قرآن پاک فرماتا ہے (نَحنُ یَرْ زُقُکُم وَ
اِ یَّا ھُمْ) ۲ /۱۵۳۔ ہم تمہارے اور تمہاری اولاد کے رزق کی زمہ داری لیتے
ہیں ۔ یہ ذمہ داری ، صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ اس مملکت کی
حدود میں بسنے والے تمام ذی حیات کو محیط ہوتی ہے اس لئے کہ جس خدا کے نام
پر یہ مملکت قائم ہوتی ہے ، اس کا اعلان ہے کہ وَمامِن دَآ بَّۃٍ فِی
الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا۔۶/۱۱ ۔ روئے زمین پر بسنے والا
کوئی جاندار ایسا نہیں جس کے رزق کی ذمہ داری اﷲ تعالیٰ پر نہ ہو ۔ ‘‘ اﷲ
تعالیٰ کی یہ ذمہ داری اسلامی مملکت کے ہاتھوں کس طرح پوری ہوتی ہے ۔ اس کا
اندازہ حضرت عمر ؓ کے اِس اعلان سے فرمائیں جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ
’’اگر دجلہ کے کنارے کوئی کتّا بھی بھوک یا پیاس سے مر گیا تو خدا کی قسم
عمر سے اس کی باز پرس ہوگی ۔ ‘‘اسلامی مملکت کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ
تمام افراد مملکت (بلکہ اس حدود میں بسنے والے تمام جانوروں تک ) کے رزق کی
ذمہ داری اپنے سر پر لے ۔ جو مملکت اس ذمہ داری کو اپنے سر نہیں لیتی وہ
اسلامی مملکت نہیں کہلاسکتی ۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مملکت ایسی
عظیم ذمہ داری کو پورا کس طرح کرسکتی ہے ؟۔۔
قرآن پاک اس کا بھی جواب دیتا ہے ۔۔ کہ ’’جس مملکت نے خدا کی ذمہ داری کو
پورا کرنے کا فریضہ اپنے سر لیا ہے ، رزق کے سرچشمے اور وسائل پیداوار جو
خدا کی ملکیت ہیں ، اس مملکت کی تحویل میں چلے جائیں گے ۔تاکہ وہ ان کا
ایسا انتظام کرے جس سے تمام افراد کی پرورش ہوتی چلی جائے ۔ یہ وجہ ہے کہ
قرآنی نظام ربوبیت میں ، رزق کے سرچشموں پر کسی کی ذاتی ملکیت کا سوال پیدا
نہیں ہوتا ۔ نہ افراد کی اور نہ مملکت کی ، مملکت بھی صرف ان کا انتطام
کرتی ہے ۔ رزق کے سرچشموں میں بنیادی حیثیت ارض /زمین ) کو حاصل ہے جس سے
نہ صرف اناج پیدا ہوتا ہے بلکہ تمام مصنوعات کیلئے خام مسالہ بھی زمین سے
برآمد ہوتا ہے ۔ ارض کیلئے قرآن نے فرمایا ہے کہ اسے خدا نے مخلوق کی پرورش
کیلئے پیدا کیا ہے ۔ ’’والاَرْضَ وَ ضََعَھَا لِلْاَنَامِ ۱۰/۵۵‘‘ اس لئے
اس کا انتظام ایسا ہونا چاہئے کہ اس کا پیدا کردہ رزق تمام ضرورتمندوں کی
ضروریات پورا کرنے کیلئے یکساں طورپر کھلا رہے ۔ پھر قرآن پاک فرماتا ہے کہ
’’سَوَا ء‘ٗ لِسَّائِلیْنَ ۔ ۱۰/۴۱۔ اس لئے کہ ۔ مَتَاعََالِلْمُقْوِیْنَ ۔
۷۳/۵۶ہے ۔ یعنی بھوکوں کیلئے سامانِ زندگی ۔ اسے اسی مصر ف میں لانا چاہئے
۔ اگر یہ افراد کی ملکیت میں چلی جائے تو اس سے یہ مقصد پورا نہیں ہوتا ۔
۔۔اس لئے اسے معاشرہ کی اجتماعی تحویل میں رہنما چاہئے تاکہ جس مقصد کیلئے
اسے پیدا کیا گیا ہے وہ مقصد پورا ہوتا رہے ۔ اس حقیقت کو قرآن سورۃ
الواقعہ میں بڑے دل نشین پیرا میں بیان فرماتا ہے ۔ اَفَرَ ئَیْتُمْ مَّا
تَحْرُثُوْن o۔ کیا تم نے اس پر بھی غور کیا جسے تم بوتے ہو ؟۔۔۔تم اُتنا
ہی کرتے ہو کہ زمین میں ہل چلاتے ہو، اُسے کاشت کے قابل بناتے ہو ۔ پھر اس
میں بیج ڈال دیتے ہو ۔ اس کے بعد سوچو ۔۔۔۔۔
قرآن فرماتا ہے ’’ءَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَۃ اَمْ نَحْنُ الزَّارِعُوْنَo۔
کیا اِس میں سے پودا تم پیدا کرتے ہو یا ہمارا قانون پیدا کرتا ہے ؟۔ پھر
قرآن پاک فرماتا ہے’’ لَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنٰہُ حُطَاماََ فَظَلْتُمْ
تَفَکَّھُوْنَo۔ اِنَّا لَمُغُرَمُوْنَo۔ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُوْنَo کہ
اگر ہمارا قانون اسکے خلاف چاہتا تو ہم اس کھیتی کو خشک سالی سے چورا چورا
کردیتے اور تم حیرت میں گم ہوجاتے کہ یہ کیا ہوگیا ؟( ہم پر مفت میں چٹی پڑ
