نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی وصف و خوبی اور تعریف
و توصیف کے ہیں۔ لیکن عُرفِ عام میں نعت؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
ثناوستایش اور تعریف و توصیف بیان کرنے والی منظومات کو کہا جاتاہے ۔یوں تو
نعت کا لفظ مستقل ایک موضوع یا مضمون کااحاطہ کرتا ہے اور جب یہ لفظ
استعمال کیا جاتا ہے تو وہ تمام خزائن اور ذخائر مراد ہوتے ہیں جو حضور
رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و مناقب ،شمائل و خصائل ،اخلاق و
کردار،تعریف و توصیف اور مدح و ثنا پر مشتمل ہوتے ہیں۔ چاہے وہ نظمی ہو ں
یا نثری۔لہٰذاذیل میں عربی ،فارسی اور اردو لغات سے نعت کا لغوی مفہوم اور
ان مفاہیم سے ماخوذ تصریحات کی روشنی میں نعت کے اصطلاحی مفہوم پر روشنی
ڈالنا غیر مناسب نہ ہوگا ۔
لسان العرب :نعت:انعت : وصفک الشئی تنعتہ بما فیہ و تبالغ فی وصفہ والنعت :
مانعت بہ نعت ینعتہ نعتا:وصفہ ورجل ناعت من قوم ناعت قال الشاعر ؎
انعتہاانی من نعتہا
ونعت الشئی وتنعتہ اذا وصفہ
قال ابن الاعرابی : انعت اذا حسن وجہۃ حتی ینعت وصفہ صلی اﷲ علیہ وسلم
یقول ابن الاثیر : النعت وصف الشئی بما فیہ من حسن ولا یقال فی القبیح الا
یکلف متکلف فیقول نعت سوء والوصف یقال فی الحسن والقبیح وناعتون ونا عتین
جمیعا موضع یقال الراعی ؎
حی الدیار دیار ام بشیر
بنو یعتیین فشاطی التسریر
انہا اراد اناعتین 3/2 فصحی (1)
تاج العروس:(نعت کالمنع)ای فی کونہ مفتوح العین فی الماضی والمضارع (الوصف)
تنعت الشئی بما فیہ وتبالغ فی وصفہ وانعت ما نعت بہ نعتہ ینعتہ نعتا وسفہ
ورجل ناعت من قوم نعات قال الشاعر ؎
انعتہا انی من نعتہا
وفی صفتہ صلی اﷲ علیہ وسلم (2)
لسان العرب اور تاج العروس دونوں ہی عربی لغات سے نعت کاجو مفہوم سامنے
آیا ہے اس کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ نعت کسی شَے کی خوبی یا وصف کو اس
طرح بیان کرنا ہے کہ اس میں مبالغہ سے کام لیا جائے اورقبح کا ذرّہ بھر
شائبہ نہ ہو ۔صاحبِ لسان العرب نے ابنِ اعرابی کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ
نعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت کو بھی کہتے ہیںاور صاحبِ تاج
العروس نے بھی نعت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت شمار کیا
ہے۔لیکن صاف طور پر ان لغات سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ نعت کا حقیقی مفہوم
کیا ہے۔
المنجد: نعتہ (ف)نعتا تعریف کرنا ،بیا ن کرنا ،نعت کلمۃ :کلمہ کی صفت
لانا،نعت (س)نعتا: اچھی صفات دکھانا،نعت (ک)نعاتہ الرجل پیدایش ہی سے اچھی
صفات والاہونا۔ (3)
معجم العربیہ : نعت ینعت نعتاوانتعت کسی چیز کو بیا ن کرنا یا اس کے اوصاف
بیا ن کرنا (خصوصاً)تعریف میں، سراہنا ،تعریف کرنا،خوبیاں بیان کرنا،صرف و
نحو میں صفت کو موصوف کے ساتھ ملانا۔
نعت : صفت ،وصف ،جوہر ،ہنر ،تعریف
نعت(ج) نعوت ،اسم صفت ،وصف ،صفت، خاصیت،گُن
نُعتَہُ: بہت خوبصورت ،حسن
منعوت : وہ اسم جس کے ساتھ صفت بیان کی گئی ہو۔ موصوف (صرف ونحو) (4)
مصباح اللغات: نعتہ (ف) نعتاً: تعریف کرنا ،بیان کرنا(اور اکثر اس کا
استعمال صفات حسنہ کے لیے ہوتاہے)۔ (5)
