السلام علیکم و رحمة الله و بركاته ،
زور دار سلام کی آواز پر سلمٰی نے باورچی خانے سے باہر جھانکا تو دیکھا کہ
آپا صغراں ڈیوڑھی پار کرکے برآمدے میں داخل ہورہی تھیں. اتنی دیر میں آپا
کی نظر بھی اس پر پڑ چکی تھی ،سو سلام کرتے ہی بنی .جواب میں آپا نے سر پر
ہاتھ پھیرا اور ہمیشہ کی طرح سہاگن ہونے کی دعا دی.
"کون آیا ہے بیٹی ؟ "
" امی جان! آپا آئی ہیں ! "
یہ سنتے ہی امی ننگے پاؤں آپا کے استقبال کو باہر آئیں.
" آئیے آئیے ! آپا ،بہت دنوں بعد چکر لگایا "
" نبیلہ بہن ! بس کیا بتاؤں؟ " اتنے میں آپا برآمدے میں رکھے تخت پر
براجمان ہو چکی تھیں اور سلمی موقع پاکر دوبارہ باورچی خانے میں پناہ لے
چکی تھی.
" ہاں ! اب بتائیں کہ کہاں اتنی مصروف رہیں کہ دو گھڑی کو احوال پوچھنے بھی
نہ آسکیں ؟ "
اماں نے چھوٹتے ہی گلہ کردیا.
آپا تخت پر نیم دراز ہوتے ہوئے گویا ہوئیں:
" یہ مہینہ تو بے حد مصروف گزرا ، شیخ صاحب کے منجھلے بیٹے اور چھوٹی بیٹی
کے رشتے سے لے کر شادی تک کے تمام معاملات میرے ہی ہاتھوں نمٹے ہیں . کبھی
ادھر تو کبھی ادھر ، مانو! میں تو گھن چکر ہی بن کر رہ گئ تھی ، جیسے ہی
فرصت ملی تو تم سے ملنے چلی آئ ."
آپا نے طویل غیر حاضری کو تفصیلا بیان کیا .
" اور تم اپنی سنؤو ، کیا بنا اپنی سلمٰی کے رشتے کا ؟ "
آپا کا لہجہ اب قدرے دھیما ہوچکا تھا.
آہ !
نبیلہ بیگم نےٹھنڈی آہ بھری .
" اپنے اتنے اچھے نصیب کہاں ، آپ جانتی تو ہیں کہ جو آتا ہے ،مڑ کر نہیں
دیکھتا ، غربت کی چادر تلے ہیرے جواہرات تک چھپ جاتےہیں."
نبیلہ بیگم کی بے بسی دیدنی تھی .
" ارے بہن ! فکر مت کرو ، رب کے ہاں دیر تو ہے پر اندھیر نہیں ، سیانے کہتے
ہیں کہ " وقت سے پہلے نہیں اور قسمت سے زیادہ نہیں ملتا "
ہمیں ہی دیکھ لو کہ جوتیاں چٹخاتےرہتے ہیں ، امید و یاس کے درمیان پنڈولم
کی طرح ڈولتے رہتے ہیں تب کہیں جا کر امید کی کرن دکھائی دیتی ہے."
نبیلہ بیگم نے پر سوچ انداز میں سر ہلا کر گویا اتفاق رائے کا اظہار کیا .
"اب ذرا میری بات غور سے سنو ! "
آپا صغراں مزید قریب کھسکیں اور نبیلہ بیگم کے کان میں گویا ہوئیں :
آپا کے لیئے چائے لاتی سلمی کا رواں رواں کان بن گیا اور تمام حسیات بیدار
ہوگئیں.
ادھر اس کی کیفیت سے بےخبر آپا اپنے تئیں سرگوشی میں کہہ رہی تھیں.
