افغان مہاجرین کا بوجھ اور پاکستان

 پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق اِس وقت 25 لاکھ افغان مہاجرین آباد ہیں۔ جن میں دس لاکھ شہری غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہیں۔ مختلف شہروں میں کئی دہائیوں سے مقیم افغان مہاجرین کے قیام میں مزید دو سال کی توسیع کردی گئی ہے۔ افغان شہریوں کے قیام کی مدت اِس سال کے آخر تک ختم ہورہی تھی، تاہم پاکستان میں اِس معاہدے کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ اِس بات کا فیصلہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پاکستان، افغانستان اور اقوام متحدہ کے ادارے یواین ایچ سی آر پر مشتمل سہ فریقی کمیشن کے دو روزہ اجلاس کے اختتام پر کیا گیا۔ گزشتہ سال دسمبر میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر طالبان حملے کے بعد پاکستان بھر میں غیر قانونی طور پر رہنے والے افغان شہریوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیوں کا آغاز کیا گیا تھا، اِن کارروائیوں میں سیکڑوں افراد کو گرفتار کرکے واپس اپنے وطن بھیجا گیا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی ایسی کارروائی تھی جس سے اِس وقت ایسا تاثر مل رہا تھا کہ شاید پاکستان مہاجرین کے قیام میں مزید توسیع نہیں کرے گالیکن ایک بار پھر اِس میں توسیع کردی گئی۔ اِس صورت حال سے پاکستان اور خصوصاً صوبہ خیبرپختونخوا میں جو جرائم ہورہے ہیں، اِن میں بعض افغان گروہوں کے ملوث ہونے کی وجہ سے اب مقامی آبادی اِن سے عاجز آچکی ہے۔ اِس لیے زیادہ بہتر ہوگا کہ اِن مہاجرین کی جلد واپسی ممکن بنائی جائے، اسی میں دونوں ملکوں کی بہتری ہوگی۔افغانستان جو ہمارا ہمسایہ اسلامی ملک ہے اور افغان مہاجرین قریباً گزشتہ 40 برسوں سے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔ جب سے پاکستان میں 60 لاکھ افغان مہاجرین وارد ہوئے ہیں تب سے وطن عزیز بے انتہا مسائل کا شکار ہے، لیکن پاکستان نے اِن تمام مسائل کی پروانہ کرتے ہوئے افغان مہاجرین کیلئے بے انتہاقربانیاں دی ہیں لیکن اِن قربانیوں کے نتیجے میں ہوا یہ کہ پاکستان کے خلاف حکومت کے حمایتی علماء کے فتوے اور افغانستان کے یومِ آزادی پر وہاں پاکستانی پرچموں کو نذر ِ آتش کردیا گیا۔ افغانستان میں پاکستانی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیا گیا۔ افغانستان نے پاکستان مصنوعات پر ڈیوٹی ٹیرف بڑھا دیا ہے تاکہ پاکستانی مصنوعات مہنگی قیمت پر ملیں افغانستان نے پاکستانی میڈیسن پولٹری اور گوشت پر بھی مکمل پابندی لگا دی ہے اور اس کی جانب سے گزشتہ دونوں پاکستانی سرحد پر راکٹ فائر کیا گیا، جس سے 4 پاکستانی سکیورٹی اہلکار شہید اور 4 زخمی ہوگئے جب کہ کابل میں پاکستان کے سفارت خانے کے عملے نے اغواء اور جان کے خطرات لاحق ہونے کی وجہ سے مکانوں کے بجائے سفارت خانے کے کمپاؤنڈ میں رہائش اختیار کرلی ہے۔ پاکستانی عملے کو شبہ تھا کہ گھر سے روزانہ سفارت خانے پہنچنے تک راستے میں گاڑیاں کا تعاقب کرتی ہیں اور نامعلوم افراد ویڈیو اور تصاویر بناتے ہیں جب کہ یہ لوگ افغان خفیہ ایجنسی کے اہلکار بتائے جاتے ہیں، جن پر پاکستانی عملے کی ریکی کرنے کا شبہ ہوا ہے۔ یاد رہے کہ کابل میں تعینات پاکستانی عملے کے خاندان ان کے ساتھ نہیں رہ سکتے جب کہ اسلام آباد افغان سفارت کاروں کیلئے فیملی اسٹیشن ہے۔ پاکستانی عملے کا کہنا ہے کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے کیلئے یہ کام کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ ایسی خبر یں بھی ہیں کہ افغانستان میں قائم پاکستانی سفارت خانے عملے کے اہلکار کو اغواء کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ آخر یہ کیا ہورہا ہے؟ اِن حالات میں ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ فی الفور افغان مہاجرین کو افغانستان واپس بھیجا جائے۔ 2012ء میں حکومت پاکستان نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ افغان مہاجرین کو دسمبر 2015ء کے بعد ہر گز پاکستان رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، لیکن حالات کچھ اور ہی طرف جارہے ہیں۔ افغان مہاجرین کو پاکستان میں 40 سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے اور یہاں اِن کی دوسری نسل جوان ہو چکی ہے۔ مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کا کسی ملک میں رہنا تاریخ میں پہلی بار دیکھا گیا ہے۔ افغان روس جنگ شروع ہوتے ہی افغان مہاجرین کی پاکستان آمد شروع ہوگئی اور قریباً پچاس سے ساٹھ لاکھ مہاجرین نے پاکستان میں پناہ لی۔ پاکستان نے انصارِ مدینہ کا کردار ادا کرتے ہوئے مہاجرین کو گلے سے لگایا اور اِن کو اپنے کاروبار، رہائش اور خوراک میں برابر کا حصہ بنایا۔ خیبر پختونخوا میں اِس وقت 15 لاکھ مہاجرین قانونی طور پر آباد ہیں۔ یہاں بالخصوص ضلع پشاور، ہری پور، نوشہرہ، مانسہرہ، ایبٹ آباد، مردان اور چارسدہ وغیرہ کی معیشت پر اِن کا قبضہ ہے۔ پاکستان نے قریباً پچاس سے ساٹھ لاکھ افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کرکے نیک نامی تو کمائی مگر دوسری جانب اسی بناء پر پاکستان کے اُوپر طالبان کی محفوظ پناہ گاہ بنانے کے الزامات بھی لگ جو ہمارے بارے میں منفی تاثرات کا باعث بھی بنے۔ یہ صورت حال اب تک جاری ہے۔ اِس پر غور کرنے اور حالات میں تبدیلی لانے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو امریکا کی جنگ بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی، اِس جنگ میں ارضِ پاک کو 70 ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور دس ہزار فوجیوں سمیت 60 ہزار عام پاکستانی اِس جنگ کا ایندھن بن گئے۔ امریکا تو جنگ جیت یا ادھوری چھوڑ کر واپس جارہا ہے۔ جب کہ پاکستان میں اِس جنگ کے شعلے ہنوز بھڑک رہے ہیں۔ امریکا کو افغانستان پر حملوں اور وہاں اپنی افواج کی موجودگی کیلئے جس طرح پاکستان کی ضرورت رہی ہے انخلاء کے دوران اِس کی زیادہ ضرورت ہوگی اور بعد از امریکا افغان حکمرانوں کو افغانستان میں اپنے اقتدار کی بقا کے لیے پاکستان کا ہمہ وقت تعاون درکار ہوگا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان گزشتہ 40 برس سے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دیئے ہوئے ہے۔ شروع میں تو عالمی برادری مہاجرین کی ہر قسم کی امداد جاری رکھے ہوئے تھی، تاہم گزشتہ کئی برس سے وطن عزیز تن تنہا اِن مہاجرین کا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہے، اِن کی موجودگی کی وجہ سے پاکستان اپنی اقتصادی صورت حال پر کس قسم کے منفی اثرات پڑے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ پاک افغان سرحد کی مجموعی لمبائی 1660 کلومیٹر ہے جس میں آمدورفت روکنے کے حوالے سے کوئی مناسب انتظام نہیں ہے۔ قتل، ڈکیتی، اغواء برائے تاوان اور کار چوری جیسی وارداتوں میں بعض افغان مہاجرین کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد کے باوجود وفاقی حکومت لاکھوں افغان کی بلا جواز مہمانداری کو جاری رکھے ہوئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 17 ہزار سے زائد افغان باشندے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوچکے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ بارڈر کنٹرول مینجمنٹ کا معاہدہ صرف کاغذوں اور فائلوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، مہاجرین کو آزادانہ نقل و حرکت اور شہروں میں قیام کاروبار کرنے اور جائیدادیں خریدنے تک کی اجازت ہے اور ہزاروں افغان مہاجرین کو نادرا کے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بھی جاری ہو چکے ہیں۔ وفاقی حکومت کو خیبرپختونخوا حکومت کے ساتھ بامقصد مشاورت کرکے افغان مہاجرین کی واپسی کا لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ صرف افغانستان کی موبائل کمپنیوں کی سموں پر رومنگ کی سہولت بند کرنے سے جرائم میں کمی کا مقصد حاصل نہیں ہو سکے گا۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے افغان مہاجرین کو بلا تاخیر ان کے اپنے وطن واپس بھیجنے کا انتظام کرے۔ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق اِس وقت 25 لاکھ افغان مہاجرین آباد ہیں۔ جن میں دس لاکھ شہری غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہیں۔کیا یہ سب کچھ حکمرانوں کو نظر نہیں آتا۔
Waqar Fani
About the Author: Waqar Fani Read More Articles by Waqar Fani: 73 Articles with 63890 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.