ازقلم: ڈاکٹر عبد القدیر خان
اللہ تعالیٰ نے ہمیں نہ صرف مختلف شکل و صورت میں پیدا کیا ہے بلکہ ہمارا
کردار بھی ایک دوسرے سے مختلف بنایا ہے۔ اسی طرح ہمارا ذوق ادب بھی ایک
دوسرے سی مختلف ہوتا ہے۔ میں اپنے بارے میں یہ عرض کروں گا کہ مجھے طالب
علمی کے زمانہ سے بھی اسلامی تاریخ، اردو ادب اور مشہور لوگوں کی سوانح
حیات پڑھنے کا شوق تھا۔ بہت سی کتابیں میری پسندیدہ ہیں اور آج بھی ان کی
ورق گردانی کر کے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ تمام پرانے شعرا کے کلام کا مطالعہ
محبوب مشغلہ ہے۔ قرآن کریم، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ
ابنِ بطوطہ کے سفرنامہ اور تذکرہ الاولیا مجھے بہت پسند ہیں۔ ایک مسلمان کی
حیثیت سے ہمارے لئے تذکرہ الاولیا بہت مفید اور معلوماتی کتاب ہے۔ اس میں
چھیانوے اولیا کرام کے زندگی کے حالات اور ان کے مکاشفات کے بارے میں نہایت
دلچسپ واقعات بیان کیے گئے ہیں۔
تذکرہ الاولیا حضرت فرید الدین عطار رحمہ اللہ تعالٰی کی تصنیف کردہ ہے جو
خود بھی ولی اللہ کا مرتبہ رکھتے تھے۔ اس کو شائع ہوئے تقریباً سو سال ہو
گئے ہیں۔ حضرت عطار ٥١٣ھ کو نئشاپور کے مضافات میں پیدا ہوئے اور وہیں ٦٢٧
ھ کو ایک تاتاری سپاہی کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش فرمایا۔
اس کتاب میں حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ کا تذکرہ بھی ہے۔ یہ ایک وقت
کے بہت بڑے ولی اللہ مانے جاتے تھے۔ آپ کے بارے میں حضرت جنید بغدادی علیہ
الرحمہ نے فرمایا تھا کہ حضرت بایزید کو اولیا میں وہی مرتبہ حاصل ہے جو
حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ملائکہ میں۔ تذکرہ الاولیا میں حضرت بایزید
بسطامی کے بارے میں بہت سی معلومات ہیں مگر ایک بہت اہم واقعہ بیان کیا گیا
ہے۔ میں نے مناسب سمجھا کہ وہ آپ کی خدمت میں پیش کروں۔
حضرت شیخ بایزید نے فرمایا کہ میں ایک سفر میں خلوت سے لذت حاصل کر رہا تھا
اور فکر میں مستغرق تھا اور ذکر سے انس حاصل کر رہا تھا کہ میرے دل میں ندا
سنائی دی، اے بایزید دیر سمعان کی طرف چل اور عیسائیوں کے ساتھ ان کی عید
اور قربانی میں حاضر ہو۔ اس میں ایک شاندار واقعہ ہوگا۔ میں نے اعوذ باللہ
پڑھا اور کہا کہ پھر اس وسوسہ دوبارہ نہیں آنے دوں گا۔ جب رات ہوئی تو خواب
میں ہاتف کی وہی آواز سنی۔ جب بیدار ہوا تو بدن میں لرزہ تھا۔ پھر سوچنے
لگا کہ اس بارے میں فرمانبرداری کروں یا نہ تو پھر میرے باطن سے ندا آئی کہ
ڈرو مت، تم ہمارے نزدیک اولیا اخیار میں سے ہو اور ابرار کے دفتر میں لکھے
ہوئے ہو۔ راہبوں کا لباس پہن لو اور ہماری رضا کیلئے زنار باندھ لو۔ آپ پر
کوئی گناہ یا انکار نہ ہوگا۔
حضرت فرماتے ہیں کہ صبح سویرے میں نے عیسائیوں کا لباس پہنا، زنار کو
باندھا اور دیر سمعان پہنچ گیا۔ وہ ان کی عید کا دن تھا۔ مختلف علاقوں کے
راہب دیر سمعان کے بڑے راہب سے فیض حاصل کرنے اور ارشادات سننے کیلئے حاضر
ہو رہے تھے۔ میں بھی راہب کے لباس میں ان کی مجلس میں جا بیٹھا۔ جب بڑا
راہب آ کر منبر پر بیٹھا تو سب خاموش ہو گئے۔ بڑے راہب نے جب بولنے کا
ارادہ کیا تو اس ما منبر لرزنے لگا اور کچھ بول نہ سکا گویا اس کا منہ کسی
نے لگام سے بند کر رکھا ہے تو سب راہب اور علما کہنے لگے اے مرشدِ ربانی!
