موت ۔۔۔ختم ہوجانے والا سفر (حصہ اول)
(Muhammad Jawad Khan, Havelian)
گاڑی اپنی ہوبیگانی مگر مقصد دونوں صورتوں
میں ایک ہی ہے کہ سفر۔۔۔ اور سفر چاہے کوئی بھی ہو اس کے لیے کچھ شرائط
ہوتی ہیں جن میں سے ایک ایسی شرط کہ جس کے بغیر سفر ناممکن ہوتا ہے اگرچہ
کہ باقی شرائط بندہ نہ بھی پورا کر سکتا ہو مگر سفر کٹ ہی جاتا ہے۔۔۔جو
لازم شرط ہے وہ ہے کہ منزل کا تعین ہونا۔۔۔آپ کو اپنی منزل کا معلو م ہو
جہاں جانا ہو اس مقام کا علم ہو۔ یہ شرط ہر قسم کے سفر کے لیے لازمی ہوتی
ہیں چاہے وہ سفر زندگی کا عارضی سفر ہو یا ابدی سفر۔۔۔مگر افسوس کا مقام تو
یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں ہم کو اپنے عارضی سفر کی منزل کا تو
معلوم ہوتا ہے مگر زندگی کے ابدی سفر کی منزل سے ہم انجان بنے گھومتے ہیں،
دنیا کے سفر کے تذکرے، منزل پر درپیش آنے والے واقعات و حالات کو ہم اپنے
دوست احباب کے ساتھ بڑے خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں
حالانکہ موت پر تو ہر انسان کا ایمان ہے لیکن اس کے باوجود ہم میں سے کوئی
بھی اپنے اس حقیقی سفر کے بارے میں خیال بھی لانا پسند نہیں کرتا، اس سفر
کے تذکرے کرنا تو دور کی بات ہلکا سا خیال بھی دل میں آجائے تو ہم اسے
جھٹکنے اور بھگانے کی کوشش کرتے ہیں، اور اکثر ہم نے دیکھا ہے کہ جب کبھی
ہم نے زندگی کے سفر کے بارے میں کسی سے کوئی سوال کیاہے تواس نے اس سفر کے
کسی حصے کی بڑے خوبصورت انداز میں عکس بندی کی یا پھر کسی ایک حصے کو
دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش و تمنا کا اظہار کیا مگر جب بات آجاتی ہے منزل (موت
)کی طرف یا پھر پوچھ لیاجائے کہ منزل پر کب جانا ہے تو انتہائی غصے اور تلخ
لہجے میں اکثر ناراض بھی ہو جاتے ہیں یا پھر آگے سے ایک ہی جواب دیتے ہیں
کہ ـ"میں کیوں جاؤں۔۔۔تم جاؤ۔۔۔"حالانکہ اگر دیکھا جائے تو سب مسافروں نے
آخر کار جانا تو ادھر ہی ہے اور بے بسی کا عالم تو یہ ہے کہ سفر نہ بدل
سکتا ہے، نہ وآپس کسی اسٹیشن یا سٹاپ پر لایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی
منزل پر اپنی مرضی سے زیادہ دیر تک رکا جاسکتا ہے، یہاں تک کہ نہ آپ گاڑی
بدل سکتے ہیں اور نہ ہی ڈبہ چینج کر سکتے ہیں، نہ سفر کی رفتار آہستہ یا
تیز کر سکتا ہے، بلکہ ایک رفتار و سپیڈ کے ساتھ بن بتائے ، بن رکے آگے
دھکیلا جا رہا ہے اور مسلسل دھکیلا جارہا ہے، مزے کی بات تو یہ ہے کہ مسافر
کو سب کچھ معلوم ہے مگر وہ ان سے جان بوجھ کر انجان بنا بیٹھا ہے۔اس سفر کی
ایک اور مثال دیتا ہوں کہ ہم نرسری سے ایک نازک سی ٹہنی والا پودا سے لیتے