فرہنگ آصفیہ: صفت و ثنا ،تعریف و توصیف ،مدح ،ثنا، مجازاًخاص حضرت سید
المرسلین رحمۃ للعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم کی توصیف۔ (6)
غیاث اللغات : نعت (ء) :نعت بالفتح تعریف و توصیف کردن از منتخب اگرچہ نعت
بمعنی مطلق صفت است لیکن اکثر استعما ل ایں لفظ ستایش و ثناے رسول (صلی
اللہ علیہ وسلم) آمدہ است ،بمعنیٰ صیغۂ اسمِ فاعل و اسمِ مفعول و صیغۂ
صفتِ مشبہ نیز می آید۔ (7)
ترجمہ: زبرسے نعت کے معنی صفاتِ حسنہ کے ساتھ تعریف و توصیف کرنا ہیں اگرچہ
لفظ ِ نعت کے مطلق معنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و ثنا میں
آتا ہے ،اسمِ فاعل و مفعول اور صفت کے صیغے کے اعتبار سے یہ ثناے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم ہی کے معنی میں آتا ہے۔
لغاتِ فارسی : نعت (ء) تعریف ،صفت ،ستایش، تعریف کرنا، خاص کر رسول
اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی تعریف و توصیف کو نعت کہتے ہیں ۔ (8)
لغات کشوری: نعت(ء) :تعریف ،صفت،تعریف کرنا خاص کر رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ
وسلم)کی (9)
نوراللغات: نعت (ء : بالفتح ):یہ لفظ بمعنی مطلق وصف ہے لیکن اس کا استعمال
آں حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم)کی ستایش وثناکے لیے مخصوص ہے ۔ (10)
فیروز اللغات:نعت (ء،ا،مونث) : (1)مدح ،ثنا ،تعریف (2)رسول اﷲ (صلی اللہ
علیہ وسلم)کی شان میں مدحیہ اشعار ۔ (11)
فرہنگ ادبیات:پیغمبر اسلام حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف وتوصیف کا
حامل کلام۔ (12)
درج بالا میںعربی لغات سے اخذ کردہ لغوی تصریحات سے لفظ ’’نعت‘‘سے متعلق
اردو اور فارسی زبان میںجو تصور پایاجاتاہے اس کا مکمل اظہار نہیںہوتا ۔یہ
الگ بات ہے کہ عربی میںرسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کی توصیف و ثنامیں جو
اشعار کہے گئے تھے ان کو’’ نعت ‘‘تو نہیں، ہاں! ’’مدحیۂ رسول اﷲ‘‘ کا
سرنامہ اہلِ عرب دیاکرتے تھے ،بہ ہر کیف !یہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ
لفظ’’نعت‘‘ کو رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کے وصف و خوبی بیان کرنے والی
مدحیہ نظم کے سرنامہ کے طور پر استعمال کرنے کا سہرا اردو والوں کے سر
جاتاہے۔
عربی زبان کی متذکرۂ بالا لغات میں نعت کے جو معنی درج ہیں ان سے تو یہ
تصور سامنے آتاہے کہ نعت کے معنی وصف کے ہیں خصوصاًجب آپ کسی چیز کے وصف
میں مبالغہ سے کام لیں تو اس وقت نعت کا لفظ استعمال ہوتاہے۔
ڈاکٹر سراج بستوی کے بہ قول : ’’قرآ ن مجید میں اس مادہ ــ’’نعت ‘‘کاکوئی
لفظ استعمال نہیں ہوا ہے۔مفسرین کرام نے قرآن کی شرح و ترجمانی میں اس لفظ
کووصف کے معنی میںاستعمال کیا ہے احادیث رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم و
شمائل ترمذی (حافظ محمد عیسیٰ ترمذی م279ھ) میں نعت کا لفظ اپنی مختلف نحوی
اور صرفی صورتوں میں قریباً پچاس مقامات پر استعمال ہوا ہے۔
مطالعۂ حدیث ہی کی روشنی میں بعض شارحینِ حدیث نے اپنی تحریروں میں نعت کو
مطلق وصف کی عمومیت سے نکال کر اسے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف
