وہ بھیانک رات ------

بلا شبہ وہ ایک وحشت ناک اور بھیانک رات تھی - لوگ بھاگنا چاہ رہے تھے لیکن گیس کے اثر کے سبب ان کی آنکھیں بے کار ہو چکی تھیں۔ ایک قیامت صغریٰ تھی -بھوپال کے متاثرین ہیروشیما کے متاثرین لگ رہے تھے - تین ہزار سے چار ہزار کے قریب افراد اسی رات لقمہ اجل بن گئے - اور اگلے تین دنوں میں مرنے والوں کی تعداد دس ہزار ہو گئی - اب تک مرنے والوں کی تعداد تیئیس ہزار ہو چکی ہے -
جب ہمیں پتا چلا کہ اپنے بھائی حاتم طائی جدید ، اپنے ٹی وی اینکر ساتھی ، خان خاناں ہشت پہلو ، کے تمام سوالوں کے جواب نہیں دے سکے اور بھائی حاتم طائی جدید کی سپلی آ گئی ہے ( یعنی دوبارہ آکر صحیح جوابات دینے کو کہا گیا ہے ) تو ہم حیرانی کے گرداب میں پھنس گئے
ہم نے کہا میاں حاتم کچھ دے دلا کر پاس ہو جاتے۔ یہ کیا کیا ؟ اپنے نام کو بٹہ لگا لیا۔
وہ بولے اے حضرت منہ نہ کھلواؤ۔ سخاوت کے نام پر ہم فضول خرچی کر کے کنگال ہو چکے ہیں۔ پیارے یہ نیا زمانہ ہے۔ نئے رنگ ہیں۔ اس زمانے میں ہماری دریا دلی یہ رنگ لائی ہے کہ لوگوں نے خوشحالی پائی ہے اور ہمارے حصے میں بد حالی آئی ہے اور یہ الزام الگ کہ اب حاتم طائی پیسے لے کر کام کرتا ہے
ہم نے تسلی تشفی دی اے بھائی تمھارے ملال ، ہمارے ملال ہیں - تمھارا غم ہمارا غم ہے - بتاؤ تو سہی کہ ہشت پہلو نے کیا سوال کیا تھا جس کا جواب دینا تمہیں محال ہوا اور یوں تمہاری شہرت کو زوال ہوا اور سپلی کا قصہ و احوال ہوا -
وہ بولے وہ سوال تھا "بھارت کی اس بستی کی خبر لاؤ جو تین دسمبر کی درمیانی شب ایک بادسموم کا شکار ہوئی تو آناً فانًا ویران ہوئی اور ہزاروں لوگوں کی موت کا سبب بنی۔"
تو بھائی حاتم طائی جدید تم نے کیا کیا۔
"ہم نے کیا کرنا تھا " حاتم طائی جدید نے کہا۔ بس یہ کیا کہ دوپہر کو جب دھوپ نکل آئی اور سورج سوا نیزے کو پہنچا تو گھر سے نکلے اور اس دھوپ میں دوڑ لگائی۔ یعنی دوڑ دھوپ کی کہ ہمارے زمانے کے ایک ستیناسی بابا کا مشورہ تھا کہ ایسی دوڑ دھوپ کے سبب دماغ کے خلیے کھلتے ہیں اور دماغ میں صحیح جواب آتے ہیں - لیکن افسوس صد افسوس ، آج کل کی دھوپ میں بھی ملاوٹ ہو گئی ہے ورنہ ستیناسی بابا کے نسخے تیر بہدف ثابت ہوتے ہیں -

