توانائی کی طلب و رسد میں خلیج کا تجزیہ

 دنیا جس رفتار سے ترقی کی منازل چھو رہی ہے اس کا اندازہ لگانا شاید مشکل ہو۔مگراس بات سے سب واقف ہے کہ ترقی کی اس بھاگ دوڑ میں انرجی کا کردار جسم میں خون کے ماند ہے۔لہذا ہر ملک توانائی کے حصول کے لئے دن رات تگ ودو کر رہے ہیں۔کیونکہ وہی ملک جلد ترقی کی راہ اپنا لیتی ہے جہاں توانائی کی رسد اس کے بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔مگرموجودہ دور میں وطن عزیز اس صلاحیت کے اعتبار سے مایوس کن دکھائی دیتا ہے۔ملک میں بڑھتے ہوے کارخانوں اور نت نئی ٹیکنالوجیز کی وجہ سے جہاں عوام کے زندگی میں آسانی پیدا ہوئی ہے وہاں ملک کو ایک بڑی امتحان سے بھی دوچار کر دیا ہے۔مگرملک اس امتحان سے اب تک نکلنے کا نام نہیں لے رہا ۔توانائی کی طلب اور رسد میں آنے والے اس خلیج کی وجہ سے ملک کے معاشی پہیہ جام ہو کر رہ گیاہے۔بہت سے کارخانے بند ہوئے ،چھوٹے کاروبار سست روی کا شکار ہو گیا۔ جس سے نہ صرف معاشی میدان میں ملک پیچھے رہ گیا بلکہ ملک کے اندر بے روزگاری میں بھی ہوش ربا اضافہ ہو گیا۔ملک میں بیرونی سرمایہ کار ی تقریبا ماند پڑ گئی ۔ برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہو نا شروع ہوا جس سے ملک کی زر مبادلہ کے ذخائر پر بھی کافی منفی اثر ات مرتب ہوئے۔ یہ تمام خامیاں اُس صورت میں دور ہو سکتے ہیں ۔ جب ملک میں توانائی کا بحران ختم ہو۔ وطن عزیز قدرت کے کئی انعامات سے مالا مال ہے۔ اگر انھیں ایمانداری کے ساتھ بروے کار لائے تو ہم غیروں کے محتاجی سے چٹکارا حاصل کر سکتے ہیں ۔ہماری ایک خامی ہمیں سو پریشانیوں کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ ملک میں بجلی پیدا کرنے کے کئی زرائع موجود ہونے کے باوجود ہم آج بھی اندھیروں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہماری حکومت ان ذرائعیوں سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا جس کی وجہ سے آج تک توانائی کی طلب پوری نہیں ہو رہی ۔جس کی اہم وجہ توانائی کے ان منصوبہ جات کامؤخر ہونا ہے ۔ اگر ہم تھوڑا پیچھے مڑکر دیکھیں تو نوے کی دہائی تک ملک میں بجلی کی زائد طلب دیکھنے کو نہیں ملتی جس کی اہم وجہ ملک میں جدید انڈسڑیز اور ٹیکنالوجز کا نہ ہونا تھا۔جوں جوں ملک ٹیکنالوجی کے میدان میں پھلتا پھولتا گیا توانائی کی طلب میں دن بہ دن اضافہ ہوتا گیا۔ اسی بڑھتی ہوئی طلب کو سامنے رکھتے ہوئے جب۱۹۹۴ میں بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں ملک میں انرجی کی طلب اور رسد کو برقرار رکھنے کے لئے Indipandan Power Producer (IPP) کو 5500 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کی منظوری دے دی گئی جو کی کسی حد تک ملک کی بڑھتی ہوئی طلب کو قابوپانے میں کامیاب بھی رہا تھا مگرکچھ عرصے بعداسے کئی مسائل جن میں کرپشن کے الزامات اور حکومتی چھان بین وعیرہ شامل ہے کا سامنا کرنا پڑاجس کی وجہ سے یہ کمپنی زیادہ عرصہ نہیں چل سکا۔ماہرین کے مطابق اس کی اصل وجہ بجلی کی مہنگی فروخت بھی کہا جاتا ہے۔ جوکہ پرائیویٹ پاور پروڈیوسر کی حوصلہ شکنی کی وجہ بنی۔وطن عزیز کو بیرونی سرمایہ کاروں کی اشد ضرورت ہونے کے باوجود ہم ایسے سرمایہ کاروں سے ہاتھ دھو بیٹھتے رہے۔ بحر حال بیسویں صدی کے شروعات میں ملک کی مجموعی طلب اور رسد تقریبا یکساں تھا ۔ یہاں تک کہ ۹۹۔۱۹۹۸ میں ملک میں انرجی کی رسد طلب کے مقابلے میں۲۰۰۰میگاواٹ زیادہ تھی۔ماہرین کے مطابق ملک اس وقت بجلی کی برآمدی استعدادکے بھی اہل تھا۔ مگر ملک کے غیر یقینی پالیسیز کی وجہ سے ہم اپنی زائد پیداوار کو بیرون ملک برآمدکرنے سے بھی قاصر رہا۔مگر وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت گرو ہ کرنے لگی اور جدید مشینری اور کارخانوں کی آمد نے بجلی کی طلب میں ہوش ربا اضافہ کر دیا۔ اور یوں ۲۰۰۵ میں انرجی کی طلب اور رسد یکساں درجے پر آپہنچا۔ اُس موقع پر اس بڑھتی ہوئی انرجی کی طلب کو پوراکرنے کے لئے موئثر قدم نہیں اٹھائے جانے کی وجہ سے سال بہ سال انرجی کی مجموعی طلب کا خط اوپر کی طرف شفٹ ہونا شروع ہوا ۔ جو کہ اگر دیکھا جائے تو 2006 میں تقریبا 1200 میگاواٹ کی شاٹ فال ،2007 میں 2500 اور 2008 میں5000میگاواٹ تک جاپہنچی اسی طرح 2015-16میں کسی حد تک کمی بیشی کے ساتھ یہ قلت 6000 میگاواٹ تک برقرا ر ہے ۔ اگر یہی صورت حال رہی تو مستقبل میں یہ بحران سنگین حد تک بڑھ سکتی ہے۔بچھلے سالوں میں سیاسی بحران، دہشت گردی کے خلاف جنگ وغیرہ کی وجہ سے حکومتی توجہ اس مسئلے سے ہٹے رہنے کے سبب ملک میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور دور دراز علاقوں میں اب بھی 12سے14 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ بر قرار ہے۔ کارخانوں کو ان کے طلب کے مطابق انرجی فراہم نہیں ہو رہی۔ جس سے ملکی معیشت کو تقریبا240 ارب تک کا نقصان برداشت کرناپڑ رہا ہے ۔ اگر ہم سابقہ پروجیکٹس کی بات کریں تو 2002سے اب تک بہت سارے پروجیکٹس ادھورے پڑے ہوئے ہیں۔ جن میں سے کئی پروجیکٹس پر کام شروع کرنے کے بعد ادھورہ رہ گئے ۔ گزشتہ حکومت کی طرف سے رینٹل پاور پراجیکٹس کا خواب ضرور دکھایا گیامگر وہ منصوبہ جات شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ۔ہمارا ملک ہائیڈرل پاور سے 40 ہزارمیگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود صرف 6555 میگاواٹ بجلی پیدا کررہی ہے۔جو کی مجموعی رسد کا 34فیصد سمجھا جاتا ہے۔جبکہ باقی64 فیصد انرجی ایندھن سے حاصل ہو رہی ہے۔ جو کہ ہا ئیڈرل کے مقابلے میں خاصی مہنگی ہے۔ہائیڈرل سے حاصل ہونے والے بجلی کی مقدار کو بڑھانے کے لئے ملک میں ڈیمزکی تعمیر پر خاصی توجہ کی ضرورت ہیں ۔موجودہ دور میں چند نمایاں ڈیمز میں تربیلاڈیم، غازی بوردا، منگلا، وارساک، اور چشمہ ڈیم قابل ذکر ہے۔جن کی مجموعی رسد 6352میگاواٹ بتائی جاتی ہے ۔ جو کہ ملک کی مجموعی طلب سے کافی کم ہے ۔بہت سارے ایسے ڈیمزجو کہ مختلف مسائل کا شکا ر ہونے کی بنا پر مکمل نہیں ہو ا جن میں دیامر بھاشا ڈیم ، مونڈا ڈیم، کالاباغ ڈیم، بونجی اور داسو ڈیمز سر فہرست ہے ۔جن کی مجموعی پیداوار 18040 میگاواٹ ہو سکتی ہے ۔جو کہ تھرمل کے مقابلے میں کئی گنا سستی بھی ہوگی۔ دوسری طرف سولرسے حاصل ہونے والی بجلی بھی جدید دور میں سستی ترین بجلی میں شمار کیا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے ابھی تک سولر سے کوئی قابل ذکر انرجی حاصل نہیں ہو رہی البتہ موجودہ حکومت چین کے امداد سے بہاولپور میں قائد عظم سولر پلانٹ لگانے کا عزم ضرور ظاہر کی ہے۔ ملکی معیشت کو موجودہ دور میں کئی مسائل کا سامنا ہے جن میں جی ڈی پی اور پی پی پی کے نچلی سطح ، افراط زر ،بے روزگاری جیسی مسا ئل شامل ہے ۔ لہذا ان مسائلوں کو دور کرنے کا واحد راستہ انرجی کے بحران سے نجات حاصل کرناہے۔ جو کہ قدرتی زر ائعوں سے حاصل ہونے والی انرجی کی طرف توجہ دے کرہی ممکن ہو سکتی ہے۔
Shakeel Ahmad Balti
About the Author: Shakeel Ahmad Balti Read More Articles by Shakeel Ahmad Balti: 9 Articles with 6840 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.