اشرافیہ ٹیکس کی ادائیگی سے آزاد
(عابد محمود عزام, Karachi)
اشرافیہ ٹیکس ادائیگی سے آزاد....عوام پر
نت نئے ٹیکسوں کی بھرمار
دنیا بھر کی حکومتوں کا دارومدار عوام وخواص کی طرف سے قومی خزانے میں جمع
کرائے گئے ٹیکسوں پر ہوتا ہے مگر پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس ملازمت پیشہ
اور غریب عوام دیتے ہیں، جن پر بے شمار بے تکے ٹیکس عاید کر کے ان کی زندگی
اجیرن بنادی جاتی ہے، جب کہ دوسری طرف بیشتر ایلیٹ کلاس کو ہر طرح کی چھوٹ
حاصل ہوتی ہے، جن میں بڑے جاگیردار، سرمایہ دار، سیاستدان اور وڈیرے شامل
ہوتے ہیں۔ دنیا کے کئی ملکوں میں امیروں سے ٹیکس لے کر وہ رقوم غریبوں کی
فلاح بہبود پر خرچ کی جاتی ہیں، مگر ہمارے ہاں غریبوں سے ٹیکس لے کر امیروں
بالخصوص حکمرانوں کی موج مستیوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ مختلف ذرایع سے حاصل
ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق 23 لاکھ 80 ہزار لوگ محل نما گھروں میں
رہتے ہیں، قیمتی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں، وقتاً فوقتاً غیر ملکی دورے کرتے
ہیں، مختلف بینکوں میں اکاشنٹ رکھنے کے ساتھ ساتھ بھاری یوٹیلٹی بل تو
بھرتے ہیں، لیکن انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے، جبکہ ٹیکس حکام ان امیر لوگوں کو
ٹیکس دائرے میں لانے کا تکلف بھی نہیں کرتے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس ملک بھر میں
موجود انکم ٹیکس کمشنروں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ ان افراد کی رجسٹریشن کریں
جن کی آمدنی پر ٹیکس لاگو ہوتا ہے، اس کے باوجود ہمیشہ امیر طبقہ ٹیکس کی
ادائیگی سے چھوٹ حاصل کرلیتا ہے۔ گزشتہ روز 9 سالوں سے زرعی ٹیکس ادا نہ
کرنے والے 24 اعلیٰ ترین حکومتی و سیاسی شخصیات کا ریکارڈ عدالت میں پیش
کیا گیا ہے۔ ذرایع کے مطابق چیئرمین ایف بی آر کی طرف سے یہ ریکارڈ عدالت
میں پیش کرتے ہوئے بتایا گیا کہ بادی النظر میں یہ شخصیات بااثر ہیں اور
زرعی ٹیکس کی ادائیگی کے نوٹس ملنے کے باوجود ٹیکس ادا نہیں کرتیں، بلکہ
عدالتوں سے رجوع کرلیتی ہیں۔ ان میں 9 سینیٹرز اور 15 وزراءاور ممبران
اسمبلی ہیں۔ جو 9 سنیٹرز زرعی ٹیکس ادائیگی نہیں کرتے، ان میں سابق چیئرمین
سینیٹ سینیٹر نئیر حسین بخاری کی ملکیتی 113 ایکڑ زرعی اراضی ہے، جس میں 60
ایکڑ ذاتی اور باقی 53 ایکڑ دونوں میاں بیوی کے نام ہے۔ سینیٹر سردار جمال
خان لغاری کے زیر استعمال 50 لاکھ 90 ہزار چار سو روپے مالیت کی زرعی اراضی
ہے، مگر کاغذات میں زرعی اراضی کی بابت کچھ نہیں بتایا گیا کہ وہ کہاں اور
کتنی ہے۔ سینیٹر نعیم حسین چھٹہ بھی چالیس ملین زرعی اراضی کے مالک ہیں،
مگر رقبہ کی بابت کاغذات میں کچھ نہیں بتایا۔ سینیٹر سید جاوید علی شاہ 136
ایکڑ زرعی اراضی کے مالک ہیں، جن میں سے 87 ایکڑ ان کے نام، جبکہ 49 ایکڑ
دونوں میاں بیوی کی مشترکہ ملکیت ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ سینیٹر شجاعت
حسین 90 ایکڑ اراضی کے مالک ہیں۔ سینیٹر راجا ظفر الحق ساڑھے23 ایکڑ زرعی
اراضی کے مالک ہیں۔ سابق سینیٹر صغریٰ امام 130 ایکڑ زرعی اراضی کی مالکہ
ہیں۔ سینیٹر اسلام الدین شیخ 172 ایکڑ زرعی اراضی جبکہ سابق سینیٹر
عبدالحفیظ شیخ 47 ایکڑ زرعی اراضی کے مالک ہیں، جو 15 ممبران قومی اسمبلی
زرعی اراضی کے مالک ہیں اور طویل عرصہ سے زرعی ٹیکس ادا نہیں کرتے، ان میں
وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے پاس 138 ایکڑ زرعی اراضی ہے، جس میں سے
