سفید اور کالے رنگوں کے امتزاج اورشیشے کی
خوبصورت تراش خراش سے مزّین سنگھار میز اور اس میں سجی رنگا رنگ نیل پالش
،کریم ، پاوڈر ، باڈی اسپرے کی چھوٹی بڑی خوبصورت شکلوں والی بوتلیں روز ہی
صائمہ کو سحر میں مبتلا کر دیتی تھیں ۔کمرے کی صفائی کے مختصر سے منٹوں میں
سے بھی چند منٹ وہ اس ٹیبل کو ضرور تکتی ۔۔۔! بڑا مز�آتا تھا اُسے ایک ایک
بوتل دیکھنے میں ۔۔ ۔اور آج بھی وہ خیالوں میں گم ،ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے
جھاڑو پکڑے اُسے تاکنے میں ہی مصروف تھی جب سبین بی بی نے آواز لگائی ۔۔
جلدی کرو صائمہ ،اور صائمہ چونک کر مڑی اور جی باجی کہتی ہوئی کمرے میں
جھاڑو پھیرنے لگی ۔۔صائمہ آج اکیلے کیوں آئی ہو ؟؟ اسی لمحے کمرے میں داخل
ہوتی سبین نے صائمہ کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا ۔ ’’ وہ چھوٹے بھائی کو
تیز بخار ہو گیا کل شام سے بہت طبیعت خراب تھی ، امی اُسے دوا دلانے جائیں
گی ‘‘۔۔ صائمہ نے جواب دیا ۔۔’’اوہ اچھا ‘‘ سبین نے کہا ۔۔۔’’ بیٹا زرا
جلدی ہاتھ چلاو ،میری سہیلی کو آنا ہے ۔ میں جب تک تیار ہو رہی ہوں ‘‘سبین
نے ۱۲ سالہ صائمہ کی سُست رفتاری پر گرفت کرتے ہوئے کہا تو صائمہ جلدی جلدی
ہاتھ چلانے لگی ۔سبین نے الماری سے لال کالی بیڈ شیٹ نکالی اوربیڈ پہ ڈالتے
ہوئے صائمہ سے مخاطب ہو کر بولی ۔ ’’ جھاڑو لگا کر اس کو بچھا دینا ۔۔جلدی
کرو ۔‘‘ صائمہ نے جھاڑو نکالی اور پھر پُرانی سفید اور نیلی چادر ہٹا کر
کالی لال چادر بچھا کر کمرے کے دروازے پر کھڑے ہو کر پورے کمرے پر نظر ڈالی
۔۔ بیڈ روم کالے پردوں ، کالے رنگ کے بیڈ اور لال کالی چادر کے ساتھ بہت ہی
خوبصورت لگ رہا تھا ۔۔صائمہ نے تعریفی نظروں سے کمرے کا جائزہ لیا ، نگاہوں
میں خواہشوں کے پھول کھلنے لگے ، ۔۔ ہمارا گھر بھی کبھی ایسا ہو ۔۔!! اُس
نے دل میں یہ سُوچا ہی تھا کہ ، سبین کی آواز نے اُسے چونکا دیا ۔۔۔’’
صائمہ کچن میں گلاس رکھے ہیں زرا اُنہیں دھو کر ٹیبل پر رکھ دو ۔‘‘ جلدی آؤ
۔ اور صائمہ تیزی سے کمرے سے نکل کر کچن میں چلی آئی ۔ دو کمروں پر مشتمل
چھوٹے سے فلیٹ کا ہر کونا سجا ہوا تھا ۔ اور صائمہ کی نظروں کو خیرہ کیے دے
رہا تھا ۔ کچن میں داخل ہوئی تو خوبصورت نقش و نگار والے نازک سے گلاس ہاتھ
میں لیتے ہی اپنے قیمتی پن کا احساس دلا رہے تھے ۔ بہت احتیاط سے دھوتے
ہوئے بھی صائمہ گلاس کو تکے جا رہی تھی ۔ پھر اُس نے سنبھال کر تمام گلاس
ٹیبل پر لا کر رکھ دئیے ۔ اور کمروں کے باہر کی جھاڑو ، پوچھا میں مگن ہو
گئی ۔ اب وہ تیزی سے کام کر رہی تھی ، کیونکہ اُسے اگلے گھر کا کام بھی آج
خود ہی نمٹانا تھا ۔ صفائی سے فارغ ہو کر اُس نے گھڑی کی طرف دیکھا ،ایک
گھنٹہ گزر چکا تھا ۔ اُف آج تو یہاں بہت ٹائم لگ گیا ۔۔صائمہ خود کلامی کے
انداز میں بڑ بڑائی اور باجی میں جا رہی ہوں ، کہتی ہوئی گھر سے باہر نکل
آئی ۔برابر والوں کا دروازہ بجا رہی تھی کہ سبین کے گھر کے سامنے کھڑی
خاتون پر اُس کی نظریں چپک گئیں ۔ کھلے براؤن بال جو شانوں پہ جھول رہے تھے