کون سی چیز آپ کو گفتگو سے مانع ہے؟ ہم آپ کے ارشادات سے ہدایت پاتے ہیں
اور آپ کے علم کی قدر کرتے ہیں۔ بڑے راہب نے کہا کہ میرے بولنے میں یہ امر
مانع ہے کہ تم میں ایک محمدی شخص آ بیٹھا ہے۔ وہ تمہارے دین میں آزمائش
کیلئے آیا ہے لیکن یہ اس کی زیادتی ہے۔ سب نے کہا ہمیں وہ شخص دکھا دو ہم
فوراً اس کو قتل کر ڈالیں گے۔ اس نے کہا بغیر دلیل اور حجت کے اس کو قتل نہ
کرو، میں امتحاناً اس سے علم الادیان کے چند مسائل پوچھتا ہوں۔ اگر اس نے
سب کے صحیح جواب دئیے تو ہم اس کو چھوڑ دیں گے ورنہ قتل کر دیں گے کیونکہ
امتحان میں مرد کی عزت ہوتی ہے یا رسوائی و ذلت۔ سب نے کہا آپ جس طرح چاہیں
کریں۔ وہ بڑا راہب منبر پر کھڑا ہو کر پکارنے لگا ای محمدی! تجھے محمد صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کھڑا ہو جا تاکہ سب لوگ تجھے دیکھ سکیں تو
بایزید علیہ الرحمہ کھڑے ہو گئے۔ اس وقت آپ کی زبان پر رب تعالیٰ کی تقدیس
اور تمجید کے کلمات جاری تھے۔ اس بڑے پادری نے کہا اے محمدی میں تجھ سے چند
مسائل پوچھتا ہوں۔ اگر تو نے پوری وضاحت سے ان سب سوالوں کا جواب دیا تو ہم
تیری اتباع کریں گے ورنہ تجھے قتل کر دیں گے۔ حضرت بایزید نے فرمایا کہ تو
معقول یا منقول جو چیز پوچھنا چاہتا ہے پوچھ، اللہ تمہارے اور ہمارے درمیان
گواہ ہے۔
وہ قوم بتاؤ جو جھوٹی ہو اور بہشت میں جائے گی، وہ قوم بتاؤ جو سچی ہو اور
دوزخ میں جائے گی، بتاؤ کہ تمہارے جسم سے کون سی جگہ تمہارے نام کی قرار گا
ہے، الذاریات ذروا کیا ہے؟ الحاملات وقرا کیا ہے؟ الجاریات یسرا کیا ہے؟
المقسمات امرا کیا ہے؟ وہ کیا ہے جو بے جان ہو اور سانس لے، ہم تجھ سے وہ
چودہ پوچھتے ہیں جنہوں نے رب العالمیں کے ساتھ گفتگو کی، وہ قبر پوچھتے ہیں
جو مقبور کو لے کر چلی، وہ پانی جو نہ آسمان سے نازل ہوا اور نہ زمین سے
نکلا ہو، وہ چار جو نہ باپ کی پشت اور نہ شکم مادر سے پیدا ہوئے۔ پہلا خون
جو زمین پر بہایا گیا، وہ چیز جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہو اور پھر
اس کو خرید لیا ہو، وہ چیز جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا پھر ناپسند
فرمایا ہو، وہ چیز جس کے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہو پھر اس کی عظمت
بیان کی ہو، وہ چیز جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہو پھر خود پوچھا ہو
کہ یہ کیا ہے، وہ کون سی عورتیں ہیں جو دنیا بھر کی عورتوں سے افضل ہیں۔
