رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بحثیت سپہ سالار ،غزوات اور جنگوں کا احوال - 12

غزوہ خندق (احزاب)
مدینہ لشکر کفار کے محاصرے میں
کفر کا حملہ آور لشکر ابوسفیان کی سرکردگی میں خندق کھد جانے کے چھ دن بعد سیلاب کی طرح مدینہ پہنچ گیا۔ انہوں نے شہر کے چاروں طرف اور اپنے آگے ایک بڑی خندق دیکھی تو مسلمانوں کی اس دفاعی ٹیکنیک پر ان کو تعجب ہوا۔ جنگی دیدہ وروں نے کہا یہ فوجی ٹیکنیک محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایرانیوں سے سیکھی ہے اس لیے کہ عرب اس ڈھنگ سے واقف نہیں ہیں۔ ان لوگوں نے مجبوراً اپنے خیمے خندق کے سامنے لگا لیے۔ دشمن کے لشکر کے خیموں سے سارا بیابان سیاہ ہوگیا۔ لشکر اسلام نے بھی خندق کے اس طرف خیمے لگا لیے اور دشمن سے مقابلے اور ان کے حملے سے بچنے کے لئے تیار ہوگئے۔

بنی قریظہ کی عہد شکنی
لشکر احزاب اور اس کے کماندار ابو سفیان جن کے سروں میں مسلمانوں پر برق رفتاری سے کامیابی حاصل کرنے کا سودا سمایا ہوا تھا، خندق جیسی بڑی رکاوٹ کے سامنے آجانے سے اب راستہ کی تلاش میں لگ گئے تاکہ لشکر کو خندق کے پار پہنچا سکیں۔ حی بن اخطب یہودی جو قبیلہ بنی نضیر کا شہر بدر کیا ہوا سردار اور جنگ کی آگ بھڑکانے کا اصلی ذمہ دار تھا۔ خندق کی موجودگی سے سپاہ احزاب کے حملہ کا ناکام ہوتے ہوئے دیکھ کر سب سے زیادہ خوف زدہ تھا، وہ کوشش کر رہا تھا کہ جلد سے جلد احزاب کی کامیابی کا کوئی راستہ مل جائے۔ اس نے مدینہ کے اندر سے محاذ کھولنے کا ارادہ کیا۔ اس پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بنی قریظہ کے وہ یہودی جو مدینہ میں مقیم تھے، بہترین وسیلہ تھے۔ اس نے رئیس قبیلہ سے گفتگو کرنے کا ارادہ کیا، قلعہ بنی قریظہ کی طرف گیا اور قلعہ کے بند دروازوں کے پیچھے سے گفتگو کی، لیکن قبیلہ بنی قریظہ کے سردار کعب بن اسد نے جواب دیا کہ ہم نے محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے عہد و پیمان کیا ہے اور ہم یہ معاہدہ نہیں توڑ سکتے اس لیے کہ سوائے سچائی اور وفاداری کے ان میں ہم نے اور کچھ نہیں دیکھا‘ تاہم حی، کعب کے احساسات کو بھڑکانے میں بالآخر کامیاب ہو گیا اور اس نے اپنے لیے قلعہ کا دروازہ کھلوا لیا۔ قلعہ میں داخل ہوا اور بنی قریظہ کے بزرگ افراد کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے کئے ہوئے اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیں اور اپنی فوجیں نیز دوسرے سامان حملہ آوروں کو دے دیں۔

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو جب بنی قریظہ کے یہودیوں کی پیماں شکنی کی خبر ملی تو آپ نے قبیلہ اوس و خزرج کے دو بزرگ افراد سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ کو مزید تحقیقات کے لئے قلعہ بنی قریظہ روانہ کیا۔ وہ لوگ اس بات پر مامور تھے کہ اگر یہ رپورٹ صحیح ہو تو خفیہ طور پر اس نتیجہ کی اطلاع رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو دیں۔ انہوں نے واپسی پر خفیہ کوڈ (عضل) و (قارہ) کے الفاظ کے ساتھ یہودیوں کی پیمان شکنی کی خبر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو دی۔(مغازی ج۲ ص ۴۵۴)

