پرانے وقتوں کی بات ہے کہ تین آدمی سفر پر
جا رہے تھے۔راستہ ایسا کٹھن اور دوشوار گزر تھا کہ کہیں ریگستان میں سے گزر
ہوتا تو کہیں جھاڑیوں کا جنگل آجاتااور کہیں پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا
تھا۔تینوں مسافر پہاڑوں میں سے گزر رہے تھے کہ یکا یک طوفانی آندھی آگئی اس
کے ساتھ ہی آسمان سے بارش اور اولوں کی بوچھاڑ ہونے لگی انہیں اور تو کچھ
نا سوجھا سامنے ایک غار نظر آیا اور وہ اس خوفناک طوفان سے بچنے کے لیے اس
غار میں جا گھسے۔آندھی چلتی رہی ،بارش اور اولے برستے رہے اور وہ تینوں
سہمے ہوئے اس منظر کو دیکھتے رہے وہ دعائیں مانگ رہے تھے کہ الہی اس طوفان
سے نجا ت دے ، اتنے میں پہاڑ کے سے ایک بڑا سا پتھر گرا اور غار کا منہ بند
ہو گیا ۔اب تو وہ سخت گھبرائے ،پتھر ہٹانے کے لیے تینوں نے مل کر زور لگایا
مگر وہ پتھر اتنا بھاری تھا کہ اپنی جگہ سے ذرا نہ سرکا ۔غار سے باہر
نکالنے کا کوئی راستہ نہ تھا ۔تینو مسافر مایوس ہو کر بیٹھ گئے اور موت کا
انتظار کرنے لگے ان میں سے ایک نے کہا آؤ دوستواپنے اپنے اچھے کاموں کو یاد
کر کہ اﷲ سے دعا مانگیں شاید اﷲ تعالی ہمیں اس مصیبت سے بچا لے ایک مسافر
نے کہا اﷲ آپ تو جانتے ہیں کہ میں اپنے بچوں کو حلال روزی کھلانے کے لیے دن
رات محنت کرتا ہوں،میں نے حرام کا لقمہ نہ کبھی خود کھایا اور نہ ہی بچوں
کو کھلایا ہے۔اے خدایا اگر میرا یہ کام تجھے پسند آ جائے تو اس پتھر کو ہٹا
کر ہمیں موت کے منہ سے نکال ۔پتھر زرا سا سرکا اور باہر سے روشنی کی ایک
ہلکی سی لکیر اندر آنے لگی ، دوسرا مسافر بولا اے خدا آپ تو جانتے ہیں کہ
میں نے ہمیشہ غریبوں اور محتاجوں کی مدد کی ہے اور کسی سائل کو اپنے دروازے
سے کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹایا ،اگر میرا یہ کام تجھے پسند ہے تو ہمیں
ہلاکت سے نجات بخش۔ پتھر اور ذرا سا سرک گیا مگر ابھی اتنی جگہ خالی نہ
ہوئی تھی کہ اس میں سے آدمی باہر نکل سکتے ۔ تیسرے مسافر نے کہا الہی آپ تو
جانتے ہیں کہ میں سارا دن اپنی بکریا ں چراتا ہوں شام کو گھر آتا ہوں
بکریوں کا دودھ دوہتا ہوں اور سب سے پہلے اپنے بوڑھے ماں باپ کو پلاتا ہوں
اس کے بعد اپنے بیوی بچوں کو دیتا ہوں میرے ماں باپ مجھ سے خوش ہیں۔اگر
تجھے میرا یہ کام پسند ہے تو ہمیں اس مصیبت سے بچا لے ۔جو نہی دعا ختم ہوئی
پتھر لڑھکا اور نیچے جا گرا اور غار کا منہ کھل گیا ، اس وقت تک آندھی اور
بارش کا طوفان بھی ختم ہو چکا تھا ۔ تینوں مسافر وں نے خدا کا شکر ادا کیا
اور غار سے باہر نکال کر اپنے راستے پر چل دئیے۔۔۔اس واقعہ کو سنانے کا
مقصد یہ ہے کہ ا ﷲ تعالی نے ہر انسان کے ذمے کچھ کام لگائے ہوئے ہیں جن کو
پورا کر نا اس پہ فرض ہوتا ہے ۔اِس واقعہ میں جو پہلی بات کی گئی وہ ایک
باپ کی تھی جو اس نے اﷲ کے سا منے ایک نیک عمل سمجھتے ہوئے پیش کی کہ تیرے
حکم کی تکمیل میں، میں نے حلال روزی کمائی اور اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹ
میں حرام کا ایک لقمہ تک نہ جانے دیا ۔اس دعا میں بہت گہرائی ہے جو ایک
بندے نے اﷲ کے سامنے کی ۔حلال زوری کمانے کا حکم قرآن و حدیث میں واضح طور
پر ملتا ہے ۔آج کے دور میں اگر اس واقع کو دیکھا جائے تو صرف افسوس ہی ہو
