’کوہِ نور ہیرا سے ملک کی دستبرداری !

ہندوستان نے برطانیہ کی ملکہ کی ماں کے تاج میں جڑے ہوئے ہیرے کوہ نور کی واپسی کا مطالبہ عرصے سے کرتی آرہی ہے۔ بالی وڈ کے اداکار اور تاجروں کے ایک گروپ نے لندن کی ہائی کورٹ میں کوہ نور ہیرے کی واپسی کے لیے قانونی کاروائی شروع بھی کر دی تھی۔ کوہ نور دنیا کا سب سے مہنگا ترین ڈائمنڈ جس کی قیمت 100 ملین ڈالر ہے جو برطانیہ کے ملکہ کی والدہ کے تاج میں نقش ہے۔کوہ نور کو ملکہ نے اپنے شوہر کی تاج پوشی کے موقع پر 1973 میں پہنا تھا۔ بھارت کے تفریحی ٹیٹوز کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کوہ نور جسے روشنیوں کا پہاڑ بھی کہتے ہیں بھارت سے چوری ہوئے نواردات میں سے ایک ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پتھر کو آخری سکھ حکمران دلیپ سنگھ نے ملکہ برطانیہ کو پنجاب کی حکومت کے بدلے میں دیا تھا۔ بالی وڈ کے اداکار بھومیکا سنگھ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کوہ نور محض 105 کیرٹ کا پتھر میں بلکہ بھارت کی تاریخ اور ثقافت کی نشانی ہے۔برطانوی وکلا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ہولوکاسٹ(ثقافتی اشیا کی واپسی ) کے ایکٹ کے تحت کوہ نور کی واپسی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت قیمتی اشیا کو چرانے کے جرم میں برطانوی حکومت پر انٹر نیشنل ہائی کورٹ میں مقدمہ درج کرے گا۔ ماہر تاریخ دان کا کہنا تھا کہ بیش قیمت پتھر کوہ نور برطانیہ کی ملکہ کے تاج میں جڑا ہے جو اس پتھر کی حفاظت کے صحیح جگہ ہے۔ روائتی کہانیوں کے مطابق تاج میں جڑا ہوا پتھر یا تو دیوتا یا دیوی پہن سکتے ہیں۔ان کے مطابق ہیرے کو اگر کوئی خاتون پہنے گی تو وہ سب سے زیادہ طاقت ور بن جائی گی اور اگر مرد پہنے گا تو وہ اس کی بد قسمتی ہو گی۔ کوہ نور پتھر کوملکہ الیگزینڈر اور ملکہ میری کے تاج میں بھی لگایا گیا تھا۔ البتہ برطانوی حکومت نے بھارت کے کوہ نور واپس کرنے کے مطالبہ کو مسترد کر دیا ہے۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ کوہِ نور نامی ہیرا چوری نہیں کیا گیا تھا بلکہ مرضی سے سابق نو آبادیاتی حکمرانوں کو دیا گیا تھا۔ ایک شہری نے اس ہیرے کی واپسی کی درخواست دائر کی تھی۔پیر اٹھارہ اپریل کو حکومتِ بھارت کی جانب سے سپریم کورٹ میں یہ جواب داخل کروایا گیا کہ بھارت جس بڑے سائز کے مشہور ہیرے کی واپسی کے لیے گزشتہ کئی عشروں سے جدوجہد کرتا رہا ہے، اب اْسے ’کوہِ نور‘ نامی اس ہیرے پر اپنی ملکیت کا دعویٰ ختم کر دینا چاہیے کیونکہ اسے چوری نہیں کیا گیا تھا بلکہ سابق نو آبادیاتی حکمرانوں کو تحفے کے طور پر دیا گیا تھا۔ایک سو پانچ قیراط کا کوہِ نور دنیا کے بڑے سائز کے ہیروں میں شمار ہوتا ہے اور گزشتہ ایک سو پچاس برسوں سے برطانیہ کے شاہی خاندان کے جواہرات کا ایک حصہ ہے۔ یہ ہیرا اْس تاج میں جڑا ہوا ہے، جسے کبھی موجودہ ملکہ الزبتھ کی والدہ پہنا کرتی تھیں۔