ویسے تو قبضہ گروپ ایسے اشخاص یا ٹولے کو
کہا جاتا ہے جو زبردستی یا غیر قانونی طور پر یا قابل اعتراض ہیتھکنڈے
استعمال کرتے ہوئے ، کسی وسیلے پر قبضہ کرلیں ۔عام طور پر ہم یہ اصطلاح
زمین کے ٹکڑے پر قبضے کیلئے انگریزی سے ماخوذ لینڈ مافیاLand Mafiaکے لئے
استعمال کرتے ہیں ، فلاحی پلاٹ ، رفاعی پلاٹ رہائشی، کمرشل پلاٹ ، غرض یہ
ہے کہ زمین پر قبضے کیلئے لینڈ ما فیا کے اصطلاح مروجہ عام ہوگئی ہے ، لیکن
یہاں میں تذکرہ لینڈ مافیا کا نہیں قبضہ مافیا کا کرنے لگا ہوں ، اس لئے
پہلے ہی وضاحت کردی کہ لینڈ مافیا سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں ہے ، اﷲ کی
زمین ہے وہ اس پر اپنے باپ کا حق سمجھ کر قبضہ کر رہے ہیں تو ہم کیا کرسکتے
ہیں ، سرکاری عملہ ان کے ساتھ رشتے داریاں نبھا رہا ہے تو بیگانے کی شادی
میں عبداﷲ کی طرح دیوانہ کیوں بنوں ، چائنا کٹنگ ہو ، یا امریکن کٹنگ ، اس
سے ہمارا کیا لینا دینا ۔اگر سیاسی افراد کسی زمین پر قبضہ کرلیں اور پھر
کچھ کاغذات ایسے بنا لیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ یہ آبادی سالوں سے آباد ہے تو
اس سے ہمارا کیا تعلق ، نام نہادمذہبی تنظیمیں کا غیر قانونی طور پر مدارس
کی آڑ لیکر میں زمین قبضہ ، مہران ٹاؤن کورنگی انڈسٹریل ایریا میں سمندر
پار پاکستانیوں کی رہائشی اسکیم کی1100ایکٹر اراضی پر سیاسی جماعتوں کا
مفاہمت سے قبضہ ، لیاری علاقہ اور گٹر باغیچہ میں مختلف گروہوں کا قبضہ ،
مختلف ا دوار میں ریلوے کی زمین پر متعدد پلازے وفلیٹس بنا کر قبضہ،
باغییچوں اور ، پارکوں و میدانوں پر قبضہ ۔ مادر علمی کی جگہیں ہوں ،
انسانوں کی دفن کرنے کے قبرستانوں وثقافتی ورثے پر قبضہ ، سمندر ہوں یا اس
کے ساحل اس پر ۔ اسلام آباد میں CDAکی زمین جو نیشنل بک فاونڈیشن کی تھی اس
پر قبضہ ۔اسلام آباد کے نواح میں اربوں روپوں مالیت کے500ایکڑر اراضی
کوڑیوں کے مول با اثر افراد کو سبزیاں اگانے اور مرغیاں پالنے کیلئے دے
دیئے گئے اس سے بھی ہمارا کوئی واسطہ نہیں وہ الگ بات ہے کہ وہاں سبزیاں
اگنے کے بجائے عالیشان محلات اور عیش کدوں کی فصلیں اگ آئیں۔راولپنڈی کے
علاقے خیابان سر سید کے اکلوتے پبلک پارک پر کسی نے مدرسہ بنا لیا تو کیا
ہوا ، پاکستان کی بحریہ اور اس کے سربراہ کا نام استعمال کرکے نہ جانے کہاں
کہاں کوڑیوں کے مول زمیں حاصل کرکے اربوں روپوں میں زمینیں فروخت ہوئیں اور
ہو رہیہیں تو ہم کیا کریں۔ یہ چھوٹے موٹے قبضے زمین کے حوالے سے ہیں ان سے
ہمارا کوئی واسطہ نہیں ۔تو اتنی لمبی تمہید باندھنے کی کیا ضرورت تھی؟
دراصل، میں تو اس بات پر پریشان ہوں کہ پاکستان پر قبضہ کیا جارہا ہے لیکن
کسی کو کوئی سروکار نہیں ، پاکستان کی اساس دو قومی نظریہ پر قبضہ کیا