78 ایکڑ کے وہ ذاتی مالک ہیں، جبکہ 60 ایکڑ ان کی بیوی اور بچوں کی مشترکہ
ملکیت ہے۔ چودھری پرویز الہٰی 90 ایکڑ زرعی اراضی کے مالک ہیں۔ عبدالحمید
886 ایکڑ زرعی اراضی کے تنہا مالک ہیں۔ مخدوم سید فیصل سالح حیات کے پاس
194 ایکڑ زرعی اراضی ہے۔ سمیرا مالک کے پاس 12 سو 83 ایکڑ زرعی اراضی ہے،
جس میں سے 1187 ایکڑ کی ذاتی مالکہ اور 94 ایکڑ دونوں میاں بیوی کے نام ہے۔
ریاض فتیانہ ایم این اے 20 ملین قیمتی زرعی اراضی کے مالک ہیں۔ اراضی کی
بابت کاغذات ”خالی“ ہیں کہ یہ کہاں اور کتنی ہے۔ سابق وزیر قمر الزمان
کائرہ 35 ملین کی قیمتی زرعی اراضی کے مالک ہیں، مگر اراضی کی بابت کچھ
نہیں بتایا گیا۔ سابق وفاقی وزیر فردوس عاشق اعوان بھی 22 ملین کی قیمتی
زرعی اراضی کی مالکہ ہیں، مگر کاغذات میں اراضی کی بابت کچھ نہیں بتایا
گیا۔ وفاقی وزیر احسن اقبال 66 ایکڑ زرعی اراضی کے مالک ہیں۔ سردار طالب
حسین نکئی بھی 94 ایکڑ زرعی اراضی کے مالک ہیں۔ پیپلزپارٹی کے میاں منظور
وٹو بھی 99 ایکڑ زرعی اراضی رکھتے ہیں۔ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی 360
ایکڑ اراضی کے مالک ہیں، ان میں 50 ایکڑ ذاتی، جبکہ 310 ایکڑ بیوی بچوں کے
نام ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی بھی 76 ایکڑ زرعی اراضی کے مالک ہیں۔ تہمینہ
دولتانہ 112ایکڑ زرعی اراضی، جبکہ سابق وزیر حنا ربانی کھر 226 ایکڑ زرعی
اراضی کی مالکہ ہیں۔ ان شخصیات پر ان کی اراضی کے حساب سے اچھا خاصا ٹیکس
لاگو ہوتا ہے اور ان کو ٹیکس ادائیگی کے نوٹس بھی بھیجے جاتے ہیں، لیکن یہ
عدالتوں سے رجوع کر کے ٹیکس کی ادائیگی سے جان چھڑا لیتی ہیں۔
پاکستان میں ٹیکس چوری کا دائرہ جہاں روز بروز وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے،
وہاں عشروں سے کوئی بھی حکومت ٹیکس نیٹ ورک میں کوئی قابل ذکر توسبع نہیں
کرسکی۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق پاکستان میں ٹیکس چوری اور دھوکا دہی کی
ابتدا حکام بالا خود کرتے ہیں۔ اس وقت اعلیٰ عہدوں پر فائز متعدد افسران،
صوبائی اور وفاقی وزرائ، صنعتکار، تاجر، ارکان پارلیمینٹ، جاگیردار اور
صاحب ثروت افراد کی بڑی تعداد ٹیکس چوری میں ملوث ہے، جبکہ غریب اور متوسط
طبقہ بالواسطہ ٹیکسوں کی ادائیگی کے باعث جو مختلف اشیائے ضروریہ کی قیمتوں
میں اضافہ کی صورت میں لگایا جاتا ہے، حالانکہ گزشتہ دنوں اسلامی نظریاتی
کونسل نے کہا ہے کہ صارفین سے اشیا کی خریداری پرٹیکس وصولی غیراسلامی ہے۔
ٹیکس صرف آمدن پر لگایا جاسکتا ہے، بالواسطہ ٹیکسز کا نفاذ غیراسلامی اور
شرعی اصولوں کے منافی ہے، جبکہ ملک میں تمام تر ٹیکسز صارفین سے ہی وصول
کیے جاتے ہیں۔ غریب عوام کو دو روپے کی کسی شے پر بھی ٹیکس ادا کرنا پڑتا
ہے، جبکہ بااثر طبقہ تمام تر ٹیکسز سے آزاد ہوتا ہے۔ پاناما لیکس میں جن
شخصیات کا نام آیا ہے، ان کا مقصد بھی خود کو ٹیکسز سے محفوظ رکھنا ہے،۔ملک
کے وزیر اعظم کی فیملی ہونے کی حیثیت سے شریف فیملی کوسب سے زیادہ ٹیکس ادا
کرنا چاہیے تھا، لیکن شریف فیملی کا نام پاناما لیکس کے ذریعے دنیا کے سب
سے بڑے ٹیکس چوروں کی فہرست میں شامل ہے، جبکہ وزیر اعظم ٹیکس چوری میں
ملوث اپنے فیملی ممبران کو سزا دینے کی بجائے خود ان کا دفاع کر رہے ہیں
اور اپنی فیملی کے بچاﺅ کے نت نئے جواز تراشتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے
سربراہ عمران خان نے لاہور میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ شریف
برادران خود کو بچانے کے لیے حقائق پر پردہ ڈال رہے ہیں۔ وہ بتائیں انہوں