کون سے دریا دنیا بھر کے دریاؤں سے افضل ہیں، کون سے پہاڑ دنیا بھر کے
پہاڑوں سے افضل ہیں، کون سے جانور سب جانوروں سے افضل ہیں، کون سے مہینے
افضل ہیں، کون سے راتیں افضل ہیں، طآئمہ کیا ہے، وہ درخت بتاؤ جس کی بارہ
ٹہنیاں ہیں اور ہر ٹہنی پر تیس پتے ہیں اور ہر پتے پر پانچ پھول ہیں، دو
پھول دھوپ میں تین سایہ میں، وہ چیز بتاؤ جس نے بیت اللہ کا حج اور طواف
کیا ہو نہ اس میں جان ہو اور نہ اس پر حج فرض ہو، کتنے نبی اللہ تعالیٰ نے
پیدا فرمائے اور ان میں سے رسول کتنے ہیں اور غیر رسول کتنے، وہ چار چیزیں
بتاؤ جن کا مزہ اور رنگ اپنا اپنا ہو اور سب کی جڑ ایک ہو، تقیر کیا ہے،
قطمیر کیا ہے، فتیل کیا ہے، سبد و لبد کیا ہے، طعم ورم کیا ہے، ہمیں یہ
بتاؤ کہ کتا بھونکتے وقت کیا کہتا ہے، گدھا ہینگتے وقت کیا کہتا ہے، بیل
کیا کہتا ہے، گھوڑا کیا کہتا ہے، اونٹ کیا کہتا ہے، مور کیا کہتا ہے، بیل
کیا کہتا ہے، مینڈک کیا کہتا ہے، جب ناقوس بجتا ہے تو کیا کہتا ہے، وہ قوم
بتاؤ جن پر اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی ہو وہ نا انسان ہو نہ جن اور فرشتے،
یہ بتاؤ کہ جب دن ہوتا ہے تو رات کہاں چلی جاتی ہے، جب رات ہوتی ہے تو دن
کہاں چلا جاتا ہے۔
حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ کوئی اور سوال ہو تو بتاؤ۔ وہ
پادری بولا کہ اور کوئی سوال نہیں۔ آپ نے فرمایا اگر میں ان سوالوں کا شافی
جواب دے دوں تو تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ
ایمان لاؤ گے؟ سب نے کہا ہاں، پھر آپ نے کہا اے اللہ تو ان کی اس بات پر
گواہ ہے۔
یک زمانہ صحبت با اولیا
بہتر از صد سالہ طاعتِ بے ریا
پھر فرمایا کہ، تمہارا سوال کہ ایک بتاؤ جس کا دوسرا نہ ہو وہ اللہ تعالیٰ
واحد قہار ہے، وہ دو جن کا تیسرا نہ ہو وہ رات اور دن ہیں، لقولہ تعالی (سورب
بنی اسرائیل، آیت:٢١) وہ تین جن کا چوتھا نہ ہو وہ عرش، کرسی اور قلم ہیں،
وہ چار جن کا پانچواں نہ ہو وہ چار بڑی آسمانی کتابیں تورات، انجیل، زبور
اور قرآن مقدس ہیں۔ وہ پانچ جن کا چھٹا نہ ہو وہ پانچ فرض نمازیں ہیں، وہ
چھ جن کا ساتواں نہ ہو وہ چھ دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور
زمینوں کو پیدا فرمایا لقولہ تعالیٰ (سورہ قاف، آیت:٨٣)، وہ سات جن کا
آٹھواں نہ ہو وہ سات آسمان ہیں لقولہ تعالیٰ (سورہ ملک: آیت:٣)، وہ آٹھ جن
کا نواں نہ ہو وہ عرش بریں کو اٹھانے والے آٹھ فرشتے ہیں لقولہ تعالیٰ (سورہ