" اپنی سلمٰی کےلیئے ایک رشتہ ہے میری نظر میں ، عمر بھی مناسب ہے اور
آمدنی بھی معقول ہے ، دو بہنیں ہیں اور دونوں ہی اپنےگھر کی ہیں ، والدین
بوڑھے ہیں . شریف اور خاندانی لوگ ہیں. سب سے بڑھ کر یہ کہ لالچی ذہنیت کے
مالک نہیں ! "
آخری بات سن کر پردے کے پیچھے کھڑی سلمٰی کا کب سے رکا سانس بحال ہوا.اس کے
ذہن کے پردے پر ایک فلم سی چلنے لگی .
زیورات سے لدی پھندی امارت کا اظہار کرتی خواتین ہوں یا خستہ حالی کا شکار
! ان میں موجود قدر مشترک ( لڑکے والا ہونا ) ، ردائے سلیمانی کی طرح ہر
خامی پر پردہ ڈالنے کو کافی ہوتی.لوازمات تواضع سے یوں انصاف کیا جاتا گویا
کوئی دیرینہ قرض وصولا جارہا ہو ،
اس سے اگلا مرحلہ شکار یعنی لڑکی کو پرکھنے کا ہوتا، نظروں ہی نظروں میں
یوں آپریشن کیا جاتا گویا قربانی کا بکرا خریدنے کی مہم پر نکلے ہیں.اور اس
ساری محنت کے بعد منظر نامے سے یوں غائب ہوجانا جیسے گدھے کے سر سے سینگ !
"
یہ سہما دینے والا ڈرامہ پندرہ بیس دن کے وقفے سے دہرایا جاتا جو اس کی عزت
نفس کو طوفانی ریلے کی طرح بہا کر لے جاتا.
آپا صغراں کی پاٹ دار آواز اسے تخیلات کی دنیا سے واپس کھینچ لائی.آپا کہہ
رہی تھیں کہ لڑکے والے آئندہ بدھ کو آئیں گے.
یہ مژدہ سنا کر آپا تو چلتی بنیں مگر نبیلہ بیگم کو ہزار وساوس کا شکار
کرگئیں.
راتوں کو اٹھ کر گریہ و زاری تو کچھ عرصے سے اس گھرانے کا معمول بن چکی
تھی.آسمان پر قبولیت کے در کھل گئے تھے .
حسب سابق روایتی انداز میں مہمانوں کی آمد ہوئی.مگر اس آمد نےماحول کو گھٹن
زدہ نہیں کیا بلکہ بہاروں کی سی تازگی سے روشناس کرایا.
معمر مگر مشفق سی خاتون نےآگے بڑھ کر سلمٰی کو گلے سے لگایا اور اپنے ساتھ
ہی صوفے پر بٹھالیا.دھیمے انداز میں باتیں کرتی وہ خاتون سبھی کو بہت اچھی
لگیں.
نبیلہ بیگم کی آدھی پریشانی تو اسی ملاقات سے ختم ہوگئی تھی.
آپا صغراں نے فاتحانہ نظروں سے نبیلہ بیگم کو دیکھا .گویا کہہ رہی ہوں کہ
دیکھا !دنیا ابھی اچھے لوگوں سے خالی نہیں ہوئی !
استشار من اللہ کے بعد فریقین کےمابین تمام معاملات طے پاگئے. یوں سلمیٰ
بےحد سادگی مگر عزت و خودداری کی رداء اوڑھ کر والدین کےگھر سے رخصت ہوگئی.
جس جس نے دیکھا ، انگشت بدنداں رہ گیا. نہ مایوں ، نہ لمبی چوڑی بارات ، نہ
رسوم و رواج کے طوق، نہ ہی جہیز جیسی لعنت!
نبیلہ بیگم کی وہ رات اپنے رب کے حضور سجدہ شکر بجالانے میں گزرگئ.
سچ ہے کہ امارت کا تعلق غنائے قلبی سے ہے نہ کہ مادی وسائل سے ، دل غنی نہ
ہو تو دنیا بھر کی دولت بھی کم ہے جبکہ غناء کی دولت کے سامنے جبال ذہن بھی
ہیچ ہیں !
از قلم : بنت میر
|