حاتم طائی جدید کا بیان جاری رہا کوئی کمرشل بریک بھی نہیں آیا۔ حاتم طائی کہہ رہے تھے کہ وہ دل میں ناشاد ہوئے اور سوچا کہ تف ہے ایسی زندگی پر جو کسی کے کام نہ آئے - سو وہ کلفٹن کے ساحل پر چلے گئے اور کرائے کے ایک نحیف و نزار گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے پرانے وطن یمن کے اسٹائل پر زور سے ایڑھ لگائی - اس بد بخت نے یکبارگی عجب سی آواز نکالی اور خود ایک طرف ڈھیر ہوا اور حاتم طائی جدید دوسری جانب ریت پر جا پڑے -اچھا ہوا بچپن میں کیلشیم کی چند گولیاں لوگوں سے بچالی تھیں ، لوگوں میں نہیں بانٹی تھیں اور خود نگل لی تھیں جس کے سبب ہڈیاں مضبوط ہو گئی تھیں۔ سو اس حادثہ میں ہڈیاں سلامت رہیں - ایک اونٹ جو قریب بیٹھا دنیا کی بے ثباتی پر غور کر رہا تھا اور آہستہ آہستہ پان چبا رہا تھا اپنے ساتھی گھوڑے کا یہ حال دیکھا تو ایک دم زقند لگائی اور یہ جا وہ جا - ورنہ حاتم طائی جدید کا ارادہ تو تھا کہ اونٹ پر بیٹھ کر جواب کی تلاش میں جائیں اور من کی مراد پائیں - اس کے بعد حاتم طائی جدید کی ہمت جواب دے گئی اور یوں بھائی ہشت پہلو کی تحقیق خراب ہو گئی۔
ہم نے بھائی حاتم طائی سے کہا تمھاری بے خبری لائق حیرت ہے - تم یوٹیوب کے اندر کیوں نہیں داخل ہو گئے -وہاں ایک جہاں آباد ہے - حاتم طائی قدیم بھی ہوتا تو اپنی جان ضیق میں نہیں ڈالتا اور یوٹیوب میں داخل ہو کر سات سوالوں کے جواب پاتا - ہاں ایک دوسرا نگر بھی ہے - گوگل نگر - اس میں بھی جائیں اور سوالوں کے جواب پائیں - حاتم طائی جدید نے کہا: ’’پہلے میں اس کی آزمائش کر لوں تب تمہاری بات پر یقین کروں اب رخصت ہوتا ہوں اور خبر لاتا ہوں "
ہم نے دعا دی ’’میاں جیسی پیٹھ دکھاتے ہو ویسے ہی صورت بھی دکھائیو - گوگل نگر کی تلاش میں کسی اور غلط قسم کی ویب سائٹ میں نہ گھس جائیو اور اصل راہ سے بھٹک جائیو -امام ضامن کی ضمانت میں"

ہمارا خیال تھا کہ اب وہ ہفتوں شکل نہیں دکھائیں گے اور اچھا ہی ہے -- گھر میں چینی کہاں ہے جو چائے بنا کر پلا سکیں - لیکن صاحبو حیرت ہوئی اگلی صبح ہی دروازے پر دستک دی - ابھی تو کوے وغیرہ بھی بیدار نہیں ہوئے تھے -ایک کوے کی مچھر کے کاٹنے کے سبب نیند خراب ہوگئی تھی اور وہ کائیں کائیں کر کے ساتھی کوؤں کو اٹھا رہا تھا - حاتم طائی جدید کی بانچھیں کھلی ہوئی تھیں - کامیابی سے ہمکنار ہوئے تھے- انھوں نے یوں ہم سے خطاب کیا ‘ ذرا کان دھر کے سنو - یوٹیوب والے نے کہا ہے اور ہم نے سنا ہے کہ آج سے ٹھیک پچیس سال پہلے بھارت کی بستی بھوپال میں دو اور تین دسمبر 1984ء کی شب ایک ایسا حادثہ ہوا جس نے دنیا بھر کے کیمیکل انجینئر ز کو ہلا کر رکھ دیا ایک ملٹی نیشنل کارخانہ تھا --- یونین کارہائیڈ انڈسٹریز لمیٹیڈ -- جو جراثیم کش ادویات بناتا تھا -اس کارخانے کے اندر ایک صنعتی حادثہ ارد گرد کے ہزاروں آدمیوں کی موت کا باعث بنا - کارخانے کے اندر ایک بڑا ٹینک بنا ہواتھا جس میں کیمیائی مادہ میتھئایل آئسوسائی نیٹ رکھا ہوا تھا - اس ذخیرہ رکھنے والے ٹینک کو ٹینک نمبر 610 کا نام دیا گیا تھا۔ دو دسمبر اور تین دسمبر کی درمیانی شب کو پانی کے پائپ کے والوء میں خرابی ہوئی اور اس کاپانی بہتے بہتے اس ٹینک میں داخل ہو گیا - پانی اور میتھائیل آئسو سائنائیڈ میں ایک کیمیائی عمل شروع ہوا اور ایک زہریلی گیس بننا شروع ہوئی جس کا درجہ حرارت 1200 ڈگری سینٹی گریڈ تھا - یاد رہے کہ پانی 100 ڈگری سینٹی گریڈ پر ابل جاتا ہے اور لوگوں کے جسم پر آبلے ڈال دیتا ہے - پانی کا ٹینک اتنی زیادہ گیس کا دباؤ اور اتنا زیادہ درجہ حرارت برداشت نہ کر سکا اور کرتا بھی کیسے جبکہ وہ اتنے زیادہ پریشر اور ٹمپریچر کے لیے بنایا ہی نہیں کیا گیا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گیس باہر نکلی - یہ زہریلی جراثیم مارنے والی گیس بھوپال میں واقع -انو نگر، بلیومون کالونی، ایوب نگر، غریب نگر اور دیگر علاقوں میں پھیل گئی - اس کے ساتھ ہی زہریلا پانی بھی اردگرد پھیل گیا - یہ حادثہ ایسا تھا کہ تین ہزار سے چار ہزار کے قریب افراد تو اسی رات کو لقمہ اجل بن گئے اور اگلے تین دنوں میں مرنے والوں کی تعداد دس ہزار ہو گئی - اس واقعہ کو آج بتیس برس ہو گئے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد تیئیس (23) ہزار کے قریب ہو چکی ہے - جن لوگوں نے اس خطرناک رات کو زہر والی ہوا اپنے پھیپھڑوں میں اتاری تھی اس کے اثرات اب بھی ان کے جسم میں دیکھے جا سکتے ہیں - ماؤں کے دودھ میں ' ماؤں کے حمل میں ' نوزائیدہ بچوں میں ' لوگوں کے خون میں - بلا شبہ وہ ایک وحشت ناک اور بھیانک رات تھی - لوگ بھاگنا چاہ رہے تھے لیکن گیس کے اثر کے سبب ان کی آنکھیں بے کار ہو چکی تھیں۔ ایک قیامت صغریٰ تھی -بھوپال کے متاثرین ہیروشیما کے متاثرین لگ رہے تھے - وہ پانی جو ٹینک 610 سے نکلا اور قریب کی بستیوں میں داخل ہوا اس نے الگ تباہی مچائی - اس زہر آلود پانی کے اثرات ، زیر زمین پانی اور کنوؤں کے پانی میں عرصہ دراز تک محسوس ہوتے رہے - اس صنعتی حادثہ کے پانچ سال بعد ایک کنوئیں سے پانی کا نمونہ حاصل کیا گیا اور اس کے اندر مچھلی چھوڑی گئی تو چند ہی لمحوں میں وہ مچھلی موت کے منہ میں چلی گئی -