حآقہ، آیت:٧١) وہ نو جن کا دسواں نہ ہو وہ بنی اسرائیل کے نو فسادی شخص تھے
لقولہ تعالیٰ (سورہ نمل، آیت:٧٤)، وہ دس جن کا گیارہواں نہ ہو وہ متمتع پر
دس روزے فرض ہیں جب اس کو قربانی کی طاقت نہ ہو لقولہ تعالیٰ (سورہ بقرہ،
آیت:٦٩١)، وہ گیارہ جن کا بارہواں نہ ہو وہ یوسف علیہ السلام کے بھائی ہیں۔
گیارہ ہیں ان کا بارہواں بھائی نہیں لقولی تعالیٰ (سورہ توبہ، آیت:٦٣)، وہ
تیرہ جن کا چودھواں نہ ہو وہ یوسف علیہ السلام کا خواب ہے لقولہ تعالیٰ (سورہ
یوسف، آیت:٤)
وہ جھوٹی قوم جو بہشت میں جائے گی وہ یوسف علیہ السلام کے بھائی ہیں کہ
اللہ تعالیٰ نے ان کی خطا معاف فرما دی۔ لقولہ تعالٰی (سورہ یوسف، آیت:٧١)
وہ سچی قوم جو دوزخ میں جائے گی وہ یہود و نصارٰی کی قوم ہے لقولہ تعالیٰ
(سورہ بترہ، آیت ٣١١)، تو ان میں سے ہر ایک، دوسرے کے دین کو لاشی بتانے
میں سچا ہے لیکن دونوں دوزخ میں جائیں گے، تم نے جو سوال کیا ہے تیرا نام
تیرے جسم میں کہاں رہتا ہے تو جواب یہ ہے کہ میرے کان میرے نام کی رہنے کی
جگہ ہیں، (الذاریات ذروا) چار ہوائیں ہیں مشرقی، غربی، جنوبی اور شمالی
(الحاملات وقرا) بادل ہیں لقولہ تعالٰی (سورہ بترہ، آیت:٤٦١)، (الجاریات
یسرا) سمندر میں چلنے والی کشتیاں ہیں، (المقسمات امرا) وہ فرشتے ہیں جو
پندرہ شعبان سے دوسرے پندرہ شعبان تک لوگوں کا رزق تقسیم کرتے ہیں، وہ چودہ
جنہوں نے رب تعالٰی کے ساتھ گفتگو کی وہ سات آسمان اور سات زمینیں ہیں
لقولہ تعالیٰ (سورہ حم السجدہ، آیت:١١)، وہ قبر جو مقبور کو لے کر چلی ہو
وہ یونس علیہ السلام کو نگلنے والی مچھلی ہے، بغیر روح کے سانس لینے والی
چیز صبح ہے، وہ پانی جو نہ آسمان سے اترا ہو اور نہ زمین سے نکلا ہو وہ
پانی ہے جو گھوڑوں کا پسینہ بلقیس نے آزمائش کیلئے حضرت سلیمان علیہ السلام
کے پاس بھیجا تھا، وہ چار جو کسی باپ کی پشت سے ہیں اور نہ شکم مادر سے وہ
اسماعیل علیہ السلام کی بجائے ذبح ہونے والا دنبہ، صالح علیہ السلام کی
اونٹنی، آدم علیہ السلام اور حضرت حوا ہیں، پہلا خون ناحق جو زمین پر بہایا
گیا وہ آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل کا خون تھا جسے بھائی قابیل نے قتل
کیا تھا، وہ چیز جو اللہ تعالٰی نے پیدا فرمائی پھر اسے خرید لیا وہ مومن
کی جان ہے لقولی تعالٰی (سورہ توبہ، آیت:١١١) وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے
پیدا فرمائی پھر اسے نا پسند فرمایا وہ گدھے کی آواز ہے لقولہ تعالٰی (سورہ