،آنکھوں پر کالا چشمہ ،پیلے اور سفید رنگ کے امتزاج کے ساتھ خوبصورت کرتی
اور سفید پاجامے میں ملبوس خاتون موبائل ہاتھ میں لئیے نمبر ملانے میں
مصروف تھی ۔ قیمتی پرس اور چپل ہر چیز پیسے کی ریل پیل کی گواہی پیش کر رہی
تھی ۔صائمہ ایک ایک چیز کو بس دیکھے ہی تو جا رہی تھی ، کہ دیکھنے کے سوا
وہ کر بھی کیا سکتی تھی ۔ چھ بہن بھائیوں اور ماں باپ کے ساتھ آٹھ افراد پر
مشتمل کنبہ ، وہ اور اُس کی ماں کی چند ہزار پر مشتمل تنخواہ میں گزر اوقات
کتنی مشکل تھی اُسے پورا پورا احساس تھا ۔شوق کے باوجود پڑھائی کا سوچنا
بھی اُن کے گھر میں گالی کی طرح تھا۔۔ کھانے اور دوا سے پیسے بچتے تو کسی
اور شوق اور ضرورت کا سوچا بھی جاتا ۔ اس عالم میں دیکھنے کی لّذت بھی
صائمہ کو نعمت ہی لگتی تھی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شام ڈھلے کام کی تھکن
سے چور جب وہ گھر کی طرف رواں تھی تو گلی میں شاندار گھروں کی پُر نقش درو
دیوار کو دیکھنے میں مگن ہوگئی ۔گلی ختم ہوئی تو رکشے میں بیٹھ کرگھر کی
طرف سفر شروع ہوگیا ۔محلہ بدلہ تو گھروں کے درو دیوار کے مناظر بھی بدل گئے
۔بے رنگ، بے رونق گندی ٹوٹی دیواریں ، کہیں پھٹے اور گندے پردے اور کوئی بے
پردہ دروازے ، صائمہ کی نظریں بے زار ہو کر وہاں سے ہٹ گئیں وہ اپنے کپڑوں
اور اپنے ہاتھ پاؤں کو دیکھنے لگی اُف کتنے بدھے اور بد صورت لگ رہے ہیں یہ
،صائمہ کو آس پاس کے ماحول کے ساتھ ساتھ اپنے حال سے بھی بیزاریت پیدا ہونے
لگی ۔ خود بخود اُس کے دل میں خوبصورت کپڑوں ،خوبصورت بالوں کی خواہش پیدا
ہو گئی ۔کاش میں بھی !!! وہ اپنی سوچ میں مگن ہی تھی کہ برابر والی عورت نے
رکشہ رکوایا اور اُتر گئی ۔ساتھ ہی ایک دوسری عورت آ کر صائمہ کے برابر میں
بیٹھ گئی ۔ہاتھوں میں خوبصورت انگوٹھیاں دیکھتے ہی صائمہ اپنے خیالات جھٹک
کر برابر والی خاتون کا جائزہ لینے لگی ۔براؤن شوز ،فیشن کے کپڑے ،ہاتھوں
میں انگوٹھیاں ، کانوں میں ٹوپس،نئے ڈیزائن کے کٹے ہوئے بال آنکھوں میں
کاجل ۔۔ اور اور صائمہ دیکھے ہی جا رہی تھی کہ رکشا رُکا اور وہ خاتون بھی
اُتر گئیں ۔اب رکشے میں کوئی نہ تھا ۔صائمہ تھی اور اُس کی غربت زدہ
حسرتیں۔۔۔ ہماری زندگی ایسی کیوں ہے ؟ کیا ہم ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے ۔۔ اس
خیال نے صائمہ کو اداس کر دیا ۔نہ چاہتے ہوئے بھی آنکھیں نم سی ہونے
لگیں۔کوئی جادو ہو جائے کہ ہماری زندگی بھی بدل جائے ۔۔انہی سوچوں میں
اسٹاپ آ گیا ۔اور وہ مرے مرے قدموں سے چلتی ہوئی گھر میں داخل ہو گئی ۔ایک
باجی نے کچھ بچے ہوئے چاول اور سالن دئیے ،انہیں ماں کی طرف بڑھاتے ہوئے
خود اندر کمرے میں آگئی ۔زمین پر میلا کچیلا گدا پڑا تھا جس پر میلے کچیلے
حلیوں میں اُس کے بہن بھائی کھیل رہے تھے ۔ابّا ایک کرسی پر بیٹھے سگرٹ پی
رہے تھے ۔چھوٹا بھائی ابھی بھی بخار میں تپ رہا تھا ۔ ’’ اماں فیض کی دوا
نہیں لی کیا ‘‘ صائمہ نے چھوٹے فیض کے برابر بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔’’ لائی