وتوصیف سے وابستہ کیا ہے اور اسے ایک خاص مفہوم کا حامل ٹھہرایا ۔غالباً
’’النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر‘‘وہ پہلا ماخذ ہے جس میں اس کے مرتب ابن
اثیر (544ھ/606ھ)نے لفظ نعت کو اصطلاحی مفہوم میں پیش کیاہے۔‘‘
نعت کے اصطلاحی معنوں کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالمجید سندھی نے بھی
اپنے خیال کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے کہ :
ـ’’نعت کے معنی ہیں ـ’خوب صورت وصف ‘یعنی کسی کی خوبیاں بیان کرنا لیکن اب
نعت مستقل اصطلاح کی صورت اختیار کرچکاہے اور اس کے معنی ہیںآںحضرت (صلی
اللہ علیہ وسلم)کی ثنا اور وصف بیان کرنا ‘‘(13)
اس ضمن میں ڈا کٹر رشاد عثمانی کا خیال یوں ہے کہ :
’’اردو لغات میں اگر چہ عربی و فارسی لغات کی پیروی میں نعت کا لفظ مطلق
وصف اور ثناے رسول دونوں معنی میں آیا ہے ۔مگر جیسا کہ ’’نور اللغات‘‘ کے
مرتب نے لکھاہے کہ ’’یہ لفظ بمعنی مطلق وصف ہے لیکن اس کا استعمال آں حضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کی ستایش اور ثنا کے لیے مخصوص ہے‘‘اردو زبا ن و ادب
میں مطلق وصف کے معنی میںاس کا استعمال قریب قریب ناپید ہے۔شعر وادب میں
لفظِ نعت کااستعمال وصف ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کے علاوہ دیکھنے
میں نہیں آیا ۔اس کی بڑی وجہ غالباًیہ ہے کہ عربی سے فارسی اور پھر فارسی
سے اردو شعر وادب تک یہ لفظ وصفِ مطلق کی عمومیت سے نکل کرآںحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم کی تعریف وتوصیف اور مدح و ثنا کے لیے مخصوص ہو چکا تھا۔یعنی
اردو لغت اور زبان وادب میں اس کے معنی سرکا ردوعالم حضرت محمد رسول اﷲ صلی
اللہ علیہ وسلم کی تعریف وتوصیف کے مفہوم سے منسوب و مختص ہے ۔‘‘ (14)
مذکورہ بالا عربی، فارسی ،اُردو لغات اور تمام حضرات کی مختلف آرا کو
سمجھنے کے بعد نعت کے معنی و مفہوم اور تعریف و توصیف میں یہی کہنا منا سب
معلوم ہوتا ہے کہ ہر وہ ادب پارہ جس میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا
ذکر ہو، مدح ہو، ثنا ہو، تعریف وتوصیف ہو، سراپا کا بیان ہو، شبیہ و شمائلِ
اقدس کی لفظی تصویر کشی ہو، عادات واخلا ق کا بیان ہو، فضائل ومحاسن جمیلہ
کا اظہا ر ہو، حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب ہو، آ پ سے استغاثہ وفریاد
ہو، عقیدت ومحبت کے جذبات کی ترجمانی ہو، مقصد وبعثتِ نبوت کا تذکرۂ خیر
ہویاذات رسالت مآ ب صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر جمیل ہو۔ الغرض ہر وہ ادبی
کاوش جو اپنے قاری یاسامع کو مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف
متوجہ کرے اور قرب کا احساس پیدا کرے چاہے وہ نثری ہو یا نظمی
بلاشبہ’’نعت‘‘ہے۔
چناںچہ متذکرۂ بالا خیال کی تصدیق مشہورمحقق ڈاکٹر رفیع ا لدین اشفاقؔ اور
معرو ف ادیب ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی کے گراں قدر خیالات سے ہوتی ہیـ؛ڈاکٹر
رفیع الدین اشفاؔق… ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں :
’’اصولاً آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سے متعلق نثر اور نظم کے ہر