حادثہ کیوں ہوا ؟ اس کے بارے میں مختلف آراء ہیں
ایک رائے یہ تھی کہ وہ زہریلا مادہ جسے میتھائیل آئسو سا نیٹ کہتے ہیں کھلے ٹینک میں نہیں رکھنا چاہیے تھا بلکہ بند ڈرموں میں رکھنا چاہیے تھا - کچھ کا کہنا تھا کہ پانی کے پائپ کے پھٹنے سے یا کسی والؤ کے صحیح نہ کام کر نے کے سبب پانی ٹینک میں داخل ہوا اور اس ہولناک حادثے کا سبب بنا-
"اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے مشیر جناب عثمان قاضی صاحب ابھی کچھ عرصہ قبل بھوپال سے ہو کر آئے ہیں - وہ کہتے ہیں کہ سانحہ بھوپال کے سبب اندھے پن اور پھیپھڑوں کے مستقل ناکارہ ہونے کے شکار افراد اب بھی مل جاتے ہیں - دوستوں کی تحقیق کے مطابق اس قسم کے حادثات سے روک تھام کے لئے پانچ مختلف مراحل میں حفاظتی انتظامات موجود تھے لیکن متعلقہ محکموں کی بے توجہی یا کم توجہی کے سبب ناکارہ پڑے ہوئے تھے -"

ہمارے ملک پاکستان میں بھی درجنوں کارخانے ہیں جو کیمیائی اشیاء بناتے ہیں - جراثیم کش دوائیاں، کیڑے مارنے کے پاؤڈر، کھالوں کی ٹینری کے کارخانے -ان میں کام کرنے والے افراد کو چاہیے کہ معمولی سے معمولی خرابی کو بھی سنجیدگی سے لیں اور اسے معمولی نہ سمجھیں - وہ ایک بڑے حادثے کا باعث بن سکتی ہے جو جان لیوا بھی ہو سکتا ہے یا کسی مستقل روگ کا باعث بھی بن سکتا ہے -

درج ذیل دو فقرے کیا کہہ رہے ہیں ذرا پڑھیں :
(1) ہم نے قرب و جوار کی کئی بستیاں تباہ کر دیں تاکہ لوگ ان پر غور کریں عقل مندوں کے لیے اس میں بے شمار نشانیاں ہیں(اشارے) ہیں۔
(2)ا للہ کی نشانیاں (اشارے) عقل مندوں کے لیے ہیں ( تاکہ وہ اس سے نصیحت حاصل کریں )

یہ دو فقرے سورۃ طٰہٰ کی آیت 128 اور 54 سے لیے گئے ہیں۔ پاکستانی کیمیائی صنعت سے متعلقہ افراد بالخصوص کیمیکل انجینئرز کو چاہیے کہ بھوپال کے صنعتی حادثے کا قرآن مجید کی ان دو آیتوں کی روشنی میں جائزہ لیں - اسٹور ڈپارٹمنٹ والے اسٹوریج کے متعلق اپنا علم بڑھاتے رہیں - گھر میں کام کرتی ہوئی خواتین بھی گیس کے چولھوں کی بابت ہشیار رہیں -

اقوام متحدہ کے تحت ہر برس تیس اپریل کو لوگوں کو آگاہی دینے کے لئے “کام کرنے کی جگہ پر صحت و حفاظتی تدابیر کا دن “ منایا جاتا ہے - اس روز سورہ طہٰ کی روشنی میں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور کام کرنے کی جگہ پر صحت و حفاظت کے اقدامات کرنے چاہئیں -
Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 355008 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More