لقمان، آیت:٩١)، وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہو پھر اسے برا کہا
ہو وہ عورتوں کا مکر ہے لقولہ تعالٰی (سورہ یوسف، آیت:٨٢)، وہ چیز جو اللہ
تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہو پھر پوچھا ہو کہ یہ کیا ہے وہ موسٰی علیہ السلام
کا عصا ہے لقولہ تعالٰی (سورہ طہٰ، آیت:٧١) یہ سوال کہ کون سی عورتیں دنیا
بھر کو عورتوں سے افضل ہیں وہ ام البشر حضرت حوا، حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ،
حضرت آسیہ، حضرت مریم ہیں (رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین)۔
باقی رہا افضل دریا وہ سحیون، جیجون، دجلہ، فرات اور نیل مصر ہیں، سب
پہاڑوں سے افضل کوہِ طور ہے، سب جانوروں سے افضل گھوڑا ہے، سب مہینوں سے
افضل میینہ رمضان ہے لقولہ تعالٰی (سورہ بقرہ، آیت:٥٧١)، سب راتوں سے افضل
رات لیلہ القدر ہے لقولہ تعالٰی (سورہ قدر، آیت:٣) تم نے پوچھا کہ طآئمہ
کیا ہے وہ قیامت کا دن ہے، ایسا درخت جس کی بارہ ٹہنیاں ہیں اور ہر ٹہنی کے
تیس پتے ہیں اور ہر پتہ پر پانچ پھول ہیں جن میں سے دو پھول دھوپ میں ہیں
اور تین سایہ میں تو وہ درخت سال ہے۔ بارہ ٹہنیاں اس کے بارہ ماہ ہیں اور
تیس پتے اس ہر ماہ کے دن ہیں اور ہر پتے پر پانچ پھول ہر روز کی پانچ
نمازیں ہیں۔ دو نمازیں ظہر اور عصر کی آفتاب می روشنی میں پڑھی جاتی ہیں
اور باقی تین نمازیں اندھیرے میں، وہ چیز جو بے جان ہوں اور حج اس پر فرض
نہ ہو لیکن اس نے حج اور بیت اللہ طواف کیا ہو وہ نوح علیہ السلام کی کشتی
ہے، تم نے نبیوں کی تعداد پوچھی ہے پھر رسولوں اور غیر رسولوں کی تو کل نبی
ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں ان میں سے تین سو تیرہ رسول ہیں اور باقی غیر
رسول، تم نے وہ چار چیزیں پوچھی ہیں جن کا رنگ اور ذائقہ مختلف حالانکہ جڑ
ایک ہے وہ آنکھیں ناک، منہ اور کان ہیں کہ مغز سر اُن سب کی جڑ ہے، آنکھوں
کا پانی نمکین ہے اور منہ کا پانی میٹھا ہے اور ناک کا پانی ترش ہے اور
کانوں کا پانی کڑوا ہے۔
تم نے نقیر، قطمیر، فتیل، سبد و لبد اور طعم ورم کے معانی دریافت کیے ہیں
کجھور کی گھٹلی کی پشت پر جو نقطہ ہوتا ہے اس کو نقیر کہتے ہیں گھٹلی پر جو
باریک چھلکا ہوتا ہے اس کو قطمیر کہتے ہیں گھٹلی کے اندر جو سفیدی ہوتی ہے
اسے فتیل کہتے ہیں سبد و لبد بھیڑ بکری کے بالوں کے کہا جاتا ہے، حضرت آدم