ہیں اسکو کھاد ، پانی اور حفاظت کے ساتھ طاقتور درخت پھرجب پھل کے لیے پھول
لگتے ہیں تو انسان کو خوشی کی امید نظر آتی ہے مگر جب پھولوں سے پھل بن
کرپک جاتے ہیں تو پھر سب کی نظریں اس پھل پر جم جاتی ہیں، ہر طرف سے خطرات
بڑھ جاتے ہیں اور انسان لاکھ کوششوں کے باوجود بھی پکے ہوئے اناج کو
گلنے،سڑنے، گرنے اور کسی کے ہاتھ سے ٹوٹ جانے سے نہیں بچا سکتے ہیں حالانکہ
وہ وقت ایسا ہوتا ہے کہ انسان کا دل نہیں کرتا کہ وہ اس درخت کے پھلوں کو
ضائع ہونے دے مگر پھر بھی ایک مدت کے بعد ان پھلوں سے ہاتھ دھونا ہی پڑتا
ہے ، بالکل اسی طرح انسان جو آج زمین پر اس قدر ناز و نیاز سے گھومتا پھرتا
نظر آتا ہے کیسے وہ ایک گندے خون کے قطرے سے نازک جسم بنتا ہے پھر رفتہ
رفتہ زمانے کی کھاد و پانی سے بڑھ کر موافق و ناموافق حالات سے گزرتے ہوئے
ایک طاقت ور انسان بنا ہوتا ہے پھر کیسے اس کے اندر غرور و تکبر آجاتا ہے۔
حالانکہ اسی انسان کو ایک دن منوں مٹی کے نیچے اسی کے دوست احباب،رشتہ دار
سب مل کر بے یار و مددگار اکیلا چھوڑ آئیں گئے جہاں ماسوائے بزرگ زیدہ
بندوں کے باقی تقریباََ سب ہی کے لیے فنا ہونا ہی لکھا ہے، اپنے اعمال و
ایمان سے اپنی زندگی کو امر کیا جا سکتا ہے مگر زندگی کے اس تلخ و حقیقی
سفر سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہی ہماری فلاح ہے، نہیں تو آ ج قبرستان میں جا
کر دیکھ لو کہ کتنے نامور لوگوں کے نام کتبوں سے بھی مٹ گئے اور آج انکا
نام لینے والا بھی کوئی موجود نہیں۔ذرہ غور کرو کہ اس جسم کو ہم جتنا سمیٹ
سمیٹ کر رکھتے ہیں ، بڑا بناؤ سنگار ، بڑا رعب و وہشت ، قدو جسامت سب کچھ
لمحہ پل کے لیے مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتا ہے، وہ ہی شخص جو کچھ دیر
قبل کسی کا رشتہ دار تھا مگر لمحہ بعد اسکا نام تبدیل کر کے میت رکھ دیا
گیا۔ گھر والوں سمیت گو کہ ہر بندے کو جنازے کے ٹائم کا انتظار ہوتا ہے کہ
ٹائم ہونے والا ہے اکثر جنازوں میں آواز یں بلند ہوتی ہیں کہ ٹائم پورا ہو
گیا ہے میت حاضر کروعرضیکہ کوئی نہیں جو آپ کو اس حالت میں رکھ سکتا ہو، آہ
و پکار ہی کرنے والے کچھ دنوں کے بعد ترکے و تقسیم کی باتوں میں مصروف ہو
جاتے ہیں ، دس ، بیس، تیس دن، سال ، دو سال بس۔۔۔ وقت سب سے بے رحم اور
واحد مرہم ہے جو زخموں کو تو بھر دیتا ہے مگر نہ کسی کو وآپس لوٹا سکتا ہے
اور نہ ہی کسی کو جانے سے روک سکتا ہے، اور ہم اس دنیاؤی زندگی کو ہی سب
کچھ سمجھ بیٹھے ہیں اور اسی میں میں کی زندگی میں اپنی میں میں، اپنی میں
کے لیے میں بنے ہوئے ہیں ۔(جاری ۔۔۔۔حصہ دوئم) |
|