اضطراری حالت
اسلامی تحریک ایک حساس موڑ پر تھی ایک طرف دس ہزار مسلح دشمن کی فوج شہر کے سامنے خیمہ زن اور ہر لحظہ اس بات کا امکان کہ خندق کو پار کر کے دشمن کہیں شہر میں کشت و خون کا بازار نہ گرم کر دے اور دوسری طرف قبیلہ بنی قریظہ کے خائن یہودی پیمان شکنی کر کے مسلمانوں کی پیٹھ میں پیچھے سے خنجر گھونپنے کے لیے آمادہ، نہتے مسلمان بچوں اور عورتوں پر شہر میں یہودیوں کے حملہ کا اندیشہ، کفار کے لشکر کا خندق عبور کر لینے کے خطرے سے زیادہ تھا۔

اس ہنگامہ میں منافقین، شیطانی قہقہوں، طعنوں اور اشارے و کنائے سے مسلمانوں کے زخم پر نمک پاشی، لوگوں کو دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کی تشویش، اپنے گھروں کے دفاع کا سامان نہ ہونے کا بہانہ بنا کر فرار کا قصد اور اپنی دفاعی جگہوں کو چھوڑ دینے کا ارادہ کر رہے تھے۔

قرآن اس سلسلہ میں کہتا ہے کہ”جب ایک گروہ (منافقین اور سیاہ قلب افراد) نے کہا کہ اے یثرب کے لوگوں! اب سرزمین یثرب تمہارے رہنے کی جگہ نہیں لہٰذا پلٹ جاؤ اور ان میں سے ایک گروہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت مانگ رہا ہے اور کہتا ہے کہ ہمارے گھر کھلے ہوئے ہیں، دفاع کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ایسی صورت میں ان کا ارادہ و مقصد فرار کے سوا اور کچھ نہیں۔ (احزاب:۱۳)

لیکن خدا اور رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھنے والے جاں باز نہ صرف یہ کہ ایسے طوفانوں سے لرزاں نہیں ہوئے بلکہ اور زیادہ مستحکم ہو گئے۔

قرآن ان کے بارے میں کہتا ہے”جب مسلمانوں نے احزاب کے لشکر کو دیکھا تو کہا کہ یہ وہی ہے جس کا وعدہ اللہ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے کیا ہے اور اس واقعہ نے ان کے ایمان و تسلیم کو بڑھانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا۔

اس حساس موقع پر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مسلسل اپنی شعلہ بار تقریروں سے اسلام کے جاں بازوں کے حوصلے بڑھاتے رہے ان کے فرائض کو انہیں یاد دلاتے رہے اور فرماتے تھے۔ اگر تم صبر سے کام لو گے اور خدا پر بھروسہ کرو گے تو کامیاب رہو گے۔ اور ان لوگوں کو خدا اور اس کے پیغمبر کی فرمانبرداری کی طرف توجہ دلاتے رہے۔ ایسی حالت میں جاں باز ان اسلام اپنے محاذ کی نگہبانی اور تحفظ کی خاطر خندق کے اس طرف بنی قریظہ کے شب خون مارنے کے خطرے کو ناکام بنانے کے لئے 500 جاں بازوں کا ایک گشتی دستہ لے کر پوری تیاری کے ساتھ گشت لگاتے رہے اور راتوں کو اپنے نعرہ تکبیر سے دشمن کے دلوں میں خوف و ہراس ڈالتے رہے۔ اس طرح غفلت کے عالم میں دشمن کو حملہ کرنے کا موقع نہیں مل سکا اور مدینہ سے حملہ کا خطرہ ٹل گیا۔

ایمان و کفر کا آمنا سامنا
خندق کے اس پار لشکر احزاب بہت دنوں تک یوں ہی پڑا رہا لیکن نہ پیادوں میں سے کوئی خندق عبور کرسکا اور نہ سواروں میں سے، آخر کار لشکر شرک میں سے پانچ آدمی، عمرو بن عبدود، عکرمہ بن ابی جہل، ہبیرہ بن ابی وہب، نوفل بن عبداللہ، ضرار بن خطاب، جنگی لباس پہننے کے بعد یہ لوگ مخصوص غرور و تکبر کے ساتھ اپنے اتحادیوں کے خیمے کے کنارے سے گزرے اور ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج پتہ چل جائے گا کہ حقیقی بہادر کون ہے؟

