بیرون ملک پڑے سرمائے پرشور مچاتے رہنے
کاتو کوئی فائدہ نہیں۔ملک کو اصل فائدہ تو اس کی واپسی کا ہے۔اس پر کوئی
بھی بات نہیں کررہا۔گزشتہ25سالوں سے جائز یاناجائز طریقوں سے قومی سرمایہ
ملک سے باہر جارہا ہے۔کسی بھی حکومت نے اسے روکنے کے لئے کرنا تو کچھ
کیاتھا حکمرانوں نے اپنے وسائل بھی دوسرے ممالک میں منتقل کردیئے۔ملک میں
ترقی کے لئے سرمایہ دستیاب نہیں ہے۔اور ہم اپنے روزمرہ کے کاموں کے لئے
اندرونی اور بیرونی قرض لیتے رہتے ہیں۔گلشن کاکاروبار اب قرض پر چل رہا
ہے۔ریاست اب عالمی اداروں کے قرض کے نیچے دب چکی ہے۔اگرموجودہ حکمران اپنے
ملک سے مخلص ہیں تو انہیں اس باہر پڑے ہوئے سرمائے کو واپس لانے کا کوئی
ماثر طریقہ اپنانا چاہئے۔پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلایا جائے۔وہ صرف اور
صرف ایک نقطہ پر Debateکرے کہ غیر ملکوں میں پڑے پاکستانی سرمائے کو کیسے
واپس لایا جائے۔اس کے لئے مضبوط اور ماثرقانون سازی کی جائے۔دہشت گردی کے
لحاظ سے ہمارے حالات اب کافی بہتر ہوگئے ہیں۔فوج کے ضرب عضب نے دہشت گردوں
کا نیٹ ورک ختم کردیا ہے۔بچے کھچے ٹھکانوں کے خاتمے کا عمل جاری ہے۔2سال کے
اندر بجلی اور گیس کی کمی پوری ہوتی نظر آتی ہے۔سرمایہ کاری کے لئے ماحول
سازگار نظر آرہا ہے۔جولائی تا جنوری2016کے عرصہ میں دوسرے ممالک سے
صرف615ملین ڈالر غیرملکی سرمایہ کاری آئی۔اسی عرصہ میں254ملین ڈالر پاکستان
میں قائم غیر ملکی کمپنیوں نے اپنے ممالک کو ارسال کئے۔یوں دیکھا جائے تو
نیٹ سرمایہ مزید کم ہوگیا۔عرب ممالک میں تیل کی قیمتیں کم ہونے سے غیر ملکی
ترسیلات زر میں اضافہ ہونے کاکوئی امکان نہ ہے۔کب تک ہم غیر ملکی اداروں سے
قرض لیکر اپنے روزمرہ کے امور سرانجام دیتے رہیں گے۔پارلیمنٹرین حب الوطنی
کا مظاہرہ جرات سے کریں۔ایسا قانون بنائیں کہ ایک متعین عرصے میں تمام کا
تمام سرمایہ جو دوسرے ممالک میں موجود ہے۔وہ واپس پاکستان آجائے۔صرف اپیلوں
اور قراردادوں سے تو بات نہیں بنے گی۔سرمایہ کی واپسی کے لئے قانون بنے اور
اس پر عمل درآمد ہو۔قانون پر عمل درآمد سب سے پہلے حکمرانوں سے شروع
ہو۔محترم وزیر اعظم نواز شریف صاحب اپنے بیٹوں کے نام تمام اثاثے فروخت
کرکے وسائل پاکستان منتقل کریں۔جناب اسحاق ڈار بھی باہر کے ملکوں میں بڑے
اثاثے رکھتے ہیں۔انہیں بھی جرات کرنی چاہیئے۔مسلم لیگ ن کے باقی پارلیمانی
ارکان بھی پیروی کریں۔آصف علی زرداری صاحب اور ان کے دوست واحباب بھی حب
الوطنی کا مظاہرہ کریں۔رہائش کے لئے تو انہوں نے پاکستان میں بہت سے بلاول
ہاؤس بنالئے ہوئے ہیں۔قانون تب ہی ماثر ہوگا جب پارلیمنٹ کے تمام لیڈر اپنی
ذات سے شروع کریں گے۔حکمران اور اپوزیشن ارکان کودیکھتے ہوئے باقی ماندہ
لوگ بھی سوچیں گے۔دوسرے ممالک میں بنائے گئے اثاثے فروخت کرکے انہیں ملک
میں لانے کے لئے کچھ سہولیات کا اعلان بھی پارلیمنٹ کرسکتی ہے۔ابھی تک
صرف230کے نام پانامہ لیکس کے ذریعے پریس میں آئے ہیں۔یہ فہرست بڑھ بھی سکتی
ہے۔ہم ایک عرصہ سے سن رہے ہیں کہ حالات کی خرابی کی وجہ سے پاکستانیوں نے
اپنا سرمایہ بنگلا دیش ،ملائیشیاء،سنگاپور،دبئی اور کئی دوسری عرب ریاستوں
میں منتقل کرلیاتھا۔ایسے تمام حرات کی بھی فہرستیں بنائی جائیں۔پارلیمنٹ کے
پاس کردہ قانون کا اطلاق ایسے تمام لوگوں پر ہونا چاہیئے جنہوں نے گزشتہ
25سالوں میں سرمایہ باہر منتقل کیا ہے۔یہ ایک بین الاقوامی حقیقت
ہے۔کرسرمایہ ادھر منتقل ہوتا ہے۔جہاں اسے سہولیات اور نفع نظر آتا
ہو۔پارلیمنٹ کو ایسے احباب کے لئے قانون کے اندر ہی سہولیات کا اعلان کرنا