جارہا ہے کسی کو احساس نہیں ، ملی نظریات پر قبضہ ہو رہا ہے کسی کو احساس
نہیں ،مذہبی عقائد پر قبضہ ہو رہا ہے کسی کو احساس نہیں ،ایک موقر روزنامے
میں پڑھا کہ ایران کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کے الزامات
جھوٹے ہیں اور یہ منفی پروپیگنڈا ہے بھارت کے بجائے ایران کے پیچھے پڑ گئے
ہیں ۔بھئی کوئی کسی کے پیچھے کیا پڑے ہمارے اپنے مسائل کم ہیں۔ ا ب اگر
پاکستانی اور افغانی شہریت کے حامل جنگجو ایران میں تیار ہو رہے ہوں اور آپ
کہو کہ میں نہ مانوں تو اس پر ہم کچھ نہیں کرسکتے ، لیکن یہ تو سب کو ماننا
پڑے گا۔ بھارت کے ایجنٹ ہوں یا ایران ، افغانستان ، امریکہ ، روس یا کسی
بھی ملک کے ایجنٹس ملکی ہوں یا غیر ملکی یہ بات سب کو تسلیم کرنے پڑے گی کہ
پاکستان کی نظریاتی اور زمینی حدود پر کسی کو قبضہ کرنے کی ہر کوشش کو
پاکستانی افواج نے ناکام بنایا ، را کے ایجنٹوں نے بلوچستان ، سندھ خیبر
پختونخوا یا پنجاب میں چٹکی بھر کاروائی ضرور کی، قیمتی جانوں و املاک کا
نقصان ضرور ہوا لیکن پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی ہر سازش کو بھر پور
طریقے سے ناکام بنایاگیا ۔ افغانستان کی شمالی مغربی سرحدیں ہوں یا بھارت
سے ملی مشرقی سرحدیں یا پھر سندھ سے ملحق سرحدیں اور سمندر ، پاکستانی
افواج نے ر اور دیگر ملک دشمن ا ایجنٹس اور ان کے سہولت کاروں کو کامیاب
نہیں ہونے دیا ، ہم زمینوں پر قبضے میں مشغول رہے ، رشوت کے حصول کو مقصد
بنا لیا ، تعلیمی اداروں میں بچوں کوقابل بنانے کے بجائے ان کے لئے نقل کی
فراہمی کے انتظامات اور سفارش میں لگے رہے ، سرکاری نوکریوں کیلئے سیاسی
جماعتوں کے آ لہ کار بن گئے ، پرائیوٹ اداروں میں محنت کشوں کے خون پسینے
کو لوٹنے میں لگے رہے ہمارا دھیان دفاع اسلام و پاکستان سے ہٹ گیا لیکن فوج
بلوچستان میں ہو یا خیبر پختونخوا میں ، راجن پور میں ہو کہ سیاچن میں
کامیابی کے ساتھ ملک کا دفاع کر رہی ہے۔ کوتاہی ہم سے ہو رہی ہے کہ ہم قبضہ
گروپ بنیہوئے ہیں ، ہر اس نعمت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں جو اﷲ تعالی نے
پاکستان میں رحمت کی شکل میں ہمیں مہیا کی ہے ، را ایجنٹوں کو پاکستان میں
کامیابی نہیں ملی بلکہ وہ ناکام ہوئے ہیں اور اس کا سہرا کسی سیاست دان کے
سر نہیں جاتا ، یہ صرف پاکستانی افواج کی قربانیوں کا ثمر ہے کہ کراچی تا
خیبر ملکی دشمنوں اور غیر ملکی ایجنٹوں سے سرزمین پاکستان کا دفاع کامیابی
سے کر رہی ہے ، اس لئے میں بر ملا کہتا رہتاہوں کہ کہ پاکستان کا پارلیمانی
اور نام نہاد جمہوری نظام ناکام ہوچکے ہیں ۔ اس کے دونوں ایوان تحفظِ