اس کے بعد انہوں نے ایڑ لگا کر اپنے گھوڑوں کو اس حصہ کی طرف سے اڑایا جو خندق کا کم چوڑا حصہ تھا۔ جانبازوں کا دفاع ان کو نہ روک سکا عمرو بن عبدود نے بلند آواز سے مبارز طلبی کی اور مذاق اڑانے والے لہجہ میں بولا” اے بہشت کے دعویدارو! کہاں ہو؟ کیا کوئی ہے کہ جسے میں بہشت کو روانہ کر دوں یا وہ مجھے جہنم بھیج دے؟ وہ اپنی بات کی تکرار کرتا رہا۔ یہاں تک کہ اس نے کہا میں نے اتنی آواز دی کہ میں تھک گیا اور میری آواز میں گرفتگی آگئی ہے۔

اس موقع پر پیغمبر نے مسلمانوں کی طرف رخ کیا اور فرمایا کیا کوئی ہے جو اس کے شر کو ہمارے سروں سے دور کرے؟ علی علیہ لاسلام نے آمادگی کا اعلان کیا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اجازت نہیں دی اور اپنی بات پھر آپ نے دہرائی۔ مجاہدین اسلام کے درمیان سکوت کی حکمرانی تھی۔ کسی کے اندر بھی قریش کے بڑے پہلوان سے مقابلہ کی جرات نہ تھی تیسری بار آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا اور اس موقع پر بھی علی ہی تھے جنہوں نے آمادگی کا اعلان کیا۔

نتیجہ میں پیغمبر صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کو اجازت دے دی اور اپنا عمامہ ان کے سر پر رکھا اپنی تلوار ان کو عطا کی جب علی علیہ السلام قریش کے اس بہادرسے لڑنے کے لئے چلے تو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”آج کل ایمان کل شرک کے مقابل ہے۔

اس زمانہ کے آئین رزم کے مطابق اسلام و شرک کے دونوں بہادروں نے رجز خوانی کی، اس کے بعد تلوار نیام سے باہر نکال کر حملہ آور ہوگئے۔ جنگ کے وقت میدان میں اتنی گرد اڑ رہی تھی کہ دونوں میں سے کوئی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ یہاں تک کہ علی علیہ السلام کے نعرہ تکبیر کی آواز گونجی، پیغمبر نے فرمایا” خدا کی قسم علی نے اس کو قتل کر دیا۔

واقعہ اس قدر برق آسا اور حیرت انگیز تھا کہ عمرو کے ساتھی اس کے قتل کو دیکھنے کے بعد فوراً فرار کر گئے۔ نوفل بن عبداللہ خندق کو پار کرنے کے لئے کودتے وقت اس میں گر پڑا اور جان بازانِ اسلام نے اس پر سنگ باری کر دی، وہ چلانے لگا کہ عرب کا قتل جواں مردی کے ساتھ ہوتا ہے۔ علی علیہ السلام نہایت سرعت سے خندق میں کود پڑے اور اس کو بھی قتل کر ڈالا۔

خندق کے دن علی علیہ السلام کی ضربت آئین اسلام کے استقرار کا سبب بنی اس لیے کہ اگر علی، عمرو بن عدود کو قتل نہ کر دیتے تو لشکر احزاب کی مسلمانوں کے سلسلے میں جرات بڑھ جاتی اور ان میں سے دوسرے افراد بھی خندق کو پار کر کے حیات اسلام کا خاتمہ کر دیتے۔

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس ضربت کی فضیلت میں فرمایا” روز خندق علی علیہ السلام کی ضربت تمام جن و انس کی عبادت سے افضل ہے۔ (مستدرک حاکم ج۳ ص ۳۲)

اس کے دوسرے دن خالد بن ولید نے شکست کے جبر ان کے لئے خندق کے کم چوڑے حصہ کی طرف سے اپنے شہ سواروں کے دستہ کو خندق عبور کرانا چاہی لیکن مجاہدین اسلام کے مردانہ دفاع نے جو غروب تک جاری رہا، دشمن کے ہر طرح کے ابتکار عمل کی قوت کو سلب کرلیا۔

۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 112064 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More