جنرل راحیل شریف نے جب چیف آف آرمی سٹاف کو
عہدہ سنبھالاتو اس وقت میں نے ان پر ایک کالم لکھا تھا جس میں ان کی
ابتدائی زندگی سے لیکرملک کو درپیش چیلنجز تک کا ذکر کیا تھا ۔میں نے لکھا
تھا کہ’’ جنرل راحیل شریف نے الحمداﷲ نئے چیف کی کمان تو سنبھال لی مگر
انہیں اس وقت بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ جن میں سرفہرست ڈرون اٹیک اور دہشت
گردی ہے اس کے بعد ملک میں کرپشن اور بے حیائی کا نمبر آتا ہے۔ اب ان کی
قائدانہ اور مدبرانہ صلاحیتوں کا امتحان شروع ہوگیا ہے کہ وہ ان مسائل سے
کس طرح چھٹکارا حاصل کرتے ہیں۔انکی صلاحیتوں سے انکار نہیں مگر وطن عزیز کی
خاطر ان کے فیصلے بہت اہم ہیں۔ان کاتعلق اس خاندان سے ہے جس نے اپنے وطن کی
خاطر اپنی جانوں کے نظرانے پیش کیے۔ان کی جانوں کے نظرانے ان سیاستدانوں کی
طرح نہیں جو موت پر بھی سیاست کرتے ہیں بلکہ یہ وہ خاندان ہے جس نے حقیقت
میں ملک کی خاطر اپنی جانیں نچھاورکیں‘‘۔
’’شریف‘‘کی اعلیٰ صلاحیتوں کی بدولت ڈرون حملوں اور دہشت گردی پر تو کافی
حدتک قابوپالیا ہے۔ ضرب عضب کی مثال پوری دنیا کے سامنے کھلی کتاب کی طرح
ہے۔ اس کے بعد حال ہی میں چھوٹوگینگ کے خلاف ’’ضرب آہن‘‘آرمی کی کامیابی
کامنہ بولتا ثبوت ہے۔ پاک آرمی پر اگر لکھنے بیٹھوں تو ایک کتاب لکھی
جاسکتی ہے مگر جو کام اس آرمی چیف کررہے ہیں ان کی بدولت پورا پاکستان ان
سے بہت سی آس لگائے بیٹھا ہے۔ پچھلے دنوں جب جنرل راحیل شریف کی چیف آف
آرمی سٹاف کی معیاد مدت میں توسیع کی بات چلی تو بہت سے سیاستدانوں نے کہا
تھا کہ ان کو ایکس ٹینشن نہیں لینی چاہیے مگرسوشل میڈیا پر عوام نے ان کے
حق زبردست مہم چلائی جس کی بدولت سیاستدانوں کو بھی اپنے فیصلے پر سوچنے پر
ناصرف مجبور کیا بلکہ کچھ سیاستدانوں نے برملا کہہ بھی دیا کہ انکی معیاد
مدت میں توسیع کی جانے چاہیے۔
جنرل راحیل شریف جس طرح ملک کی ترقی کے لیے کام کررہے ہیں ان کی کوششوں سے
ملکی حالات میں بہت بہتری آئی ہے۔ ابھی 20اپریل کو اپنی تقریر میں جنرل
راحیل شریف نے سنگل رجمنٹل سنٹرکوہاٹ میں کہاتھا کہ پاکستان کی یکجہتی ، سا
لمیت ، ترقی اور خوشحالی کیلئے ہر سطح پر بلاتفریق احتساب انتہائی ضروری
ہے۔ کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا۔ بلا
امتیاز احتساب سے آنے والی نسلوں کا مستقبل بہتر ہوگا۔ انہوں نے یقین دلایا
کہ پاک فوج احتساب کے لئے ہر بامقصد کوشش کی مکمل حمایت کرے گی۔اس بیان کے
بعد حکومتی مخالفین نے اس بیان کو ایشو بنا کر سیاست کرنا شروع کردی۔ انہوں