گا کہ ھمارے ہاں تو شا ئد ہی کوئی ایسا گھر ہو جہاں حرام کی کمائی نہ آتی
ہو۔اس بات پر بہت سے لوگوں کو اعتراض ہوسکتا ہے۔مگر میرا مقصد سود کی طرف
توجہ دلانا ہے ۔ہمارا ملک جو کہ ایک اسلامی جمہوریت ہے مگر افسوس کہ ہمارے
صدر علماء کرام سے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ سود کی راہ نکالیں تا کہ ہمیں
کچھ ہو جائے ۔کیوں؟ کیونکہ سود کے بنا ہمارا گزارا نہ ممکن ہے ۔یہ تو اب کی
بات ہے مگر اس سے پہلے کون سا ہمارا نظام پاک ہے۔کسی نہ کسی طرح ہر گھر میں
سود کا پیسہ جارہا ہے اور یہ حرام کھانا اب شاید ہماری مجبوری بن گیا ہے ۔پتہ
نہیں کیوں ہمارا دل ودماغاس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ سود کے بارے میں
اسلامی نقطہ نظر کا پا س تک نہیں رکھ سکے کہ اﷲ کے
رسولﷺنے سود کو حرام قرار دیا ہے۔مجھے کوئی یہ بتائے کہ جس ملک کا نظام ہی
سودی ہو وہاں حلال رزق کمانا کیسے ممکن ہو پائے گا میری تنقید عام لوگوں پر
نہیں جو اپنے حصہ کا کام پورا کر تے ہیں اور پھر تنحواہ لیتے ہیں ۔مگر بات
جو بھی ہو آج ہمارے اوپر جو اِتنی آرہی ہیں اور ہم جوقدرتی آفات سیلاب ،زلزلے
وغیرہ کا شکار ہو رہے ہیں تو صرف اس وجہ سے کہ ہم نے رزق حلال کمانا بند کر
دیا ہے اور جو کمانا چاہتے ہیں ان کے لیے راستے اتنے تنگ کر دیتے ہیں کو وہ
چاہتے ہوئے بھی ان حالات کا مقابلہ نہیں کر پاتے ۔ انسان کھائے ،پئیے بنا
آحر کب تک زندہ رہ سکتا ہے کوئی نہ کوئی ذریعہ اور رستہ اختیار کرنا ہی
پڑتا ہے ۔کوئی نہیں چاہتا کہ اس کے بچے روتے بلکتے سو جائیں اور وہ بے بسی
کی تصویر بنا دیکھتا رہے۔دوسرا پہلو جو اس واقع سے سا منے آتا ہے کہ اﷲ
تعالی مدد کرنے والوں کو بہت پسند کرتا ہے۔انسان سب برابر ہیں اﷲ نے اگر
کسی کو مالی طور پر کچھ ذیادہ عطا فرمایا ہے تو وہ صرف ایک آزمائش ہے ۔اﷲ
دیکھنا چاہتا ہے کہ میرے مالدار بندے جن کو میں نے اس نعمت سے نوازا ہے وہ
میرے ان بندوں کی مدد کرے جو اس نعمت سے محروم ہیں ۔بعض اوقات اﷲ ایک انسان
سے دوسرے انسان کی مدد کروانا چاہتا ہے۔اس لیے وہ ایک کو نوازتا ہے اور
دوسرے کو کچھ وقت کے لیے محروم رکھتا ہے تاکہ وہ اپنے ہی بندے کے ذریعہ مدد
کروائے اور ان میں پیارومحبت کا رشتہاستوار کروائے ۔غریب ہونا کوئی غلط یا
شرمندگی کی بات نہیں ہے۔غریب ہونا ایک آزمائش ہے اور اس آزمائش سے انسان
محنت کر کے نکل سکتا ہے۔جب انسان غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرتا ہے تو جو
اطمینان اور سکون انسان کی روح کو ملتا ہے وہ کسی بھی پارٹی اور تفریح کرنے
سے میسر نہیں آسکتا۔نیکی ایسے کرنی چاہیے کہ اگر ہم ایک ہاتھ سے دیتے ہیں
تو دوسرے ہاتھ کو پتہ تک نہ چلے مگر آج کل لوگ فوٹو شوٹ کروانے اور شو آف
کے لیے لوگوں کی مدد کرتے ہیں تا کہ ساری دنیا کو معلوم ہو کہ ہم کتنے مخلص
اور نرم دل رکھتے ہیں ۔ہمیں غریبو ں کا کتنا احساس ہے ۔مگر یہ سب غلط قرینے
ہیں ہاں اگر سچے دل کے ساتھ لوگوں کو ترغیب دینے کے لیے لوگوں کو دیکھا کر
نیکی کی جاتی ہے تو وہ ایک الگ معاملہ ہے۔تیسرا پہلو والدین کی خدمت
کرنااور بیوی بچوں کے حقوق کا خیال رکھنا ہے۔جب انسان اپنے والدین کی خدمت
