چہرے کے حجاب پر شبہات اور ان کے جوابات
(syed imaad ul deen, samundri)
بعض احادیث بظاہر حجاب کے خلاف ہیں جن میں
اجنبی مردوں کی طرف دیکھنے اور عورتوں کے اجنبی مردوں کی طرف دیکھنے کا
ثبوت ہے اسی لئے ہم ان احادیث کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں، امام مسلم روایت
کرتے ہیں، حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اپنی چادر میں چھپائے ہوئے تھے اور میں حبشیوں
کی طرف دیکھ رہی تھی درآں حالیکہ وہ (جنگی کھیل) کھیل رہے تھے، میں اس وقت
لڑکی تھی۔۔۔۔(صحیح مسلم رقم الحدیث :2029)
اس حدیث میں مردوں کے کھیل کی طرف دیکھنے کا جواز ہے، جبکہ مردوں کے بدن کی
طرف (پسندیدگی سے) نہ دیکھا جائے اور عورتوں کا اجنبی مرد کے چہرہ کی طرف
شہوت سے دیکھنا حرام ہے اور بغیر شہوت کے دیکھنے میں دو قول ہیں اور زیادہ
صحیح قول یہ ہے کہ یہ حرام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وقل
للمومنات یغضضن من ابصارھن ” آپ مسلمان عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی
نگاہیں نیچی رکھیں، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ام سلمہ اور
حضرت ام حبیبہ (بلکہ حضرت میمونہ) سے فرمایا ” تم دونوں تو نابینا نہیں ہو،
تم اس سے (یعنی حضرت ابن ام مکتوم سے) پردہ کرو“ یہ حدیث حسن ہے اس کو امام
ترمذی اور بہت سے ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے اور حضرت عائشہ (رض) کی اس
روایت کے دو جواب ہیں، قوی جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں یہ تصریح نہیں ہے کہ
حضرت عائشہ نے ان کے چہروں اور بدنوں کی طرف (بالذات) دیکھا تھا اس حدیث
میں صرف یہ ہے کہ حضرت عائشہ نے ان کے کھیل اور ان کی جنگ کی طرف دیکھا تھا
اور ان کی جنگی مشقوں کے دیکھنے سے یہ الزم نہیں آتا کہ حضرت عائشہ نے ان
کے بدن کی طرف دیکھا ہو اور اگر بالفرض حضرت عائشہ کی نظر بلا قصدان کے بدن
پر پڑگئی تو آپ نے فوراً نظر کو ہٹا یا تھا، دوسرا جواب یہ ہے کہ ہو سکتا
ہے یہ واقعہ حجاب نازل ہونے سے پہلے کا ہو اور تیسرا جواب یہ ہے کہ حضرت
عائشہ اس وقت کمسن تھیں اور حد بلوغ کو نہیں پہنچیں تھیں۔
دوسری حدیث
جس سے حجاب کے خلاف شبہ پیش کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ امام بخاری نے حضرت
ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ان سے ایک شخص نے سوال کیا آپ عید الفطر
یا عید الاضحیٰ کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت
میں حاضر تھے ؟ حضرت ابن عباس نے فرمایا ہاں ! اگر میں اس وقت کمسن نہ ہوتا
تو حاضر نہ ہوتا ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (عیدگاہ) گئے اور
آپ نے نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیا اور اذان کا ذکر کیا نہ اقامت کا، پھر آپ
عورتوں کے پاس گئے ان کو وعظ و نصیحت کی اور ان کو صدقہ دینے کا حکم دیا
پھر میں نے دیکھا کہ انہوں نے اپنے کانوں اور گلوں کی طرف ہاتھ بڑھائے اور
حضرت بلال کو زیورات دیئے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :977)
اس حدیث سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس اور حضرت بلال نے اس موقع پر
اجنبی عورتوں کو دیکھا، حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ حضرت ابن عباس
کا جواب تو خود اس حدیث میں ہے کہ وہ کم سن تھے اور حضرت بلال اگرچہ اس وقت
آزاد ہوچکے تھے لیکن وہ عورتیں حجاب میں لپٹی ہوئی تھیں اور اس حدیث میں یہ
نہیں ہے کہ حضرت بلال نے ان کے چہروں کی طرف دیکھایا ان کے چہرے کھلے ہوئے
اور بے حجاب تھے۔
ایک اور حدیث جس سے حجاب کے خلاف شبہ پیش کیا جاتا ہے یہ ہے، امام بخاری
روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حجتہ الوداع کے موقع پر حضرت
فضل بن عباس، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سواری پربیٹھے
ہوئے تھے، قبیلہ شعم کی ایک عورت نے آ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) سے مسئلہ پوچھا، حضرت فضل اس عورت کی طرف دیکھنے لگے او وہ عورت حضرت