چاہیئے۔کسی نے اگر اپنے واپس لائے ہوئے سرمایہ کے ذریعے فیکٹری لگانی ہے۔تو
اسے ہر طرح کی سہولیات فراہم کی جائیں۔انڈسٹریل اسٹیٹس میں ایسے لوگوں کو
مفت پلاٹ بھی دیئے جاسکتے ہیں۔باہر سے لائے گئے سرمایہ پر کچھ عرصے کے لئے
ٹیکس کی چھوٹ بھی دی جاسکتی ہے۔پاکستان کی اصل خدمت موجودہ ماحول میں صرف
یہی ہے۔اپنے پاکستانیوں کا اپنا سرمایہ ملک میں واپس لانا۔یہ ہوگاتبھی جب
حکمران مثال قائم کریں۔پارک لین لندن میں واقعFlatsاگر اسلام آباد کے پوش
علاقوں اور بحریہ ٹاؤن کراچی جیسے علاقوں میں منتقل ہوجائیں تو اس میں کوئی
خرابی نظر نہیں آتی۔پاکستانیوں کے سرمایہ سے پاکستان کے پوش علاقوں میں
بنگلے بات ہر لحاظ سے درست ہی نظر آتی ہے۔اور اگر پارک لین لندن کاسرمایہ
پاکستان میں آکر فیکٹریوں کی شکل اختیار کرلے تو پھر تو سونے پہ سہاگہ کی
بات ہوگی۔اکثر چینی سرمایہ بجلی پیدا کرنے کے لئے ہی کیوں پاکستان
آئے۔ہمارا اپنا سرمایہ جو دوسرے ممالک کے بنکوں اور آف شور کمپنیوں میں لگا
ہوا ہے اسے بجلی پیداکرنے پر لگنا چاہیئے۔مجھے یہ قوی امید ہے کہ محمد
نوازشریف صاحب جنکی حب الوطنی بلند وبالا درجہ کی شمار ہوتی ہے۔وہ اپنے
بچوں کو Convinceکریں گے کہ تمام اثاثے فروخت کرکے پاکستان کے اندر آکر
کاروبار کیاجائے۔اگر شہباز شریف کے بیٹے ملک کے اندر رہ کر کامیاب کاروبار
کرسکتے ہیں تو حسن اور حسین نواز کے لئے ناکامی کا کوئی تصور ہی نہیں
کیاجاسکتا۔جناب اسحق ڈار جو خود وزارت خزانہ چلارہے ہیں وہ خود"پاکستان میں
سرمایہ کی کمی"کے مسٔلہ کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ان کے بیٹوں کو بھی اب اپنے
ملک کا رخ کرنا چاہیئے۔لوگ اپنے حکمرانوں کی پیروی کرتے ہیں۔جب حکمران
خاندان اپنے سرمایہ کی واپسی کا ٹکٹ کٹائیں گے تو دوسرے پاکستانی بھی پیروی
کریں گے۔جب پاکستانی اپنے سرمایہ کو اپنے ملک کی ترقی کے لئے استعمال کرنا
شروع کردیں گے تو دوسرے سرمایہ کا ر بھی پاکستان کی طرف رخ کریں گے۔ہم سب
جانتے ہیں کہ کئی دہائیوں سے ہر حاکم وقت"ڈیووس فورم"سوئیٹرز لینڈ کی
کانفرنس میں جارہا ہے۔اس پر خرچ تو کافی آتا ہے لیکن اس کے اعدادوشمار
بتائے ہیں کہ اس کے بدلے میں پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کبھی نہیں آئی۔یہ
ساری پریکٹس سالہا سال سے بے کار جارہی ہے۔ہم خود اپنے ملک سے مخلص
ہونگے۔اپنے وسائل اپنے ملک کے لئے استعمال کریں گے۔تو دوسرے بھی ہمارے ساتھ
تعاون کریں گے۔یہ باتیں بین الاقوامی طورپر عام کہی جارہی ہیں کہ پاکستانی
ٹیکس سے بچنے کے لئے اپنا سرمایہ باہر نکال رہے ہیں۔دنیا میں بہت سے Tax
havensبنے ہوئے ہیں۔بہت سے جزیرے اور علاقے تو ایسے ہیں جو برطانیہ کے زیر
نگرانی ہیں۔لیکن وہاں کی مقامی انتظامیہ نے عالمی سرمایہ داروں کو کھلی
چھوٹ دی ہوئی ہے۔اور سالہاسال سے کمپنیاں اور افراد ان ٹیکس جنتوں سے فائدہ
اٹھارہے ہیں۔امریکہ کی معروف کمپنیوں Microsoft،AppleاورGeneral
Electronicکے بھی وہاں کئی ٹریلین ڈالر ہیں۔ان ٹیکس جنتوں سے دنیا کے بڑے
بڑے سرمایہ دار فائدہ اٹھارہے ہیں۔لیکن ہمارا ملک تو انتہائی پسماندہ
ہے۔سرمایہ کی شدید کمی ہے۔غیر ملکی قرضہ60۔ارب ڈالر تک بڑھ گیا ہے۔ہمارے
حکمرانوں اور دیگر افراد پر تو لازمی ہے کہ وہ اپنا تمام سرمایہ چاہے وہ جس
شکل میں بھی ہو اسے ملک میں لایا جائے۔یو ں معیشت کا پہیہ چلنا شروع ہوجائے
گا۔ہمیں غیرملکی اداروں سے قرض کی ضرورت نہیں پڑے گی۔پارلیمنٹ قانون سازی
کے لئے ہمت اور جرات سے کام لے۔اصل کرنے کا کام سرمایہ کو واپس لانا ہے۔
|