ہوں بیٹا ، لیکن ابھی دو خوراک میں بخار نہیں اترا ، مغرب کے بعد تیسری
خوراک دوں گی ، اللہ کرے بخار اُتر جائے ۔‘‘ ہوں۔۔ صائمہ جواب سُن کر بولی
۔۔اور بھائی کے برابر ہی آنکھیں بند کرکے لیٹ گئی ۔۔ تھکن سے بُرا حال ہو
رہا تھا ۔اور وہ کب سو گئی پتا ہی نہ لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سانس پھولا ہوا تھا ،ہاتھ میں شوپر تھا ۔۔شوپر کو کس کے پکڑے صائمہ سرپٹ
دوڑ رہی تھی ۔۔ گلی میں ، پھر روڈ پر ، اور پھر وہ روڈ کے کنارے بنے پارک
میں داخل ہو گئی ۔بچے گھاس پر کھیل رہے تھے ۔ وہ بچوں سے دور ایک درخت کے
نیچے بیٹھ گئی اور شوپر کھولا ، ۔۔ انگوٹھیاں ، چوڑیاں ، نیل پالش ،باڈی
اسپرے ، بندے اور چپل دیکھ کر اُس کی آنکھیں چمک اُٹھیں ۔۔بال سنوار کر اُس
نے ہاتھ میں انگوٹھیاں پہن لیں ، نیل پالش لگائی ، چوڑیاں پہن لیں ۔کپڑوں
پر باڈی اسپرے چھڑکا اور باجی کی چپل پہن کر خوشی سے کھِل اُٹھی ۔دیکھ دیکھ
کر دل میں پہاڑ بن جانے والی تمام حسرتیں آج امر ہو گئیں تھیں صائمہ بہت
خوش تھی ۔کب تک میں بس دیکھتی رہتی ۔۔!! آج میں نے اپنے ارمان پورے کر ہی
لئیے ۔۔۔ چوری سے ہی سہی ۔۔!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام تک پورے اپارٹمنٹ میں یہ خبر پھیل چکی تھی کہ سبین کی ۱۲ سالہ کام کرنے
والی ماسی نے سبین کے گھر انوکھا ڈاکہ ڈال دیا ۔۔آس پاس کے تمام لوگ سبین
سے ملنے آرہے تھے اور اپنی اپنی رائے بھی دے رہے تھے ۔کسی کی نظر میں صائمہ
ایک مکار صفت بچی نکلی ، تو کوئی اُسے معصوم قرار دے رہا تھا سبین سب
تبصروں سے تھک گئی تو بول پڑی کہ شاید غلطی میری ہی تھی جو صائمہ پر گہری
نظر نہ رکھی ۔۔۔نظر رکھنے کی بات نہیں بیٹا ، پڑوسن خالہ سبین کے قریب
بیٹھتے ہوئے بولیں ’’ تمہیں پتا ہے زہر کسِے کہتے ہیں بیٹا ؟؟ خالہ کے ایک
دم سوال پر سبین چونک کر اُن کی طرف دیکھنے لگی ۔۔ پھر بولی وہ جو اندر سے
مار ڈالے ۔۔ زہر ہے۔لیکن میں نے صائمہ کو زہر تو نہیں دیا ۔۔سبین زچ ہو کر
بولی ۔۔ وہ کیا چُرا کے لے کے گئی ہے ؟؟ خالہ نے سبین سے پھر پوچھا ۔ میری
جیولری ، اور دڑیسنگ کا سامان جو یہاں ٹیبل پہ ہوتا تھا ۔۔ سبین نے پھر
بتایا ۔ وہ ایک غریب بچی ہی تو تھی ۔لیکن یہاں آ کر سجنے سنورنے کے سامان ،
خوبصورت چیزیں دیکھ کر جو خواہشات ، جو احساسات ، جزبات روز اُس کے دل میں
اُبھرتے ہونگے ۔۔ ؟؟ کیا زہر کی مانند اُسے اندر سے مار نہ ڈالتے ہونگے ؟؟؟
۔۔۔ خالہ کہتی چکی گئیں ۔ وہ روز ترستی ہوگی۔۔لیکن اس میں ہمارا کیا قصور
؟؟ ہم نے اُسے غریب تو نہیں بنایا ؟ سبین نے الجھ کر کہا ۔ ’’ امیر یا غریب
تو خدا کا فیصلہ ہے بیٹا ۔جسے چاہے نواز دے اور جسے چاہے نپا تُلا دے ۔لیکن
کیا خدا نے امیر کے مال میں غریب کا حصہ نہیں رکھا ؟؟ کیا اسلام ہمیں اسراف
سے روک کر سادگی کی تعلیم نہیں دیتا ۔۔ یہ جو ہم عیش اور اسائیشوں کے شوقین
ہو گئیے ہیں نا ۔۔۔یہ ظلم ہے ۔۔ کیا ہم غریبوں کا حق مار نہیں رہے ؟ ۔
پیارے نبیﷺ کی سنت سادگی ہے ۔ امارت نہیں ۔ یہ فیشن کا جوش ۔اور تزین و
آرائش کا جنون ہم کو زہریلا بنا رہا ہے ۔۔ |