عورت کے حجاب کے متعلق قرآن مجید کی آیات

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
(الاحزاب : ٥٣) اور جب تم نبی کی ازواج (مطہرات) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو، یہ تمہارے اور ان کے لئے بہت ہی پاکیزگی کا سبب ہے۔
نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(الاحزاب : ٥٩) اے نبی ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں کو یہ حکم دیں کہ وہ (گھر سے نکلتے وقت) اپنی چادروں کا کچھ حصہ (آنچل، پلویا گھونگھٹ) اپنے چہروں پر لٹکائے رہیں، یہ پردہ ان کی اس شناخت کے لئے بہت قریب ہے (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں آوارہ گرد باندیاں نہیں ہیں) سو ان کو ایذاء نہ دی جائے اور اللہ بہت بخشنے والا بے حد رحم فرمانے والا ہے۔
ذالک ادنیٰ ان یعرفن سے چہرہ ڈھانپننے پر استدلال
(الاحزاب : ٥١) یہ پردہ ان کی شناخت کے بہت قریب ہے (کہ وہ آزاد عورتیں ہیں آوارہ گرد باندیاں نہیں ہیں) سو ان کو ایذا نہ دی جائے۔
علامہ ابن جریر طبری لکھتے ہیں :
جب کوئ باندی راستہ سے گذرتی تھی تو فساق فجار اس کو ایذاء پہنچاتے تھے تب اللہ تعالیٰ نے آزاد عورتوں کو باندیوں کی مشابہت سے منع فرما دیا، مجاہد نے یدنین علیھن من جلابیھن کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ ” آزاد عورتیں اپنے چہروں پر آنچل ڈال لیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ یہ آزاد عورتیں ہیں اور فساق ان کو آوازیں کس کر یا چھیڑ خانی کر کے اذیت نہ پہنچائیں۔“ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ذلک ادنی ان یعرفن فلایوذین ” یہ ان کی (باندیوں سے) شناخت کے زیادہ قریب ہے تاکہ ان کو ایذاء نہ پہنچائی جائے۔“ (جامع البیان جز ٢٢ ص 57-58 دارالفکر بیروت)
امام رازی متوفی 606 ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
زمانہ جاہلیت میں آزاد عورتیں اور باندیاں چہرہ کھول کر باہر نکلتی تھیں اور فساق اور فجار ان کے پیچھے دوڑتے تھے تب اللہ تعالیٰ نے آزاد عورتوں کو چادر سے چہرہ ڈھانپنے کا حکم دیا۔ (تفسیر کبیرج ٩ ص 184)
علامہ ابوالحیان اندلسی متویف 754 ھ لکھتے ہیں :
زمانہ جاہلیت میں یہ طریقہ تھا کہ آزاد عورتیں اور باندیاں دونوں قمیص اور دوپٹے میں چہرہ کھول کر نکلتی تھیں اور جب وہ رات کے وقت قضاء حاجت کے لئے کھجوروں کے جھنڈ اور نشینبی زمینوں میں جاتیں تو بدکار لوگ بھی ان کے پیچھے جاتے اور بعض اوقات وہ آزاد عورت پر بھی دست درازی کرتے اور یہ کہتے کہ ہم نے اس کو باندی گمان کیا تھا۔ تب آزاد عورتوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ باندیوں سے مختلف وضع قطع اختیار کریں بایں طور کہ بڑی چادروں اور کمبلوں سے اپنے سروں اور چہروں کو ڈھانپ لیں تاکہ وہ باحیاء اور معزز رہیں اور کوئی شخص ان کے متعلق بری خواہش نہ کرے۔ (البحر المحیط ج ٧ ص 250 دارالفکر بیروت)
علامہ ابن جوزی حنبلی لکھتے ہیں :
آزاد عورتیں چادروں سے اپنے سروں اور چہروں کو ڈھانپ لیں تاکہ معلوم ہوجائے وہ آزاد عورتیں ہیں۔ (زاد المسیر ج ٦ ص ٤٢٢ )