ٹکڑے کو نعت کہا جائے گا،لیکن اردو اور فارسی میں جب لفطِ نعت کا استعمال
ہوتا ہے تو اس سے عام طور پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی منظوم مدح
مراد لی جاتی ہے ۔‘‘ (15)
اور ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی نے یوں تحریر کیا ہے کہ :
’’نعت ایک موضوع کا نام ہے اس کے لیے کوئی خاص صنف ، فارم یا ٹیکنک نہیں ہے
اسے غزل ،مثنوی، مسدس،مخمس ،رباعی ،قطعہ وغیرہ کسی بھی صنف میں لکھا جا
سکتا ہے۔نعت کا موضوع مخصوص نہیں بہت ہی وسیع ہے۔‘‘ (16)
نعت کا موضوع ادب کی کسی ایک صنف سے مخصوص نہیں ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کی تعریف و توصیف اورآ پ کی سیرتِ طیبہ کا تذکرہ کسی بھی صنف اورہیئت
میں ہو سکتا ہے ۔ شعراے کرام نے کم وبیش تمام اصناف میں نعتیں قلم بندکی
ہیں۔جو صنفِ سخن جس عہد میں زیادہ مقبول رہی ، اس کو نعت کے لیے استعمال
کیا گیا ۔
اس تجزیے کے بعد صاحبِ فرہنگِ ادبیات سلیم شہزاد کی نعت سے متعلق مکمل
عبارت نقل کی جارہی ہے جسے نعت کی جملہ تعریفوں میں جامع ترین تعریف سے
تعبیر کرنا غیر مناسب نہ ہوگا ۔ اس میں موصوف نے نعت کی صنفی حیثیت کے ساتھ
ساتھ اس کے عہد بہ عہد عروج و ارتقا کی تاریخ کو بھی اجمالاً سمیٹ لیا ہے:
’’نعت : پیغمبرِ اسلام حضرت محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی تعریف و توصیف کا
حامل کلام ۔ نعت شاعری کی مختلف ہیئتوں میں کہی گئی ہے اور مثنوی اور طویل
بیانیہ نظموں کی یہ روایت رہی ہے کہ ابتدا نعت سے کی جائے۔ عربی اور فارسی
کے اثر سے جس طرح اردو مرثیے میں محض واقعاتِ کربلا کو نظم کردیا جاتا ہے
اسی طرح نعت ایک موضوعی صنفِ سخن ہے جس میں قصائد ، منظوم واقعات ِ سیرت،
غزلیں ، رباعیاں اور مثنویاں سبھی ہیئتیں شامل ہیں ۔ حضور(صلی اللہ علیہ
وسلم) اپنی حیاتِ مبارکہ ہی میں اس شاعری کے زندہ موضوع بن گئے تھے اور آپ
نے کعب بن زہیر ، لبید بن ربیعہ، کعب بن مالک اور حسان بن ثابت وغیرہ اصحاب
سے اپنی نعتیں سماعت فرمائی ہیں ۔ عربی سے نعت فارسی میں آئی تو اسے
حافظؔ، سعدیؔ، صائبؔ اور عرفیؔ جیسے شعرا میسر آئے۔ ہندوستان میں خسروؔ ،
نظامیؔاور بیدلؔنے فارسی میں نعتیں کہیں، خسروؔ نے اسے ہندوستانی بولیوں
میں بھی رواج دیا۔
اردو کے تشکیلی دور میں متعدد صوفی شعرانے اس صنف میں طبع آزمائی اور بہ
طور ایک زبان کے اپنی حیثیت منوا لینے کے بعد اردو کے سبھی چھوٹے بڑے شعرا
کے یہاں اس کی مثالیں تخلیق ہوئیں اگرچہ انیسؔ و دبیرؔ نے جس طرح صرف مرثیے
میں اپنے فنّی کمال دکھائے اس طرح صرف نعت سے منسلک کوئی کلاسیکی شاعر اردو
کو نہیں ملا۔ البتہ یہ سعادت دورِ جدید کے بہت سے شعرا کوحاصل ہے۔
انیسویں صدی کے اواخر میں امام احمد رضاخاں رضاؔ اور محسنؔ کاکوروی نے اپنے
شعری اظہار میں صرف نعت کو جگہ دی جن کاکلام آج بھی زبان زد خاص و عام ہے
ان کے بعد نعت پھر اپنی روایتی حدود میں سمٹ گئی یعنی مثنوی کی ابتدا یا
غزل کے چند اشعار میں ۔ اس ضمن میں ’’مسدسِ حالی‘‘ کی یہ اہمیت ہے کہ اس کے
اختتام پر شاعر نے حضور( صلی اللہ علیہ وسلم )سے خطاب کیا ہے۔ حالیؔ کے بعد
حفیظؔ جالندھری کا ’’شاہ نامۂ اسلام‘‘ جس میں سیرت کے مضامین باندھے گئے
