئے اور کھانا کھا کر چلے گئے لیکن چند آدمی وہیں باتیں کرتے ہوئے رہ گئے اور بہت دیر لگادی۔ نبیِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بہت ایذا پہنچی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ یہ لوگ چلے جائیں لیکن لحاظ کی وجہ سے ان کو کہہ نہ سکے۔ بل کہ ان کے اٹھانے کے لیے یہ عمل کیا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چل دئیے اور مَیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل کھڑا ہوا تاکہ وہ لوگ مکان سے نکل جائیں۔ حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کی چوکھٹ تک آئے پھر یہ سمجھ کر واپس ہوگئے کہ اب وہ لوگ چلے گئے ہوں گے۔ مَیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ واپس ہوگیا۔ آکر دیکھا کہ وہ لوگ ابھی بیٹھے ہی ہیں ۔لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر واپس ہوئے اور مَیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمپھر ام المؤمنین حضر ت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کی چوکھٹ تک آئے اور یہ سمجھ کر واپس ہوگئے کہ اب چلے گئے ہوں گے۔ مَیں بھی آپصلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ واپس ہوگیا اِس مرتبہ آکر دیکھا کہ لوگ چلے گئے ہیں ۔ اِس کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے او راپنے درمیان پردہ ڈال دیا اور پردہ کی آیت نازل ہوگئی۔‘‘

یہ روایت بخاری شریف کی ہے۔ جب کہ مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے فرماتے ہیں حضرت انس رضی اللہ عنہ کہ :’’جب لوگ نکل گئے تو مَیں بھی آپ کے ساتھ اندر جانے لگا لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اوراپنے درمیان پردہ ڈال لیا اور پردہ کا حکم نازل ہوا اور لوگوں کو نصیحت ہوئی ۔پردے کی جو آیت اس وقت نازل ہوئی وہ یہ ہے :
یَا اَیُّہَا الَّذِینَ اٰمنوا لا تدخلو بیوت النبیِ الا یؤذن لکم الیٰ طعامٍ غیر ناظرین اناہٗ ولٰکن اذا دعیتم فادخلوا فاذا طعمتم فانتشروا ولا مستانسین لحدیث ان ذالکم کان یوذی النبی فیستحیٖ منکم واللہ لا یستحیٖ من الحق واذا سالتموھن من وَّرائِ حجاب ذالکم اطہر لقلوبکم وقلوبھن وما لکم ان تؤذو رسول اللہ ان تنکحوا ازواجہٗ من بعدہٖ ابداان ذالکم کان عند اللہ عظیما۔(سورہ احزاب ۵۳)۔‘‘
ترجمہ: اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں نہ داخل ہو جب تک اِذن نہ پاؤ، مثلاً کھانے کے لیے بلائے جاؤیوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو، ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہواور جب کھا چکو تو متفرق ہوجاؤنہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ، بے شک اس میں نبی کوایذا ہوتی تھی تو وہ لحاظ کرتے تھے، اور اللہ حق فرمانے میں نہیں شرماتااور جب تم ان سے برتنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو اس میں زیادہ ستھرائی ہے تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کی ، اورتمہیں نہیں پہنچتا کہ رسول اللہ کو ایذا دو، اور نہ یہ کہ ان کے بعد کبھی ان کی بیبیوں سے نکاح کروبے شک یہ اللہ کے نزدیک بڑی سخت بات ہے ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’ یہ آیت سب سے پہلے مَیں نے سُنی یہ بھی فرماتے تھے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکل کر لوگوں کو یہ آیات سنادیں۔‘‘ ( مسلم شریف)
 

Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 597211 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More