نے کتنا ٹیکس دیا ہے۔ پی ٹی آئی رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے بیٹوں
نے 1990ءسے آج تک کتنا ٹیکس ادا کیا ہے اور پاناما میں بتائی جانے والی
کمپنیوں کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا۔ بتایا جائے نواز شریف نے منی لانڈرنگ
کے ذریعے کتنا پیسہ باہر بھیجا ہے۔
پاکستانی اشرافیہ کی بہت بڑی رقوم بیرون ملک بینکوں میں جمع ہے، پاکستان کی
اشرافیہ اگر اس دولت کو واپس لاکر ملک میں کاروبار کرے اور مکمل ٹیکسز ادا
کرے تو نہ صرف ملک کا تمام تر قرضہ اتر سکتا ہے بلکہ ملک خوب ترقی بھی
کرسکتا ہے، لیکن ان کو صرف اور صرف اپنی دولت میں اضافہ کرنے سے غرض ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح فلپائن اور ایتھوپیا
جیسے پسماندہ ممالک سے بھی کم ہے، جب یہ صورتحال ہو تو ملک کس طرح ترقی کر
سکتا ہے؟۔ ان حالات میں وسائل پر قابض اشرافیہ، بڑے زمینداروں، حصص کا
کاروبار کرنے والوں، جائیدادوں کی خرید و فروخت کرنے والوں اور تعمیراتی
کام کرنے والوں اور تاجروں سے ٹیکس کی وصولی یقینی بنانے کی ضرورت ہے اور
اس کے ساتھ رفتہ رفتہ قابل محصول آمدنی کے حامل ہر شخص کو براہ راست ٹیکس
کے دائرے میں لایا جائے۔ ٹیکس کا نظام کسی بھی ملک کی سماجی اور معاشی
پالیسیوں پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتا ہے، لیکن اس پر پاکستان میں واجب
توجہ نہیں دی گئی۔ سوشل جمہوریت میں ٹیکسز کا سب سے اہم مقصد معاشی انصاف
کی فراہمی ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد ٹیکس کے بوجھ کو تقسیم کرنے اور عوامی سطح
پر خرچ کی جانے والی رقم کے فوائد سب شہریوں تک پہنچانے پر استوار ہوتی ہے۔
اس کی ترتیب اس طرح ہوتی ہے کہ اشرافیہ طبقوں سے زیادہ ٹیکس وصول کرکے کم
آمدنی والے اور غریب افراد پر زیادہ رقم خرچ کی جائے۔ بدقسمتی سے پاکستان
میں مختلف حکومتیں عوام سے حاصل کیے گئے ٹیکسزکو اپنے آرام و آسائش پر خرچ
کرتی ہیں۔ جابرانہ ٹیکس کے نظام کے ذریعے امیر افراد کو امیر تر اور غریب
افراد کو غریب تر بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس بڑھتی ہوئی معاشی ناہمواری سے
سماجی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ٹیکسز سے چھوٹ عام آدمی کو نہیں، بلکہ دولت مند
اور طاقت ورا فراد کو حاصل ہے۔ وہ ٹیکس کے نظام میں موجود خامیاں اور لیکیج
دور کرنے کی کوئی پالیسی یا خواہش نہیں رکھتے۔ ٹیکس کے موجودہ نظام کے ہوتے
ہوئے پاکستان معاشی ترقی اور خوشحالی کی منزل حاصل نہیں کرسکتا۔
ملک میں وقتی اقدامات کی بجائے انسانی وسائل بڑھانے میں سرمایہ کاری کرنے
کی ضرورت ہے۔ حکومت کو تعلیم، تربیت اور صحت کے منصوبوں میں سرمایہ کاری
کرنا ہوگی۔ دولت مند ٹیکس دہندگان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان افراد کا بھی
بوجھ اٹھائیں، جن کے وسائل کی سکت کم ہے، نہ کہ وہ ان کی رگوں سے نچوڑی گئی
رقم پر عیاشی کریں۔ پاکستان میں غریب افراد بھاری ٹیکسز کے بوجھ تلے دبے
ہوئے ہیں جبکہ چند خاندانوں پر مشتمل اشرافیہ طبقہ ان سے حاصل کردہ دولت کو
اپنا مال سمجھ کر خرچ کرتا ہے۔ یہ افراد ٹیکس ادا نہیں کرتے ہیں، یا بہت کم
اداکرتے ہیں۔ مہذب ممالک ٹیکس چوری سے زیادہ سنگین کوئی جرم نہیں۔ ملک کی
دولت پر قابض چند فیصد لوگ جن کی دولت تمام واجب الادا ٹیکس ادا کرنے کے
باوجود بھی کم نہیں ہوتی، وہ بھی اگر ٹیکس بچانے کے لیے نت نئے طریقوں کی
تلاش میں رہیں تو یہ اخلاقی دیوالیے پن کی پستی کی انتہا ہے۔
|
|