ہیں، جدید نعت نگاری کے لیے تازیانہ بن گیا۔ اقبالؔ کی شاعری عشقِ رسول(
صلی اللہ علیہ وسلم)کے تجربہ پسند شعری اظہار کی مثال ہے۔ اس میں نعت کے
عنوان سے کوئی نظم نہیں ملتی لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے افکار
کی شاعرانہ تفسیر و توضیح نے اقبالؔ کی کئی نظموں کو نعتیہ رنگ دے دیا ہے۔
انجمن ترقی پسند مصنفین اور حلقۂ اربابِ ذوق کے غلبے نے اس صنف کو ایک بار
تو شاعری سے خارج ہی کردیا کیوں کہ ان فن کاروں کے نظریات مادّی ، جسمانی
اور غیر مذہبی( بل کہ مذہب بے زار) نظریات تھے مگر آزادی کے کچھ عرصے بعد
جدید شاعروں نے پھر اسمِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) سے اجالا کرنے کی تخلیقی
کوشش شروع کردی ہیں۔ ان میں اسلامی ادب کے بعض پیرو کار حفیظؔ میرٹھی،
نعیمؔ صدیقی، یونس ؔ قنوجی اور حفیظؔ تائب کے نام اہمیت رکھتے ہیں۔ عمیقؔ
حنفی اور عبدالعزیز خالدؔ نے اپنی طویل نعتیہ نظموں ’’صلصلۃ الجرس‘‘ اور
’’فارقلیط‘‘ کے لیے، جن میں زبان و بیان کے گراں قدر تجربات ملتے ہیں ،
خاصی شہرت پائی ہے، ہندو پاک میں آج کئی شعرا صرف نعت کہنے میں مصروف
ہیں۔‘‘(17)
مشہور و معروف محققین و ناقدین کے گراں قدر اقوال و تاثرات کی روشنی میں اس
امر کی مکمل وضاحت و صراحت ہوجاتی ہے کہ نعت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم
کی تعریف و توصیف میںلکھی جانے والی منظومات ہی کو نہیں بل کہ ایسے نثری شہ
پاروں کو بھی کہا جا تا ہے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی بھی
طرح سے ذکرِ خیر ہو، اور نعت اصنافِ ادب میں نہ صرف یہ کہ شامل ہے بل کہ یہ
ادب کی ہر صنف میں مسلسل لکھی جارہی ہے۔
حواشی
(1)ابن منظور:لسان العرب ،دار لسان العرب ،بیروت ص668
(2)زبیدی :تاج العروس ،باالمطبعۃ الخیریۃ المنشاہ بجمالیہ ،مصر ج 1،ص93
(3) المنجد:مرکزی ادارۂ تبلیغ دینیات ،دہلی ،ص1028
(4) ولیم ٹامسن ورٹے :معجم العربیہ ،مولی رام منیجر مفید عام پریس ،چٹر جی
روڈ ،لاہور ، ص1121/1122
(5) عبد الحفیظ بلیاوی،مولوی:مصباح اللغات ، ایچ ایم سعید اینڈ کمپنی لاہور
،ص887
(6) خانصاحب سید احمد دہلوی، مولوی : فرہنگ آصفیہ ،نیشنل اکاڈمی
دہلی،1974ء ج4،ص579
(7) غیاث الدین:غیاث اللغات،رزاق پریس ،کان پور 1332ھ
(8)لغاتِ فارسی : پبلشر لالہ رام نرائن لال بینی مادھو ،الٰہ آباد،1931ء،ص
904
(9)لغات کشوری :مولوی تصدق حسین رضوی ،دارلاشاعت کراچی ،ص537
(10) نوراللغات : مولوی نورالحسن نیّرؔ کاکوروی ،قومی کونسل براے فروغِ
اردو زبان ،نئی دہلی،1998ء،ص 833
(11) فیروزالدین ،مولوی:فیرو زاللغات ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤ س دہلی ،ص683
(12) سلیم شہزاد:فرہنگ ادبیات ،منظر نما پبلشرز ،مالیگاؤں، ص709
(13)اوج: نعت نمبر ج2،گورنمنٹ کالج شاہدرہ ،لاہور ص562
(14)اوج: نعت نمبر ج2،گورنمنٹ کالج شاہدرہ ،لاہور ص155
(15) رفیع الدین اشفاقؔ ،ڈاکٹر :اردو کی نعتیہ شاعری،اردو اکیڈمی، سندھ،
1976ء ،ص 21
(16)عبدالنعیم عزیزی ،ڈاکٹر :رضا گائڈ بک ،رضا اکیڈمی برطانیہ ،ص2
(17)سلیم شہزاد:فرہنگِ ادبیات، منظر نما پبلشرز ، مالیگاؤں ، ص 709/710
|