گئی ) فصل تو ایک طرف ہم بیج سے بھی محروم ہوگئے ۔ ۔۔پھر آگے بڑھو ۔۔۔جی ۔
قرآن فرماتا ہے ’’اَفَرَءَ یْتُمْ الْمَآ ءَ اَلَّذِیْ تَشُرَبُوْنَ o ۔
کیا تم نے اس پانی پر بھی غور کیا جو تمہارے لئے زندگی کا سامان اور تمہاری
کھیتی کے اُگنے کا ذریعہ بنتا ہے ؟ ءَ اَنقتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ
الْمُزٰانِ اَمْ نَحْنُ الُمُنْزِلُونْoکیا اسے بادل سے تم برساتے ہویا ہم
برساتے ؟ ۔ اگر ہمارا قانون دوسری طرح چاہتا توہم اسے (ایسا) کھاری بنادیتے
جسے نہ تم پی سکتے نہ اس سے تمہاری کھیتیاں اُگ سکتیں۔ سو تم اس کے قدردان
کیوں نہیں ہوتے ؟ ۔ کیا تم نے اس آگ پر بھی غور کیا جسے تم جلاتے ہو ۔۔ ؟
کیا اس درخت کو جس سے آگ کا سامنا ملتا ہے تم اُگاتے ہو یا ہم اُگاتے ہیں
؟۔ ذرا سوچو کہ جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس میں تمہارے لئے عبرت کی ہزار
داستانیں پوشیدہ ہیں ۔ اس سے سبق حاصل کرو ۔ یہ سب کہ سب کچھ تمہارا پیدا
کردہ نہیں ۔اﷲ تعالیٰ کا پیدا کردہ ہیں ۔ تم اس میں صرف محنت کرتے ہو ۔ اس
لئے اس کھیتی میں تمہارا حصہ تمہاری محنت کے بقدر ہے ۔ باقی سب کچھ اﷲ
تعالیٰ کے قانون کے مطابق بھوکوں کے لئے سامانِ زیست بنایا ہے ۔ اس لئے اس
اضافی رزق کو ان کی ضروریات کے لئے کھلا رکھو ۔ سارے کا سارا اپنی ملکیت نہ
سمجھ لو ۔
اقبال کے الفاظ میں غور کریں۔
پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون
کون دریاؤں کی موجوں سے اُٹھاتا ہے سحاب
کون لایا کھینچ کر پچھم سے پوسازگار
کاک یہ کس کی ہے کس کا ہے یہ نورِ آفتاب
کس نے بھردی موتیوں سے خوشہء گندم کی جیب
موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب
دِہ خدایا ! یہ زمین تیری نہیں ، تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں ، تیری نہیں ، میری نہیں
اب یہاں بات قابل ذکر یہ ہے کہ جس ملک کی مملکت اور حکمران ظالم ہو اور وہ
ان احکامات اور دلائل کو پیچھے چھوڑ کر اپنا قانون نافذ کرتے ہیں اور صرف
اپنے ہی مفادات کی خاطر مملکت کا نظام چلاتے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ اس
مملکت میں بسنے والے جاندار مخلوق کو اُنکا حق مل سکے۔۔۔؟ نظام کو چلانے
کیلئے ترتیب اور ترتیب بنانے کیلئے علم کی ضرورت ہوتی ہے وہ علم جو ہمارے
رب العزت نے ہمیں کھلی نشانی یعنی قرآن پاک عطا کیا ہے جس میں سارے جہاں کے
نظام کو درست اور پائیدار بنانے کیلئے رہنمائی موجود ہے ۔ مگر ہمارے
حکمرانوں نے قوم کو اس طرح حیرانگی (confusion)کے دلدل میں دھکیل دیا ہے کہ
قوم سوچتی رہتی ہے کہ رزق کا وعدہ تو اﷲ تعالیٰ نے کیا ہے ۔۔ پھر ہم کیوں
اتنی محنت کرکے رزق کیلئے دربدر ٹھوکریں کھارہے ہیں ؟ کیوں ہم اپنے اصل
حقوق سے محروم ہیں؟ انسان تو انسان ہیں محنت اور مشقت برداشت کرکے رزق کما
لیتے ہیں مگر جانوروں کا کیا حال ہے آپ لوگوں کے سامنے ہیں سب کچھ کہ کس
طرح اﷲ تعالیٰ کی مخلوق ذلیل وخوار کئے جارہے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ اِن سب حالات کے ذمہ دار کون ہیں ۔۔۔۔؟ رزق کی ذمہ داری اﷲ تعالیٰ نے لی
ہے اور رب العزت نے روئے زمین پر تمام وسائل پیدا کئے ہیں اور پیدا ہورہے
ہیں پھر کیوں ہم اُن وسائل اور پیداوار سے محروم ہیں ۔ واضح بات ہے کہ اﷲ
تعالیٰ کے پیدا کردہ تمام وسائل اور پیداوار پر مملکت کا قبضہ ہے مگر وہ یہ
ذمہ داری نہیں نبھاسکتے ۔ وہ اِن سب وسائل کو اپنی ملکیت سمجھ کر کھلے عام
اﷲ تعالیٰ کی ملکیت پر قبضہ جماکر قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔۔۔۔۔
جس دور میں لوٹ جائے غریبوں کی کمائی
اُس دور کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے
جس کھیت سے دھقان کو میسر نہ ہو روزی
اُس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
|