کرتا ہے ان کے حقوق اور ضروریات کا خیال رکھتا ہے تو اﷲ اس کو بے حد پسند
فرماتا ہے اور اپنی نعمتوں کے دروازے ان پر کھول دیتا ہے جو کہ اپنے والدین
کی خدمت اس طرح کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے کہ بچپن میں والدین اپنے بچوں
کو پالتے ہیں ۔والدین ایک بہت بڑی نعمت ہیں اگر ان کو مسکرا کر دیکھا جائے
تو بھی ثواب ملتا ہے ۔تو اگر ہم ان کے حقوق پورے کرنے کی کوشش کریں گے تو
نا جا نے اﷲ ہمیں کیسے کیسے اور کن کن نعمتوں سے نوازے گا ۔اسی طرح بیوی
بچوں کے حقوق بھی بہت اہم ہیں -
اسلام نے ہمیں بیوی بچوں کے معاملے میں اﷲ سے ڈرتے رہنے کا حکم دیا ہے اور
جتنا ہو سکے اتناان کے ساتھ ہمدردی کا حکم دیا ہے۔مگر افسوس آج ہمارے ملک
پاکستان میں اولڈ ہاؤسسز بنا دیے گئے ہیں اور بچے بنا کسی خوف کے اپنے
والدین کو یہ کہہ کر چھوڑ آتے ہیں کہ ہمارے گھر میں جگہ نہیں ہے یا ان کی
بیماری ایک بہانا بن جاتی ہے لوگ جا ہلیت کا ثبوت دیتے ہوئے یہ تک کہہ جاتے
ہیں کہ ان کی بیماری ہمارے بچوں کو لگنے کا اندیشہ ہے اس لیے ایک بیکار
پرزہ کی طرح والدین کو اُٹھا کر ان اولڈ ہاؤسسز کی زینت بنا دیا جاتاہے
۔افسوس آ ج ہمارا معاشرے میں والدین کی قدر کرنا ختم ہو گیا ہے ۔والدین کو
بوجھ سمجھا جانے لگا ہے ۔وہ والدین جو اپنے خون پسینے سے اپنی اولاد کو ایک
شجر کی ما نند سینچتی ہیں اور جب ان شجر کی سایہ دار چھاؤں میں سستانے کا
وقت آتا ہے تو یہی اولاد ،والدین کو اولڈ ہاؤسسز کی جلتی ہوئی دھوپ میں
پھینک آتی ہے۔ان سب باتوں کے بعد آخر میں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر ہم
چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی کرے اور ہم سود ،حرام ، رسوائی اور شرمندگی سے
بچیں اور اﷲ کے سامنے سرخروئی حاصل تو ہمیں سب سے پہلے رزق حلال کمانے کی
طرف قدم اُٹھانا ہو گا ۔پھر محتاجوں اور غریبوں کی مدد کرنی ہو گی ان کو
تانے دینا اور ذلیل کرنا جو کہ آج کل ایک معمولی سی بات بن گئی ہے اس سے
ختم کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا اور ہم کسی کا دل
دُکھا دیتے ہیں یہ سو چے سمجھے بغیر کہ دکھی دل سے نکلی بد دعا فوراِِ عرش
تک پہنچ جاتی ہے اور اگر کسی کی بددعا ہمیں لگ گئی تو ہم کہیں کے نہیں رہیں
گے۔اور اس سب کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے والدین اور بیوی بچوں کے حقوق کا بھی
پوری طرح خیال رکھنا ہے۔باتیں کرنا بہت آسان لگتا ہے مگر اگر ہم نے ابھی
بھی حوش کے نا خون نہ لیے اور پہلے جیسی روش ہی رکھی تو ہمیں بچانے کے لیے
کوئی کچھ نہ کر سکے گا اور ہم پستی کا شکار ہوتے چلے جائیں گے ۔اگر کا
میابی چاہیے تو ہمیں اس واقعہ سے سبق سیکھنا چاہیے اور اس راز کو سب تک
پہنچانا ہو گا تا کہ سب کہ معلوم ہو کہ رزق حلال کمانا ،غریبوں کی مددکرنا
اور والدین اور بیوی بچوں کے حقوق کو پورا کرنا ہی کامیابی کا ذریعہ
ہے۔ہمارے لیے دُنیا اور آخرت کی کا میا بی دونو ں ضردری ہیں اور اس کا
میابی کو عاصل کرنے کے لیے ہمارا ان باتوں پہ عمل کرنا بہت ہی ضروری ہے ۔اﷲ
تعالی ہمیں ان باتوں پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین․․․․ |