فاتح قادیانیت پیر مہر علی شاہ گولڑوی اور مرزا غلام قادیانی

صحابہ کرام علیہم الرضوان کے دور کے بعد پہلی صدی سے لے کر آج تم ہر زمانے کے اور پوری دنیائے اسلام میں ہر ملک کے علمائے اسلام اس عقیدے پر متفق ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا اور یہ کہ جو بھی اس منصب کا دعویٰ کرے یا اس کو نبی مانے وہ کافر ہے اور خراج از ملت اسلام ہے۔

حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا مجھے موقع دو کہ اپنی نبوت کی علامات پیش کروں۔ اس پر امامِ اعظم نے فرمایا کہ جو شخص اس کے دعوے کی کوئی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہو جائے گا کیونکہ رسولِ کریم فرما چکے ہیں لا نبی بعدی۔

بعض لوگون کے اذہان میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام قربِ قیامت میں نازل ہوں گے تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی کیسے ہوئے؟ علامہ زمخشری، صاحبِ تسفیر کشاف اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ علیہ السلام کا آخری نبی ہونا اس معنی میں ہے کہ حضور کے بعد کوئی نبی نہ مانا جائے گا اور عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں میں سے ہیں جو آپ سے پہلے نبی بنائے جا چکے تھے اور جب وہ نازل ہوں گے تو شریعتِ محمدیہ کے پیرو اور آپ کے قبلے کی طرف نماز پڑھنے والے کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ ہی کی امت کے ایک فرد ہوں گے۔

قارئین! تعجب اس بات ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو دنیا بھر کے مسلمانوں میں صد سالہ کوششوں اور کاوشوں کے بعد چند لاکھ کی زاغ صفت، مفاد پرست نفری نے ہی نبی مانا اور باقی سوا ارب مسلمانوں نے اس کو دجال اور کذاب قرار دیا۔ اس پر کوئی فخر کرے کہ انہوں نے اتنے عقیدت مند پیدا کر لئے اور اسلام کو اتنی خدمت کی تو ہم گزارش کریں گے کہ تم مرزا صاحب کو اس لئے نبی مانتے ہو کہ انہوں نے چند کافروں کو کلمہ پڑھایا۔ ہم اولیائے کرام کے زمرے میں آپ کو ایسے مبلغ دکھاتے ہیں جنہوں نے ہزاروں، لاکھوں کفار کو کفر کی ظلمتوں سے نکال کر ہدایت کی شاہراہ پر گامزن کر دیا۔ خواجہ خواجگان والئی ہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمہ اللہ علیہ نے لاکھوں مشرکوں کو مسلمان کیا۔ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمہ اللہ علیہ کا دریائے فیض آج تک تشنگان معرفت کی پیاس بجھا رہا ہے۔ حضرات مشائخ چشت اہل بہشت اور دیگر اولیائے کرام نے اسلام کی جو خدمات سر انجام دیں، ان کے مقابلے میں ساری ذریتِ مرازئیہ کی تبلیغی کوششوں کی نسبت سمندر اور قطرے کی بھی نہیں۔

ان کارہائے نمایاں کے باوجود ان حضرات نے نہ نبوت کا دعویٰ کیا نہ مہدویت کا، نہ مسیحیت کا، نہ ظلی نبوت کا، نہ بروزی نبوت کا بلکہ انہوں نے ساری زندگی اپنے آپ کو غلامانِ مصطفیٰ ہی کہا اور اسی غلامی کو اپنے لئے باعثِ صد افتخار اور موجب سعادت دارین سمجھا۔ حیف ہے اس شخص پر جو اتنے بڑے بلند و بانگ دعوے کرے اور حالت یہ ہو کہ جب فخر السادات علامہ دوراں، نائب غوث الوریٰ سیدنا پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ علیہ نے اس سے کلمہ طیبہ کے معنی پوچھے تو اس کے ہوش اڑ گئے اور پھر جب اس نے اعجاز المسیح نامی کتاب بطور معجزہ پیش کی تو حضرت پیر صاحب نے اپنی مشہور زمانہ کتاب سیف چشتیائی میں ایک سو کے لگ بھگ غلطیاں نکالیں اور خاص طور پر فی سبعین یوما من شھر الصیام پر تو طلبا نے بھی آوازیں کسیں کہ قادیانی کا رمضان شریف ٧٠ دنوں کا ہوتا ہے۔ پھر مرزا صاحب نے خود عیسیٰ ابن مریم بننے کیلئے عجیب و غریب تاویلات باطلہ سے کام لیا۔ خود ہی مریم بن کر عیسیٰ کو جنم دے کر ابن مریم بنتا ہے اور قادیان کو دمشق کا نام دیتا ہے اور اپنے لئے ایک منارہ بھی بنواتا ہے حالانکہ مرزا اور اس کے ماننے والے بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ احادیث کی رو سے وہ منارہ جہاں عیسیٰ علیہ السلام نے اترنا ہے وہ ان کے نزول سے پہلے موجود ہونا چاہئے تھا اور یہاں تو یہ جھوٹا مسیح موعود (مرزا قادیانی) آنے کے بعد منارہ خود تعمیر کرواتا ہے۔ وہ مقام جہاں عیسیٰ ابن مریم دجال کو قتل کریں گے وہ ‘لد‘ ہے جو موجودہ اسرائیل میں ہے۔ قادیانیوں نے اس کی بھی بے جا اور بعید از عقل تاویلات کیں اور بالآخر تھک ہار کر یہ کہہ دیا کہ ‘لد‘ سے مراد لدھیانہ ہے جہاں سب سے پہلے مرزا صاحب کے ہاتھ پر بیعت ہوئی۔ ان تاویلات باطلہ سے صاف ظاہر ہے کہ یہ ایک جھوٹے، کاذب بہروپ کا صریح ارتکاب ہے کہ علی الاعلان کیا گیا ہے۔