علامہ ابو سعود حنفی لکھتے ہیں :
عورتیں جب کسی کام سے جائیں تو چادروں سے اپنے چہروں اور بدنوں کو چھپا لیں۔ (تفسیر ابو سعود ج ٥ ص 239، دارالکتب العلمیہ بیروت)
علامہ ابو الحیان اندلسی لکھتے ہیں :
ابوعبیدہ سلمانی بیان کرتے ہیں کہ جب ان سے اس آیت کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ تم چادر کو اپنی پیشانی پر رکھ کر چہرے کے اوپر لپیٹ لو، سدی نے کہا ایک آنکھ کے سوا باقی چہرے کو ڈھانپ لو (علامہ ابو الحیان کہتے ہیں) اندلس کے شہروں کا بھی یہی طریقہ ہے عورتیں ایک آنکھ کے سوا باقی چہرے کو ڈھانپ کر رکھتی ہیں، حضرت ابن عباس اور قتادہ نے کہا چادر سے چہرے کو ڈھانپ لے اور دونوں آنکھوں کو وکھلا رکھے۔ من جلابیھن کا مطلب یہ ہے کہ چادر کے ایک پلو سے چہرہ کو ڈھانپ لیا جائے یہ پردہ ان کی شناخت کے بہت قریب ہے کیونکہ جب آزاد عورتیں اپنے چہرے کو ڈھانپ لیں گی تو وہ بے پردہ پھرنے والی بے حیا باندیوں سے ممتاز ہوجائیں گی اور فساق اور فجار کی ایذاء رسانی اور چھیڑ خانی سے محفوظ رہیں گی۔ (البحر المحیط ج ٨ ص 504 دارالفکر)

ان تفاسیر سے یہ ظاہر ہوگیا کہ سورۃ نور میں عورتوں کو جو چہرے اور ہاتھوں کے سوا تمام جسم کے ستر کا حکم دیا گیا تھا اس آیت میں اس سے زائد حکم بیان کیا گیا ہے کہ وہ اجنبی مردوں کے سامنے اپنے چہروں کو بھی ڈھانپ کر رکھیں۔
آج بھی یہی طریقہ ہے جو عورت مکمل پردہ میں باہر نکلتی ہے وہ کسی شخص کی ہوا و ہوس کا نشانہ نہیں بنتی اس پر کوئی بری نظر ڈالتا ہے نہ کوئی آواز کستا ہے، نہ اس کا پیچھا کرتا ہے اور جو عورت بے پردہ تنگ اور چست لباس پہن کر، سرخی پائوڈر سے میک اپ کر کے اور اپنے لباس پر پرفیوم اسپرے کر کے خوشبوئوں کلی لپٹوں میں گھر سے نکلتی ہے وہ تمام ہوس ناک نگاہوں کا ہدف بنتی ہے اوباش لوگ اس پر آوازیں کستے ہیں اور چھیڑ خانی کرتے ہیں اور بسا اوقات اس کی عزت لٹ جاتی ہے۔ العیاذ باللہ ! ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو کہتے ہیں اسلام عورت کو پردے کی بوبو بنانا چاہتا ہے ! مغربی ممالک میں جہاں کوئی پردہ ہے نہ کوئی حدود و قیوم ہیں لڑکیاں نیم عریاں لباس میں برسر عام پھرتی ہیں اور راہ چلتے برسر عام مرد اور عورت بوس و کنار کرتے ہیں، پارکوں اور تفریح گاہوں میں بغیر کسی پردے اور حجاب کے حیوانوں کی طرح مرد اور عورتیں ہم آغوش ہوتے ہیں اور جنسی عمل کرتے ہیں، ایک لڑکی کئی کئی بوائے فرینڈز رکھتی ہے، دفتروں، کارخانوں، ہوٹلوں اور سیرگاہوں میں ہر جگہ مرد اور عورت ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور ایک ساتھ کام کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں ناجائز بچوں سے ان کی سڑکیں بھری رہتی ہیں اور ہسپتالوں میں اسقاط حمل کرانے والی عورتوں کی بھرممار رہتی ہے اور اس جنسی بے راہی روی سے ان کا ذہنی سکون جاتا رہتا ہے اور وہ لوگ مالیخولیائی کیفیات میں مبتلا ہوجاتے ہیں پھر وہ سکون اور نروان کی تلاش میں سستے نشوں کی تلاش میں پھرتے ہیں۔ پہلے وہ اپنے آپ کو شراب میں ڈبو دیتے تھے لیکن اس سے بھی ان کو سکون نہیں ملا، اب وہ چرس، کو کین، ہیروئن اور راکٹ کی پناہ لیتے ہیں وہ ایسا تیز سے تیز نشہ چاہتے ہیں جو ان کے ذہن کو زیادہ سے زیادہ دیر کے لئے سلا دے، بے حس کر دے اور دنیا اور مافیہا سے بے خبر کر دے۔ مغربی ممالک کی حکومتیں ان منشیات پر پابندیاں لگا رہی ہیں اس کے باوجود منشیات کی کھپت بڑھتی جا رہی ہے، پابندیوں سے کام نہیں چلے گا لوگ سکون چاہتے ہیں ان کو سکون مہیا کیجیے راکٹ اور مارفیا کا سکون ناپائیدار اور عاضری ہے، صحت کے لئے تباہ کن ہے، حقیقی سکون صرف اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت میں ہے :
(الانعام : ٨٢) جو لوگ ایمان لائے اور ایمان کے ساتھ انہوں نے گناہ نہ کئے (یعنی اسلامی احکام کی مخالفت اور ان سے بغاوت نہیں کی) انہی کے لئے امن اور سکون ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔
یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ جنسی بے اعتدالی اور بے راہ روی انسان کے ذہنی سکون کو ختم کردیتی ہے، اس لئے اگر ہم دنیا کو ذہنی سکون فراہم کرنا چاہتے ہیں تو ہم کو جنسی بے راہ روی اور بد چلنی کو ختم کرنا ہوگا اور اس کی پہلی بنیاد پردہ اور حجاب ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(الاحزاب : ٥٩) یہ پردہ ان کی شناخت کے بہت قریب ہے (کہ وہ آزاد وتریں ہیں آوارہ گرد باندیاں نہیں ہیں) سو ان کو ایذا نہ دی جائے۔
علامہ محمد امین بن مختار جگنی شنفطی لکھتے ہیں :
صحابہ کرام اور مابعد کے تمام مفسرین نے یہ تفسیر کی ہے کہ اہل مدینہ کی خواتین رات کو قضاء حاجت کے لئے گھروں سے باہر نکلتیں تھیں اور مدینہ میں بعض فساق تھے جو باندیوں کے پیچھے پڑجاتے تھے اور آزاد عورتوں سے تعرض نہیں کرتے تھے اور بعض آزاد عورتیں ایسی وضع میں نکلتی تھیں جس سے وہ باندیوں سے ممتاز نہیں ہوتی تھیں، سو وہ فساق ان کو بھی باندیاں سمجھ کر ان کے پیچھے پڑجاتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنی ازواج اپنی صاحبزادیوں اور مسلمان عورتوں کو یہ حکم دیں کہ وہ اپنی وضع قطع میں باندیوں سے ممتاز رہیں بایں طور کہ چادروں سے اپنا چہرہ چھپائے رکھیں اور جب وہ ایسا کریں گی تو فساق کو پتا چل جائے گا کہ یہ آزاد عورتیں ہیں اور ان کو ستایا نہیں جائے گا، اہل علم نے اس کی یہی تفسیر کی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فساق کا باندیوں کو چھیڑنا اور ان سے فحش حرکات کرنا جائز ہے بلکہ یہ حرام ہے اور ان فحش کاموں کے در پے وہی لوگ ہوتے ہیں جن کے دلوں میں بیماری ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے اس قول میں داخل ہیں والذین فی قلوبھم مرض ” وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے۔“ (اضواء البیان ج ٦ ص 587-588)
 
syed imaad ul deen
About the Author: syed imaad ul deen Read More Articles by syed imaad ul deen: 144 Articles with 321415 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.