علیہ السلام کی آفرینش سے پہلے کی مخلوقات کو طعم ورم کہا جاتا ہے، گدھا
ہینگتے وقت شیطان کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے (لعن اللہ العشار)، کتا
بھونکتے وقت کہتا ہے (ویل لاھل النار من غضب الجبار)، بیل کہتا ہے (سبحان
اللہ وبحمدہ)، گھوڑا کہتا ہے (سبحان حافظی اذاالتقت الابطال واشتعلت الرجال
بالرجال)، اونٹ کہتا ہے (حسبی اللہ وکفی باللہ وکیلا)، مور کہتا ہے (الرحمن
علی العرش استوی)، بلبل کہتا ہے (سبحان اللہ حین تمسون وحین تسبون)، مینڈک
اپنی تسبیح میں کہتا ہے (سبحان المعبود فی البراری والقفار وسبحان الملک
الجبار)، ناقوس جب بجتا ہے تو کہتا ہے (سبحان اللہ حقا حقا انظرنا یا ابن
آدم فی ھذہ الدنیا غربا و شرقا) ما تری فیھا احدیقی) تم نے وہ قوم پوچھی ہے
جن پر وحی آئی حالانکہ وہ نہ انسان تھے نہ جن اور نہ فرشتے وہ شہد کی
مکھیاں ہیں لقولہ تعالٰی (سورہ نحل، آیت ٨٦)، تم نے پوچھا کہ جب رات ہوتی
ہے تو دن کہاں جاتا ہے اور جب دن ہوتا ہے تو رات کہاں جاتی ہے اس کا جواب
یہ ہے کہ جب دن ہوتا ہے تو رات اللہ تعالٰی کے غامض علم میں چلی جاتی ہے
اور جب رات ہوتی ہے تو دن اللہ تعالیٰ کے غامض علم میں چلا جاتا ہے۔ اللہ
تعالیٰ کا وہ غامض علم کہ جہاں کسی مقرب نبی فرشتہ کی رسائی نہیں۔
پھر آپ (حضرت بایزید بسطامہ علیہ الرحمہ) نے فرمایا کہ تمہارا کوئی ایسا
سوال رہ گیا ہے جس کا جواب نہ دیا گیا ہو؟ انہوں نے کہا نہیں، سب سوالوں کے
صحیح جواب دیے ہیں۔ آپ نے بڑے پادری سے فرمایا کہ تم سے صرف ایک بات پوچھتا
ہوں اس کا جواب دو۔ وہ یہ کہ آسمانوں کی کنجی اور بہشت کی کنجی کون سی چیز
ہے؟ وہ پادری سربگیرباں ہو کر خاموش ہو گیا۔ سب پادری اس سے کہنے لگے اس
شیخ نے تمہارے اس قدر سوالوں کے جواب دیے لیکن آپ اس کے ایک سوال کا جواب
بھی نہیں دے سکتے۔ وہ بولا جواب مجھے آتا ہے اگر میں وہ جواب بتاؤں تو تم
لوگ میرے موافقت نہ کرو گے۔ سب نے بیت زبان ہو کر کہا کہ آپ ہمارے پیشوا
ہیں۔ ہم ہر حالت میں آپ کی موافقت کریں گے۔ تو بڑے پادری نے کہا آسمانوں کی
کنجی اور بہشت کی کنجی (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) ہے۔ تو سب کلمہ
پڑھ کر مسلمان ہو گئے اور اپنے اپنے زنار وہیں توڑ ڈالے۔ غیب سے ندا آئی،
اے بایزید! ہم نے تجھے ایک زنار پہننے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ ان کے پانچ
سو زنار توڑ ڈالو وللہ الحمد
ہر کہ خواہد ہمنشینی باخُدا
اُو نشیند در حضور اولیا |