مرزا صاحب کو خوامخواہ زعم ہو گیا کہ علمائے اسلام سو کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا چنانچہ مرزا نے ایام الصلح میں چیلنج دیا کہ اس وقت آسمان کے نیچے کسی کی مجال نہیں جو میری برابری کر سکے۔ میں اعلانیہ اور بلا کسی خوف تردید کے کہتا ہوں کہ اے مسلمانوں! تم میں بعض لوگ محدثیت اور مفسریت کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں اور بعض ازراہ ناز، زمین پر پاؤں بھی نہیں رکھتے اور کئی خدا شناسی کا دم مارتے ہیں اور چشتی، قادری، نقشبندی اور سہروردی اور کیا کیا کہلاتے ہیں ذرا ان سب کو میرے سامنے لاؤ۔ پھر مرزا صاحب نے ٢٢ جولائی ١٩٠٠ کو حضرت قبلہ عالم پیر مہر علی شاہ کو عربی میں تفسیر نویسی کا چیلنج دیا اور ایک اشتہار کے ذریعے ہندوستان کے ہر مکتبہ فکر کے چھیاسی علما کی ایک فہرست شائع کر کے تمام ہندوستان کے علما کو چیلنج دیا۔ حضرت پیر صاحب نے جواب میں ٢٥ جولائی ١٩٠٠ کو بمقام لاہور مناطرہ کی تاریخ مقرر فرما کر مرزا صاحب کو مطلع کر دیا کہ آپ ازراہِ مہربانی تاریخِ مقرر پر تشریف لے آئیں میں بھی حاضر ہو جاؤں گا۔ ساتھ ہی حضرت پیر صاحب کی طرف سے تقریری بحث کی دعوت دی گئی تاکہ عوام الناس بھی سمجھ سکیں کہ اس مسئلے میں فریقین کیا کہتے ہیں اور کون صحیح ہے؟ مرزا صاحب تقریری بحث کیلئے کسی صورت تیار نہ ہوئے۔ جب مناظرہ کا دن قریب آ گیا تو ملک کے طول و عرض سے ہزار ہامسلمان لاہور پہنچ گئے۔ علما، مشاٰئخ، درویش اور ہر طبقہ و فرقہ کے لوگ حتٰی کہ قادیانی جماعت کے مرید و متفق اور ہمدرد و مائل بھی دور و نزدیک سے جمع ہو گئے۔ لاہور کے بازاروں میں لوگوں کے ٹھٹھ لگ گئے۔ اس خاص موقع پر تو ہجومِ خلائق کی آمد کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ حضرت قبلہ عالم پیر سید مہر علی شاہ قدس سرہ جیسی مشہور زمانہ روحانی اور علمی احترام شہرت کے حامل شخصیت پہلی بار اسلام پر قادیانیت کے خطرنام حملوں کے دفاع میں علمائے دین کی اس قدر بڑی اور فقید المثال تعداد میں سب کی طرف سے متفقہ نمائندہ اور قائد کی حیثیت سی میدانِ مناظرہ مباحثہ میں تشریف فرما ہو رہی تھی اور تمام موافق و متردد یا مخالف حضرات اپنی آنکھوں سے بیسویں صدی کی سب سے بڑی اشتہاری تحریک کا حشر دیکھنا چاہتے تھے۔

سبحان اللہ! اسلامیانِ ہند کی اس علمی، دینی اور روحانی قیادت کے وقت پیر مہر علی شاہ صاحب کی عمر شریف صرف ٤٢ برس کے قریب تھی۔ انہیں فارغ التحصیل ہوئے ٢٢ سال گزر چکے تھے۔ خلافتِ ارشاد کا ١٨ سال تھا اور ادائیگی حج کے بعد مسندِ ارشاد پر صرف ١٠ برس کا عرصہ گزرا تھا۔ ہاں ایک وہ وقت تھا جب منبر پر حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ بول رہے تھے (سلونی سلونی قبل تفقدونی) یعنی میرے اس دنیا سے اٹھ جانے سے پہلے پوچھ لو جو پوچھنا چاہتے ہو یا پھر پیر صاحب علما مشائخ کے ھزاروں کے مجمع میں بول رہے تھے کہ اب علی کا بیٹا اور غوث الاعظم کا نورِ نظر مرزا کی اس تحدی اور مبارز طلبی اور تعلٰی و شیخی کے جواب میں میدانِ مناظرہ میں حاضر ہے۔ اب اگر کسی میں ہمت و جرات ہے تو سامنے آئے۔