نے کہا کہ اب بس پانامہ لیکس والوں کی باری ہے تو کسی نے کہا کہ آرمی چیف
اب ڈنڈا اٹھانے والے ہیں۔ لیکن یہ کسی نے نہیں سوچا اور کہا کہ آرمی چیف
پہلے اپنے گھر میں ہی جھاڑومارنے والے ہیں۔
آج میں کسی کام کی وجہ سے اپنے شہر سے باہر تھا جب شام کو گھر پہنچا تو ٹی
وی آن کیا تو ہر چینل پر ایک ہی نیوز بریک ہورہی تھی کہ آرمی چیف کے حکم پر
کرپشن میں ملوث 11فوجی افسران اور دو جوانوں کو برطرف کر کے ان کو دی جانے
والی مراعات بھی واپس لے لی ہیں۔ برخاست کے جانے والوں میں ایک لیفٹننٹ
جنرل اور ایک میجر جنرل بھی شامل ہیں۔ برطرف ہونے والے تیرہ افسران میں
پانچ بریگیڈئیر، تین کرنل اور ایک میجر بھی شامل ہیں۔ برطرف کیے جانے والوں
میں لیفٹننٹ جنرل عبد اﷲ خٹک ، میجر جنرل اعجاز شاہد، بریگیڈئیر حیدر،
بریگیڈئیر اسد، بریگیڈئیر عامراور بریگیڈئیر سیف اﷲ سمیت کرنل حیدر اور
میجر نجیب شامل ہیں۔ناصر ف ان کو برطرف کیا بلکہ فوجی افسران کو کرپشن کی
رقم واپس کرنے کے احکامات بھی جاری کر دیئے اوران کی مراعات بھی ختم کر دی
گئیں ہیں۔
آرمی چیف کے اس اقدام کو پورے پاکستان نے سراہا ہے۔ آج تجزیہ نگاروں سے
لیکر عام آدمی بھی سوشل میڈیا کے سہارے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کررہا
ہے۔ آرمی چیف نے جوپہلا قدم اٹھایا ہے شاید پاکستان کی تاریخ میں کسی نے نہ
اٹھایا ہو۔ اب ہر پاکستانی کی طرح میری بھی یہی دعا ہے کہ آرمی چیف نے جو
قدم اٹھا یا ہے وہ اب رکے نا۔ احتساب ہونا چاہیے اور صرف موجودہ حکمرانوں
کے ہی نہیں بلکہ ان تمام لوگوں کے خلاف ہونا چاہیے جس نے اس ملک میں رہتے
ہوئے عوامی پیسہ لوٹا ہے۔ پانامہ لیکس میں شامل افرادہی نہیں بلکہ ان لوگوں
کے خلاف بھی قدم اٹھنے چاہیئں جنہوں نے دولت کی خاطر اپنے ملک سے غداری کی
ہے۔ ان رشوت خوروں کے خلاف جانا ہوگا جنہوں نے جائز کام کو ناجائز کردیا
اور ناجائز کو جائز بنا دیا۔ پاکستانی عوام نے جنرل راحیل شریف سے بہت سی
امیدیں باندھی ہوئی ہیں۔ وہ ان کو اپنا مسیحا ماننے لگے ہیں۔
جنرل صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اگر تمام پارٹیوں کے سربراہان اپنے سمیت
اپنی اپنی پارٹی سے گند صاف کردیں تو ملک دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے
گا۔ پاکستان کا پیسہ ملک سے باہر نہیں جاسکے گا۔ کوئی لیکس پاکستان کو
بدنام نہیں کرسکے گا۔ کوئی گرل بیگ بھر کر کرنسی پاکستان سے باہر نہیں لے
جاسکے گا۔ صر ف پہلا قدم اٹھا نے کی دیر ہے پھر دیکھنا کیا ہوتا ہے بشرطیکہ
قدم رکنا نہیں چاہیے۔ |