پاکستان میں ناکام ہوچکے ہیں ، ان سے قرآن و سنت کے مطابق قوانین اس لئے
نہیں بنتے کہ کیونکہ انھیں اسلامی تعلیم تو کیا دنیاوی تعلیم سے بھی کوئی
لینا دینا نہیں ہے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کی اکثریت ان پڑھ ممبران پر
مشتمل ہے ، ایک جاہل ممبر ملک کا آئین پڑھ نہیں سکتا وہ ملک کا آئین بنانے
کی ذمے داری لینے کیلئے کروڑوں روپوں کی سرمایہ داری کرتا ہے یا پرمٹس کے
ٹھیکے لینے کیلئے ؟ اس پر کبھی ہم نے غور کیا؟؟۔جمہوری نظام میں اقلیت
اکثریت پر حکومت کرتی ہے ، جسے تعلیمی معیار پر چپڑاسی کی نوکری نہیں مل
سکتی وہ دولت کے بل پر وزیر مشیر بن جاتا ہے ۔ سیاست دان ہی سیاست دانپانچ
سال تو کیا پانچ ماہ سے زیادہ ایک دوسرے کوبرداشت نہیں کرسکتے۔جس ملک میں
ایسے تعلیمی ادارے نہ ہو جہاں ارباب اختیار کے بچے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے
ااور انھیں باہر ملک تعلیم کے لئے جانا پڑتا ہو ، ایسے ارباب اختیار غریب
عوام کے کس کام کے ہیں ، پاکستان میں اگر ایک ایسا اسپتال نہ ہو جس میں کسی
وی وی وی آئی پی کا علاج بھی نہیں ہوسکے وہ غریبوں کیلئے کیا خدمت کرے گا
۔جس ملک میں لاکھوں مقدمات سالوں سال سے زیر التوا پڑے ہوں وہاں جلد اور
سستے انصاف کی کیا توقع رکھی جاسکتی ہے ، جس ملک میں غریب کو روٹی چوری
کرنے پر سالوں جیل میں رہنا پڑتا ہو لیکن سرمایہ دار اور اثر رسوخ کی حامل
شخصیت کو صرف ایک پیشی پر اشتہاری مفرور ہونے کے باوجود ضمانت مل جاتی ہو ،
جوڈیشنل کمیشن کے سرخیل کسی مالیاتی اسکینڈل کی غیر جانبداری سے تھقیقات
کریں گے؟ ، مجھے تو کم از کم یقین نہیں آتا ۔ جس ملک میں پانچ سالہ چھوٹے
بچے کو ہتھکری لگا کر عدالت میں پولیس پیش کرتی ہو اور وہی پولیس اثر رسوخ
کے حامل ملزم کیلئے سرخ کارپیٹ بچھاتی ہو تو اس سے انصاف کی کیا توقع رکھ
سکتے ہیں۔پاکستان کے پورے نظام پر قبضہ ہے ، زمینوں سے لیکر انسانوں تک ،
قبضہ گروپ ملوث ہے ۔ہمیں ایسے قبضہ گروپ سے آزادی چاہیے ، ہمیں اسے قبضہ
گروپ کا آلہ کار بننے سے گریز کرنا چاہیے ۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ پاکستان
پر کون کون قابض ہے تو پھر خاموشی کا مطلب یہی ہوا کہ آپ بھی اس قبضہ گروپ
کے سہولت کار ہو آپ کے خلاف بھی نوے دن کا نہیں نوے سال کا ریمانڈ لینے کی
ضرورت ہے۔ہمیں کسی ایجنٹ کو تلاش کرنے کی نہیں خود کو سرمایہ دار ، جاگیر
دار ، وڈیروں ، جاگیر داروں ، مفاد پرست سیاست دانوں ، وطن فروشوں اور ملک
کی اساسی قابض گروپ سے آزادی کی ضرورت ہے ۔ چہرے نہیں نظام بدلنے کی ضرورت
ہے ۔ مسلک کی بنیاد پر نہیں دین اور امت مسلمہ کی بنیادوں اکٹھا ہونے کی
ضرورت ہے۔لسانیت ، صوبائیت ، فرقہ واریت کو خیر باد کہنے کی ضرورت ہے۔ |