یہ ہیرا ایک طویل سفارتی جدوجہد کا مرکز و محور رہا ہے اور ہندوستان کے بہت سے شہری برطانیہ سے یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ اپنے نوآبادیاتی ماضی کی تلافی کے طور پر اْسے یہ ہیرا بھارت کو واپس کر دینا چاہیے۔تاہم وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے پیر کو نئی دہلی میں سپریم کورٹ کو بتایا کہ ہندوستان کو کوہِ نور پر اپنے دعوے سے دستبردار ہو جانا چاہیے کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ سن 1851میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے یہ ہیرا برطانوی حکمرانوں کو تحفے کے طور پر دیا تھا۔ اس ہیرے کی واپسی کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ایک درخواست کے جواب میں ایڈووکیٹ جنرل رنجیت کمار نے عدالت کو بتایا کہ ’اس ہیرے کو نہ تو چرایا گیا تھا اور نہ ہی زبردستی چھینا گیا تھا‘۔کوہِ نور کو آج کل ’ٹاور آف لندن‘ میں نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ اسے موجودہ ملکہ الزبتھ کی والدہ نے، جن کا نام بھی الزبتھ ہی تھا، سن 1937ء میں اپنے شوہر جارج ششم کی تاج پوشی کے موقع پر پہنا تھا جبکہ بعد ازاں اسے 2002 میں اْن (الزبتھ) کے تابوت پر بھی رکھا گیا تھا۔حال ہی میں اپنے شوہر پرنس ولیم کے ساتھ بھارت کا دورہ کرنے والی ڈچز آف کیمبرج برطانوی ملکہ بننے کی صورت میں سرکاری تقریبات کے دوران اس ہیرے کا حامل تاج پہنا کریں گی۔ تاجِ برطانیہ کی جانشینی کے سلسلے میں اپنے والد چارلس کے بعد پرنس ولیم آج کل دوسرے نمبر پر ہیں۔واضح رہے کہ سن 2010ء میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے دورہ ہندوستان کے موقع پر یہ کہا تھا کہ یہ ہیرا لندن ہی میں رہے گا۔ تب اْنہوں نے کہا تھا: ’’اس طرح کے سوالات کے سلسلے میں عموماً ہوتا یہ ہے کہ جب آپ ایک چیز کے جواب میں ہاں کہتے ہیں تو آپ اچانک دیکھیں گے کہ پورا برٹش میوزیم ہی خالی ہو گیا ہے۔‘‘سپریم کورٹ میں یہ درخواست ایک شہری نفیس احمد صدیقی کی طرف سے دائر کی گئی تھی، جس میں بہت سے دیگر بھارتی شہریوں کے نقطہ نظر کی تائید کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ کوہِ نور اْن بہت سے نوادرات میں سے ایک ہے، جو برطانوی حکمران اپنے نو آبادیاتی دور کے دوران یہاں سے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق سپریم کورٹ میں حکومتی جواب پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے نفیس احمد صدیقی نے کہا: ’’برطانوی حکمرانوں نے ہندوستان کو لْوٹا تھا اور اب ہمارے دعووں کی تائید نہ کرتے ہوئے حکومت ایک غلطی کی مرتکب ہو رہی ہے۔‘‘واضح رہے کہ سرحد پار پاکستان میں بھی مختلف اوقات میں شہریوں کی جانب سے اسی طرح کی درخواستیں عدالتوں میں دائر کی جاتی رہی ہیں، جن میں یہی موقف اختیار کرتے ہوئے برطانیہ سے یہ ہیرا واپس لانے کے لیے کہا جاتا رہا ہے۔
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 101921 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.