مگر نبوت و امامت کے جھوٹے دعویدار کو اب قدم باہر نکالنے کی جرات نہیں ہورہی تھی۔ ٢٤ اگست ١٩٠٠ کو حضرت قبلہ پیر صاحب علما و مشائخ کی معیت میں لاہور تشریف فرما ہوئے تو علما و مشایخ اور عوام نے آپ کا فقید المثال استقبال کیا۔ آپ نے لاہور پہنچتے ہی سب سے پہلے یہ دریافت کیا کہ مرزا آیا ہے یا نہیں؟

مباحثہ کا انعقاد شاہی مسجد لاہور میں قرار پایا تھا۔ لہٰذا ٢٦-٢٥ اگست کو دونوں اطراف سے نمائندے اور عام مسجد میں ہو کر منتشر ہوتے رہے۔ لیکن مرزا کو نہ آنا تھا اور نہ آیا بلکہ قتل ہو جانے اور بے عزتی کا خطرہ ظاہر کر کے قادیان میں ہی دبک رہا۔ اس دوران قادیانی جماعت کے ایک وفد نے ایک اندھے اور اپاہج کے حق میں مباہلہ کرنے کی گزارش کی کہ اس طرح مستجاب الدعا کا پتہ چل جائے گا اور اس کے نتیجہ میں حق و باطل واضح ہو جائے گا۔ جواب میں حضرت قبلہ عالم نے فرمایا کہ مرزا صاحب کو یہ کہہ دیں کہ اگر مردے بھی زندہ کرانے ہیں تو آ جائیں۔ اس موقع پر غیر مقلد عالم ثنا اللہ امرتسری نے کہا کہ میری طرف سے عرض کیجئے گا کہ مولوی عبد الکریم نابینا کو ضرور ہمراہ لائیں، وہ بوجہ حق الخدمت اس معجزہ کے حق دار بھی ہیں۔ اسی موقع پر مرزا صاحب کی طرف سے جب تحریری مناظرہ کے طور پر ذود نویسی (تیز لکھنے) کے خدشہ کا اظہار کیا گیا تو حضرت قبلہ عالم نے فرمایا کہ علمائے اسلام کا اصل مقصود تحقیقِ حق اور اعلائے کلمہ اللہ ہوا کرتا ہے، فخر و تعلٰی مقصد نہیں ہوتا وگرنہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں اس وقت بھی ایسے خادم موجود ہیں کہ اگر قلم پر توجہ ڈالیں تو وہ خود بخود کاغذ پر تفسیر قرآن لکھ جائے۔ ظاہر ہے کہ اس سے اشارہ خود اپنی جانب تھا۔ سبحان اللہ علم ہو تو ایسا، ولایت ہو تو ایسی کیا شان ہے۔

جب مرزا صاحب کی آمد سے قطعاً مایوسی ہو گئی تو ٢٧ اگست کو شاہی مسجد میں مسلمانوں کا عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا جس میں علمائے کرام نے اس دعوتِ مناظرہ کی مکمل داستان بیان کر کے قادیانیت کی واضح تصویر لوگوں کے سامنے رکھی اور تمام مسالک کے سرکردہ علما نے ختمِ نبوت کی یہ تفسیر بیان کی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہوگا اور جو شخص بھی اس عقیدہ کا منکر ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانانِ برصغیر کا ایمان حضرت قبلہ عالم کی برکت سے محفوظ رکھا اور ہزار ہا سبکیاں اور ہزیمتیں لے کر قادیانیت کا یہ فتنہ دب گیا۔ علما اسلام کی کاوشوں سے ١٩٧٣ میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں بھی قادیانیوں کو کافر قرار دیا گیا ہے بلکہ صرف پاکستان ہی نہیں سعودی عرب، ہالینڈ، ملائیشیا اور انڈونیشیا کی حکومتوں نے بھی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہے۔

اب بھی مختلف جگہوں پر مادی اسباب کی بدولت یہ فتنہ سر اٹھاتا رہتا ہے اور کم فہم مفاد پرست افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ مسلمانانِ عالم کو اپنے اسلاف سے وابستہ رہتے ہوئے ان کے افکار و عقائد کو اپنا کر قادیانی فتنہ کی سرکوبی کیلئے متفقہ طور پر منظم طریقہ سے اپنا اپنا کردار کرنا چاہئے اور درج ذیل فکر کو عام کرنا چاہئے۔
تخلیق میں پہلے نور ان کا آخر میں ہوا ہے ظہور ان کا
تکوینِ جہاں ہے ان کیلئے ختم ان پہ نبوت ہوتی ہے
Hafiz Jamil
About the Author: Hafiz Jamil Read More Articles by Hafiz Jamil: 12 Articles with 54506 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.