اسلام علیکم
آپ کے والد ماجد کانام قاضی عبدالسلام ہے ، آپ ۹۷۲ ہجری میں شہر کابل میں
پیدا ہوئے، لڑکپن ہی سے آپ کے چہرہ سے جذبۂ الہٰی کے آثار عیاں تھے، آپ نے
حضرت محمد صادق حلوائی رحمۃ اللہ علیہ سے علوم ظاہری کی تحصیل کی ہے، پھر
طریق تصوف میں داخل ہونے کا داعیہ پیدا ہوا تو اپنے شیخ خواجہ عبیداللہ
رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کی، جب آپ کو استقامت علی الطریقت حاصل نہ
ہوئی تو دوبارہ شیخ افتخار رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کی، جب یہاں بھی
تشفی نہ ہوئی تو حضرت شیخ امیر عبیداللہ بلخی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کی،
یہاں بھی سیری نہ ہوئی کسی کامل کی تلاش میں تھے کہ خواب میں اپنے آپ کو
حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبندرحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے
دیکھا، اس روز سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے کسی بزرگ سے فیض حاصل کرنے کی
فکر لاحق ہوئی، اس لئے شہر کشمیر میں پہنچ کر شیخ بابا ولی کبروی نقشبندی
کی خدمت میں رہے، یہاں خوب اصلاح ہورہی تھی، غیبوبیت کا بھی ظہور ہورہا تھا
کہ ایسے میں شیخ مذکور کا وصال ہوگیا، آپ نہایت مغموم اور متفکر تھے کہ
حضرت مولانا خواجگی امکنگی رحمۃاللہ علیہ کی غلامی نصیب ہوئی ، آپ کو
مولانا خواجگی امکنگی رحمۃ اللہ علیہ خلوت میں لے جاکر تین دن پے درپے توجہ
دیتے رہے، خدا کی شان یہاں آپ کی تکمیل ہوگئی ، ایک دن حضرت خواجگی رحمۃ
اللہ علیہ نے فرمایا :بابا باقی باللہ! تم اب بلاد ہند میں جاؤ، وہاں تم سے
اس طریقہ نقشبندیہ کی رونق ظاہر ہوگی۔ آپ کی مزاج میں چونکہ انکساری بہت
تھی اس لئے اس خدمت کے اختیار کرنے سے معذرت ظاہر کی، تو حضرت خواجگی رحمۃ
اللہ علیہ نے استخارہ کے لئے ارشاد فرمایا، استخارہ کرنے سے عالم رویا میں
معلوم ہوا ،اُس کی تعبیر دی گئی کہ ہند میں ایک کامل الاستعداد مجددالف
ثانی رحمۃ اللہ علیہ تمہاری صحبت میں رہیں گے ،تمہارے کمالات اُن کے ذریعہ
سے ظاہر ہوں گے، تم کو اُن سے اور اُن کو تم سے ایک حلاوت ملے گی۔
آپ نے اپنے مرشد کے حسب الارشاد بلادِ ہند کا ارادہ فرمایا، پہلے لاہور میں
رونق افروز رہے، وہاں بہت لوگ آپ سے فیض یاب ہوئے، وہاں سے شہر دہلی میں
تشریف لے آئے، چونکہ دہلی -قلعہ فیروزیہ -ایسا خوشنما مقام ہے جس میں ایک
بڑی نہر اپنی روانی سے دلوں کو فرحت دے رہی ہے اور وہاں ایک بہت بڑی مسجد
بھی واقع ہے ۔
اللہ والوں کو ایسے ہی مقام کی طلب رہتی ہے، اسلئے آپ کو بھی یہی مقام پسند
آیا، وٍصال مبارک تک آپ یہیں تشریف فرما رہے، باوجودیکہ آپ ذوق وشوق، وجد
وحال میں یگانہ روزگار تھے اور معرفت وحقیقت میں پایہ عالی رکھتے تھے، پھر
بھی آپ کے مزاج شریف میں تواضع وانکسار اس درجہ تھا کہ خاک پر بے بستر کے
بیٹھ جاتے اور اپنے آپ کو مقام ارشاد کے اہل نہیں سمجھتے تھے، مخلوق پر
شفقت کرنا آپ کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھر دیا گیا تھا۔ ایک روز بلی آپ کے
لحاف پر سوگئی، صبح تک آپ یوں ہی کڑاخے کے جاڑے میں بے لحاف کے اکڑتے ہوئے
گزار دیئے، لیکن بلی کو لحاف سے علیحدہ نہیں فرمایا۔
ایثار آپ کے مزاج میں اعلیٰ درجے کا تھا، انکسار کی تو انتہا ہی نہیں تھی،
اگر کسی مرید سے لغزش ہوتی تو فرماتے کہ یہ ہماری ہی لغزش ہے جو بطور
انعکاس کے اُس سے ظہور کی ہے، آپ عبادات اور معاملات میں احوط مسئلہ پر عمل
فرماتے تھے۔
اسی واسطے ابتداء میں باوجود حنفی ہونے کے قرات خلف امام کیا کرتے تھے، ایک
رات آپ نے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں دیکھا کہ امام فرما
رہے ہیں کہ میرے مذہب پر بڑے بڑے کامل مکمل اولیاء اللہ عامل رہے ہیں، آپ
نے امام کی اس تعریض کو سمجھ کر صبح سے قرات خلف امام ترک فرما دی۔
ایک روز ایک جگہ تشریف لے جاکر وہاں دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا کہ یہاں
کی مٹی ہمارے دامن کو لگے گی، پھر خواب میں حضرت عبیداللہ احراررحمۃ اللہ
علیہ کو دیکھا کہ وہ آپ کو کرتا پہنا رہے ہیں، صبح آپ نے تعبیر اس کی
فرمائی کہ ممکن ہے صحت ہوجائے ورنہ اس سے کفن کی طرف اشارہ ہے۔ پھر آپ نے
مرض سے روز دوشنبہ 25ماہ جمادی الاخری 1022 میں وفات فرمائی، آپ کی قبر
شریف شہر دہلی میں اس مقام کے قریب ہے جس میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے آثار قدیم مبارک ہیں۔
ماخوز از:گلزار اولیاء |