فضل کی طرف دیکھنے لگی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فضل (رض) کا
چہرہ دوسری رف کردیا، اس عورت نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حج
فرض کیا ہے اور میرا باپ بہت بوڑھا ہے سواری پر بیٹھ کر حج نہیں کرسکتا،
کیا میں اس کی طرف سے حج کروں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! اور یہ حجتہ الوداع کا
واقعہ ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :6228)
بعض علماء نے کہا ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے لئے چہرہ پر نقاب
ڈالنا اور حجاب کرنا واجب نہیں ہے ورنہ وہ عورت بے پردہ نہ آتی اور اگر آہی
گئی تھی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو چہر چھپانے کا حکم
دیتے۔
حاظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ وہ عورت
محرمہ تھی البتہ اس کے برخلاف اس حدیث میں یہ ثبوت ہے کہ اجنبی عورت کے
چہرہ کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے، اس لئے نبی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے
حضرت فضل بن عباس کی گردن پھیر دی، جامع ترمذی میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” میں نے جوان مرد اور جوان عورت کو دیکھا اور
میں ان پر شیطان (کے حملہ) سے بے خوف نہیں ہوا۔“ اس وجہ سے آپ نے حضرت فضل
بن عباس کی گردن کو دوسری طرف پھیر دیا۔ اجنبی مردوں اور عورتوں کے ایک دور
سے کی طرف دیکھنے کے معاملہ میں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو
صحابہ کرام پر اعتماد نہیں تھا حالانکہ خوف خدا اور تقویٰ اور پرہیز گاری
میں ان کا سب سے اونچا مقام تھا تو پھر بعد کے لوگوں پر کیسے اعتماد کیا جا
سکتا ہے اور یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اگر ان کو شہوت کا خطرہ نہ ہو تو
پھر وہ اجنبی عورتوں کو دیکھ سکتے ہیں، اس لئے جن بعض فقہاء نے یہ کہا ہے
کہ اگر شہوت کا خطرہ نہ ہو تو اجنبی عورت کو یکھنا جائز ہے، یہ صحیح نہیں
ہے، صحیح یہی ہے کہ اجنبی عورتوں کو دیکھنا مطلقاً جائز نہیں ہے، البتہ
ضرورت کے مواقع اس سے مستثنیٰ ہیں جن کو ہم نے اس سے پہلے تفصیل سے بیان
کردیا ہے، اس لئے اس حدیث پر غور کرنا چاہئے :
(سنن الترمذی الحدیث :885) حضرت عباس نے کہا یا رسول اللہ ! آپ نے اپنے غم
زاد کی گردن کیوں پھیر دی آپ نے فرمایا میں نے مرد اور جوان عورت کو دیکھا
اور میں ان پر شیطان (کے حملہ) سے بے خوف نہیں ہوا۔
بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ قرآن مجید اور احادیث میں غض بصر ” نگاہیں
نیچی رکھنے کا“ حکم دیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ چہرہ چھپانا ضروری نہیں ہے
بس نگاہیں نیچی کرلینا کافی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں صرف غض
بصر کا حکم نہیں ہے چہرہ چھپانے کا بھی حکم ہے جیسا کہ ہم نے آیات حجاب میں
اس کو بیان کردیا ہے۔ رہا یہ سوال کہ جب عورتوں کو کھلے منہ پھرنے کی
چھپانے کا بھی حکم ہے جیسا کہ ہم نے آیات حجاب میں اس کو بیان کردیا ہے۔
رہا یہ سوال کہ جب عورتوں کو کھلے نہ پھرنے کی اجازت ہی نہیں ہے تو پھر غض
بصر کے حکم کی کیا ضرورت ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عورت کے نقاب اور حجاب
میں رہنے کے باوجود ایسے مواقع پیش آ سکتے ہیں جب اچانک کسی مرد اور عورت
کا سامنا ہوجائے اور ایک باپردہ عورت کو بھی نماز اور حج کے مواقع پر چہرہ
کھولنے سے سابقہ پڑجاتا ہے سو ایسے تمام مواقع پر مردوں اور عورتوں دونوں
کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
خواتین کے ستر اور حجاب اور اس سے متعلقہ جملہ مسائل پر علامہ سعیدی ساحب
نے شرح صحیح مسلم میں بہت مفصل اور جامع گفتگو کی ہے اس کے لئے شرح صحیح
مسلم ج ٥ ص 612-691 کا مطالعہ فرمائیں اس موضوع پر اس سے زیادہ بحث شاید
اور کہیں نہ مل سکے۔ |
|